جامعۃ العلوم گڑھا میں تین دن

از قلم: محمد زبیر ندوی
سرزمین گجرات کے افق پر آفتاب عالم تاب اور ماہتاب شب تاب بن کر روشن ہونے والے ادارے اپنی انفرادی شان و بان رکھنے والے مدرسہ جامعۃ العلوم گڑھا میں احقر حالیہ تین دنوں سے قیام پزیر ہے، یہ ادارہ احمدآباد کے شمال میں تقریباً نوے کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک گاؤں گڑھا میں ہے، یہ ادارہ اپنے تعلیمی نصاب و نظام اور یکتا انداز تربیت سے ایک خاص مرکز اور منفرد پہچان رکھتا ہے، اس کا اپنا ذاتی نصابِ تعلیم ہے، حفظ و تجدید اور عالمیت کے علاوہ شعبہ افتاء و تحقیق و تصنیف بھی قائم ہے۔
ان تین دنوں میں احقر نے یہاں کے منتظمین، اساتذہ، تلامذہ، نصابِ تعلیم، نظام تعلیم وتربیت، طریقہ نشست و برخاست، انداز خورد و نوش، طریقہ بود و باش بہت قریب سے دیکھا، عربی کی ابتدائی تعلیم کے لئے ڈیجیٹل کلاسیز تیار ہورہی ہیں، شروع ہی سے طلبہ کو عربی اور انگریزی تکلم کا عادی بنایا جاتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمیت کے ساتھ ہائی اسکول اور انٹر کی بھی تعلیم کا معقول بند و بست ہے اور سرکاری سطح پر اس کے امتحانات دلائے جاتے ہیں، انتظامیہ اس سلسلے میں نہایت قابلِ تعریف ہے کہ انہیں اپنے نظام پر مکمل کنٹرول ہے، قوانین و ضوابط صرف کاغذات تک نہیں بلکہ عملی انداز میں نافذ ہیں، خلاصہ یہ کہ یہ ادارہ قابلِ تعریف بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی، مثالی بھی ہے اور بے نظیر بھی، مختصر میں مزاحا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہندوستان کا واحد گڑھا ہے جو نہایت صاف و شفاف اور گل و گلزار اور لالہ زار ہے، خدا اسے نظر بد سے بچائے اور اس کی آب و تاب میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے، مہتمم صاحب اور تمام منتظمین و اساتذہ کے حوصلوں کو پر پرواز اور نگاہوں کو بلندی عطاء فرمائے کہ:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
Comments are closed.