اتباع کامل شرک فی النبوۃ ہے! (دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے سے ماخوذ)

 

 

عاطف سہیل صدیقی

 

ہمارے یہاں عقیدت کی تعریف اپنے پیر و مرشد یا قائد کو تنقید سے بالاتر ماننا ہے۔ جب کہ حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز ایسی عقیدت کو شرک فی النبوۃ کہتے ہیں۔ ایسی عقیدت کے متعلق حکیم الامتؒ سے سوال کیا گیا تو اپ نے اسکا تفصیلی جواب عنایت فرمایا۔ یہ سوال در اصل پیرو مرشد اور مسترشد کے درمیان تعلق سے متعلق تھا؛ لیکن ہمارے یہاں تو عقیدت کا یہ معیار تنظیموں سے وابستہ قائدین اور سیاسی رہنماوں پر بھی لاگو کردیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کہیں اور کریں بس آنکھ بند کرکے ان کی اتباع کرو اور اگر کچھ غلط کہہ بھی دیں یا کردیں تو اس کی تاویل کرو لیکن ان پر نہ تنقید کرو اور نہ انکے اقوال و عمل کی گرفت!

 

انبیاء کے بعد غیر انبیاء کی کامل اتباع کے سلسلے میں ہی ایک شبہ کا جواب حکیم الامت علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ جواب بڑی تفصیل کے ساتھ عبدالماجد دریابادی کی تصنیف ”حکیم الامت نقوش و تأثرات“ میں حکیم الامت علیہ الرحمہ کا ہی ایک مضمون الاعتدال فی متابعة الرجال” کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ کامل اتباع کے متعلق حضرت مجدد ملت قدس سرہ العزیز رقم طرازہیں کہ:

 

”شبہ نفس اتباع میں نہیں، اتباعِ کامل میں بار بار پیدا ہوتا ہے اور دل کہتا ہے کہ یہ صورت تو شرک فی النبوة کی سی ہے، آنکھ بند کرکے اتباع تو صرف ”نبی معصوم“ کی کی جاسکتی ہے، باقی اور کوئی صاحب کیسے ہی بزرگ ہوں بہرحال رائے میں بھی غلطی کریں گے اور عمل میں بھی اور یہ نہ ہو تو پھر ان میں اور معصوم میں فرق ہی کیا رہے گا؟ ہم ہزارہا غلطیاں کریں گے اور روزمرہ، وہ بہت کم کریں گے اور کبھی کبھی؛ لیکن بہرحال جب حضرات صحابہ تک نہ عملی معصیتوں سے محفوظ رہے نہ اجتہادی لغزشوں سے، تو دوسرے حضرات کا رتبہ تو ان سے بھی فروتر ہے، میرے دل کو تو سب سے زیادہ حضرت سید احمد شہید کا قول (جناب ہی کی روایت سے ہوا) لگتا ہے کہ مولانا اسماعیل جب کسی خاص مسئلہ میں ان سے گفتگو کرتے کرتے خلاف ادب سمجھ کر رک گئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو شرک فی النبوة ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے جو معاملہ اپنے مرشد کے رسالہ ’فیصلہ ہفت مسئلہ‘ سے متعلق کیا وہ بھی عین اسی کی تائید میں ہے۔”

 

حضرت مجدد ملتؒ اسی سلسلے کی مزید وضاحت اعتقاد، اعتماد اور انقیاد کامل کے متعلق کرتے ہیں اور اتنی وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ یہ تو بے معنی اور غیر متصور چیز ہے۔ جب کہ آج ہمارے معاشرے میں یہ تینوں کیفیتیں اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ جیسے یہ دور نبوت ہو اور ہمارے قائدین معاذاللہ انبیاء کے ہم پلہ ہوں۔ حضرت حکیم الامت تو یہ کیفیت اس شخص کے متعلق بھی اپنے اندر پیدا ہونے نہیں دینا چاہتے تھے جس سے انہیں بےحد عقیدت تھی۔ مجدد ملتؒ فرماتے ہیں:

 

”اعتقاد کامل اور اعتماد کامل اور انقیاد کامل“ جس شئے کا نام ہے وہ زندہ بزرگوں کے ساتھ کیا معنی، کسی پچھلے بزرگ کے ساتھ بھی نہیں پیدا ہوتا، یعنی ایسا اعتقاد کہ ان کا ہرقول، ہرعمل، بلا استثناء واجب الاتباع سمجھنے لگوں یہاں تک کہ مولانائے روم سے بھی نہیں جن کی ”مثنوی“ کا عاشق ہوں اور جس کو اپنا اصلی ہادی سمجھ رہا ہوں، حضرات صحابہ تک میں بعض کی قابل حبس اور بعض کی قابل رجم لغزشیں آخر روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہیں یا نہیں، تو پھر دوسرے بزرگوں کے اتباع کامل کے معنی ہی کیا رہ جاتے ہیں۔”

 

ان اقتباسات کو پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ ہمارے بڑے ایک کامیاب زندگی ایسے ہی نہیں گزار گئے۔ ایک بہتر معاشرہ اس لیے وجود میں آ سکا تھا کہ وہ خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے متصف تھے۔ اگر ان کے بڑوں نے خطائیں کی تو نہ ان کی تاویل کی اور نہ آنکھ بند کرکے ان کی اتباع۔ اور ایک صحت مند معاشرہ تبھی وجود میں آتا ہے جب پوری قوم کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اپنے رہنماوں کا احتساب کرنے کی اس میں استطاعت ہو۔

Comments are closed.