ہندوستانی مسلمان خوش فہمیاں پالتے رہتے ہیں۔

محمد صابر حسین ندوی
مسلمانوں کو خوش فہمیاں پالنے، اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے اور کسی بھی طرح دوسروں کے شانے پر بندوق رکھ کر چلانے کا عجب شوق ہوچلا ہے، اپنی صفوں میں انتشار، نااتفاقی اور ناچاقی کے باوجود وہ غیروں سے امید رکھتے ہیں کہ ان کی آہوں، سسکیوں اور خستہ کیفیتوں کا مداوا کریں گے، اپنے ایمانی چراغ روشن کرنے اور دل کی دنیا بسانے کے بجائے غیروں سے ادھار تیل لیکر فتیلہ میں جان ڈالنے اور چراغ سحر کو زبردستی جلا دینے کی سعی لا حاصل کی جاتی ہے، اپنے پاس پاغ، پھول اور باد بہاری ہونے کے باوجود اسے ویرانے میں چھوڑ کر باطل، ناحق اور غیر اسلامی سمتوں سے چلنے والی باد صر صر کو جس سے منہ جل جائے اور روح مچل جائے اسے اپنی روح اور جان کی غذا بنانے کی خواہش پالی جاتی ہے، اپنے پاس قرآن و سنت کے تابندہ نقوش رکھنے اور زندہ و جاوید دستور کے ہونے اور روشن تاریخی کارناموں کے اسباق ہونے کے باوجود زعفرانی گلیاروں سے آنے والی نسل پرستانہ، غیر انسانی اور غیر فطری داد و دہش اور رواج و رسم کو گلے لگانے اور شاباشی دینے کا مزاج بنا لیا گیا ہے، کم از کم صرف ہندوستانی پس منظر میں سوچنے کی بات ہے کہ جس زعفرانیت نے رنگ میں بھنگ ڈالا ہے، آپسی اتحاد، بھائی چارگی اور محبت کو سولی پر چڑھایا ہے، ایک عرصے سے جو مسلمانوں کی نسلوں، دینی مراکز اور زندہ ضمیروں کا شکار کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کی کوششیں کی ہے، دہشت گردی، لو جہاد اور معاشرتی منافرت کا بازار گرم کیا ہے، دہلی فسادات اور یوپی کی غنڈہ گردی سے لیکر سینکڑوں واقعات بلکہ پورا آئینی ڈھانچہ ہی بدلنے کی کوشش کی ہے، وہ بھی اگر مسلمانوں کے حق میں ایک معمولی بیان دے دیتے ہیں، ان کی کسی پہلو پر حمایت ہوجاتی ہے جو مسلمانوں کے مابین اس کا خوب چرچا ہوتا ہے، وہ سب کچھ چھوڑ کر اس جملے اور فقرے کو چٹخارے لے کر بیان کرنے میں لگ جاتے ہیں، چاروں طرف اسے عام کرنے اور ڈبیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسا ہی جملہ کسی زمانے اتحاد، ہندو مسلم، گنگا جمنی تہذیب کے نام. پر دیا گیا تھا، یہ وہ نعرے تھے جس کا بوجھ لیکر مسلمان ہمیشہ چلتے رہے، ان کے شانے جھکتے گئے، ان پر بوجھ بڑھتا گیا اور دوسرے شانے نے ساتھ بھی چھوڑ دیا اس کے باوجود وہ لگاتار اسی زعم اور خوش فہمی کے ساتھ سرپٹ بڑھتے ہی رہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جہاں اس کی تشہیر، ڈبیٹ ہونی چاہیے، جن میڈیا ہاوسیز کو اسے موضوع بحث بنانا چاہیے وہ اس کی طرف یکسر توجہ نہیں دیتے، جن جماعتوں کو آگے بڑھ کر اس تحریک کو گلے لگانا چاہئے وہ ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں؛ بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ مسلمان ظاہری جملوں کو لیکر اتنا خوش ہونے لگتے ہیں، روزانہ لاشیں اٹھا رہے ہیں، پچھلے سات سالوں سے لگاتار لنچنگ اور ہجومی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، حکومت نہ کوئی قانون بناتی اور ناہی کوئی نوٹس لیتی ہے، سپریم کورٹ کے کہنے اور حکم دینے کے باوجود اسے نظر انداز کر دیتی ہے، چنانچہ کچھ ہفتے پہلے ایک اعلی، بارسوخ ہندو نے کہہ دیا کہ ہندوؤں کی جانب سے یہ غلط کیا جارہا ہے اور اس کا ہندو ازم سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر خوشی کا ٹھکانا نہ رہا؛ اور اسی کو بنیاد بنا کر اتحاد/ اتحاد کے بلند بانگ دعوے شروع ہوگیے، یہ خواب شاید آج ٹوٹا ہو کہ دہلی جنتر منتر میںدان میں علی الإعلان ہندوؤں کے ایک گروہ مسلم. مخالف نعرے لگایے اور یہاں تک کہا کہ – جب مُلَّے کاٹے جائیں گے، جَے شری رام چِلَّائیں گے – یہ اور اس طرح کی بولیاں عام بات ہوگئی ہیں، اس سے بڑھ کر این آر سی اور سی اے اے کی مصیبت ان کے سر پر ہے، بعض صورتیں بعض صوبوں میں نافذ بھی ہوگئی ہیں، جو بدیہی طور پر دستور کی بنیادی اسٹرکچر کو دھچکا دیتی ہیں، مسلمانوں نے جد وجہد کی اور اسے ہٹانے کیلئے قربانیاں بھی پیش کیں، مگر انہیں یکطرف کردیا گیا، کئی جانیں گئیں اور کتنے ہی مصایب نے ان کے سر پر تانڈو کیا پھر بھی حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی؛ اور ایسے وقت میں ملک کے تمام اعلی قایدین رضائی میں دبکے ہویے تھے، لوگ سرفروشی اور جاں نثاری کی نئی نئی عبارتیں لکھ رہے تھے؛ حتی کہ خواتین صف اول میں قیادت کر رہی تھیں مگر اتحاد اور قیادت کے حقدار غائب تھے، کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دوران بھی ملک کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آیا، مسلم دشمنی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں مشاہدے میں آئیں، اس کے باوجود مسلمانوں کی خوش فہمی اکثر سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے چند مثبت تاثرات سے قائم رہتی، وہ مسلسل خود کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہ ملک برابری، سیکولرازم اور جمہوریت کا علمبردار ہے، واقعی مسلمانوں کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قیادت کی بےرخی اور وقتی جوش، نعرے اس ھد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب سمجھ نہیں آتا کہ مستقبل لائحہ کیا ہے؟ کیا پھر سے کانفرنس، جلسے جلوس اور اتحاد کے نعرے ہی ہماری جھولی میں آئیں گے یا پھر میدانی کام ہوگا، امت مسلمہ کی نشات ثانیہ پر محنت کی جایے گی، آپسی چپقلش، خلش اور کڑھن بھول کر ایک شروعات ہوگی، بلکہ فوری طور پر شروعات ہوگی؛ ورنہ وقت بدلتا جارہا ہے، سیاسی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے، ملکی صورتحال قابو سے باہر ہورہے ہیں، خدا خیرے! اگر اب بھی دیر ہوئی اور پرانے راستے پر ہی چلتے رہے تو انجام اور بھی بھیانک ہوسکتے ہیں۔
[email protected]
7987972043
Comments are closed.