ماہِ محرم الحرام: فضیلت اور برکات

راقم الحروف: خان محمد شان القاسمی
ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جو اپنی برکات و فضائل میں اپنی مثال آپ ہے، اس مہینے کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے؛ لیکن اس کی حرمت اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہینے میں خصوصی اعمال اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتے ہیں، تاریخ اسلامی کے کئی واقعات اسی مہینے میں پیش آئے، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تاریخ کے بیشتر اہم اور سبق آموز واقعات اسی مہینے میں رونما ہوئے، یہ مہینہ اپنی فضیلت و عظمت، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کا حامل ہے، اسی وجہ سے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں اس کے اعزاز و اکرام کے بناء پر قتال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
یوں تو اس ماہ میں کی جانے والی ہر عبادت قابل قدر اور باعث اجر ہے؛ مگر احادیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے، جیسا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا *افضل الصیام بعد شھر رمضان صیام شھر الله المحرم* رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں، اس ماہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا مہینہ قرار دیا ہے باوجود ایں کہ سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالی کے ہیں؛ لیکن اللہ تعالی کی طرف نسبت کرنے سے اس کا شرف اور فضیلت مزید ظاہر ہوتا ہے، اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی، اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے (ان شاء اللہ) بعض علماء کے یہاں محرم سے مراد اس کا خاص دن یعنی دسویں تاریخ عاشورہ ہے۔
کیونکہ دسویں محرم کا دن اسلامی تاریخ میں ایک بڑا اور محترم دن ہے؛ لہذا حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا تھا؛ لیکن رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد اس روزے کو اختیاری قرار دے دیا گیا۔۔
اس دن کے روزے کی اہمیت اس واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے ان سے وجہ دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ اچھا دن ہے، اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو اس دن ان کے دشمن سے نجات دی اور حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطا فرمائی تو ہم اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ نے بھی روزہ رکھا اور ہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، نیز فرمایا مجھے امید ہے کہ اس روزے سے اللہ تعالی ایک سال کے گزشتہ گناہ معاف فرما دیں گے۔
اس ماہ کے فضائل کے متعلق امت میں بہت سی بے بنیاد باتیں مشہور ہو گئی ہیں جن کا کوئی ثبوت محدثین کے یہاں نہیں ملتا، اسلامی تعلیمات کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت و اطاعت میں مشغول ہو کر اللہ تعالی کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کیا جاتا؛ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جب نیا اسلامی سال شروع ہوتا ہے تو بہت سے لوگوں کی طرف سے اس کی ابتدا اللہ جل شانہٗ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلنے کے بجائے اللہ تعالی کے حقوق کو توڑنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کی خلاف ورزی سے کی جاتی ہے، ہر طرف شرک و بدعات خصوصاً عاشورہ کے دن خود تراشیدہ رسومات و بدعات کرکے ثواب حاصل کرنے کے بجائے بہت سے لوگ الٹا گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔
اخیر میں بار گاہ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی اس ماہ کی فضیلت اور برکت حاصل کرنے اور منکرات و منہیات و بدعات سے دور رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔۔
والسلام
Comments are closed.