ملک کے بگڑتے حالات میں دعوت اسلام کی ضرورت

مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اجین، ایم پی۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کو سنبھلنے اور اپنی اولادوں کوزیور تعلیم سے آراستہ کرکے اپنی دعوتی ذمہ داری کے ساتھ ملک کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات کے ذریعہ جہاں امن وانصاف قائم کرنے کے لیے ستر سال کا موقع ملا،وہیں مسلمانوں کو عروج واقبال سے محروم رکھنے کی مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ انہیں حالات کے ساتھ لٹے پٹے مسلمانوں کے دین وایمان کو تحفظ فراہم کرنےکے لیے علماء اور اہل مدارس نے عام مسلمانوں کے تعاون سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے دین وایمان کو بچانے اور تبلیغی جماعت کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں احیاء دین کاکام کیا، لیکن اصل فریضہ دعوت الی الاسلام کے تعلق سے بہت ہی زیادہ بے اعتنائی برتی گئی، حتی کہ علوم اسلامیہ کے ماہر فضلاء مدارس کے لیے دعوتی زبانیں اچھوت بنی رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فضلاء مدارس مخلص ومتحرک
Activist
ہونے کے باوجود دعوتی میدان میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔
دوسری طرف کالجز واسکولس سے متعلق افراد کی ذمہ داری تھی کہ تقابلی امتحانات میں اپنے جوانوں کو کامیابی دلاکر انہیں ارکان جمہوریت کے چاروں شعبوں کا حصہ بنانے اور ان کے ذریعہ ملک میں امن وانصاف کی بالادستی کے لیے کوششیں کرتے، لیکن افسوس کےساتھ کہنا پڑتاہے کہ اسکولس و کالجز اور یونیورسٹیز کے فارغین اور حکومتی اداروں میں خدمات انجام دینے والے افراد بالعموم صرف روزگار(Profession) کے جذبات سے کام کرتے ہیں،اور ملت کی ناخدائی اور قیام امن وانصاف کے تعلق سے اپنی دینی ذمہ دار یوں کو بہت کم محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مواقع پر دیکھنے میں آتا ہے کہ سرکاری مسلم اہل کار محروم الایمان افراد سے بھی زیادہ ملت کا استحصال کرتے ہیں۔
اور جولوگ کچھ دینی جذبہ رکھنے ہیں وہ اگرایک طرف ملی خدمات انجام دیتے بھی ہیں تو دوسری طرف دوسرے میدانِ عمل میں مصروف افراد خصوصا علماء کی کردار کشی میں بھی اپنی توانائی ضائع کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس طرح علماء ایک کے بعد ایک مدارس اور مکاتبِ اسلامیہ کاجال بچھاتے ہوئے مسلسل دین کو تحفظ فراہم کررہے ہیں،اسی طرح عصری تعلیم یافتہ افراد ایک کے بعد ایک دینی منہج پراسکولس کھولتے چلے جاتے اور علماء کے ساتھ مرافقت اختیار کرکے دین کی دعوت واشاعت میں معاون بنتے۔
آج حالات یہ ہیں کہ کووڈ19 کےعنوان سے ہمارے مذہبی فرائض کی ادائیگی سے ہمیں روکاجارہا ہے جب کہ ایک دوسرے طبقہ کو بڑے بڑے مذہبی تقریبات کے انعقاد کی عام اجازت ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر مذہبی جمہوری ملک میں مخصوص مذہب اور اس کے شعائر کی تعمیر و ترقی کے لیے ملک کے اعلی سے اعلی ذمہ دار کھلے عام ملکی قوانین کو پامال کررہے ہیں۔
لاک ڈاون کے موقع پر کھلے عام ہماری برقعہ پوش خواتین کوچوراہوں پر لاٹھیوں سے مارا گیا، انہیں چوراہوں پر گھٹنوں کے بل چلنے کے لیے مجبور کیا گیا، فسادات کے ذریعہ ہمارا قتل کیاجاتا اورہمارے مکانات جلائے جاتے ہیں، فساد یوں کے ساتھ سرکاری اہل کار بھی ہمیں نقصان پہنچانے میں شریک ہوتے ہیں، اور پھرفساد،قتل اور مختلف سخت دفعات کے تحت ہمی کو ماخوذ بھی کیا جاتا ہے۔یہ سب باتیں وقتی نہیں ہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے پر انجام پارہی ہیں۔
جس قدربرق رفتاری سے ملک کے حالات بگڑتے جارہے ہیں، بظاہر اسی قدر اہل اسلام کے لیے ملک کی زمین تنگ اورحالات پر مسلمانوں کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ وقت بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ جب حالات زیادہ خراب ہوں گے تو ہمارےگھر مکان، ہمارے صحت مند اور تعلیم یافتہ نوجوان، ہمارے مقتدا و رہنما سب غیر محفوط اورنفسی نفسی کے عالم میں ہوں گے،اپنی اور اپنی اولاد یا اپنے عزیزوں کو ظلم سے بچانے کے لیے ظالموں کے ساتھ بیٹھ کر ملت کا سودا کریں گے۔ اُس وقت ملت کو قعر مزلت سے نکالنے والا مشکل سے کوئی ملے گا۔
لیکن یاد رکھیں اسلام امن وانصاف پر مبنی مستقل ایک نظریہ ہے، اسلام کے مقابل ناانصافی پرمبنی دوسرے نظریات بھی ہیں، نظر یات دعوت وتبلیغ سے مضاعف(Multiply)
ہوکر بڑھتے اور پھیلتےہیں۔ اسی تھیوری کے مطابق کچھ لوگوں نے ہزاروں سالوں سے ملک کے باشندوں کو غلام بناکرجانوروں سے بدتر زندگی جینے پر مجبور کیا تھا۔جب تعلیم کے نتیجے میں ان مظلوموں کے اندرشعور پیدا ہوا تو چند ہی سالوں میں تخریبی نظریہ کے ذریعہ انہیں پیدل سپاہی بناکرمسلمانوں کے مقابل کھڑا کردیا گیا، اور تعلیم یافتہ ہوکر بھی مسلم مخالف نظریہ کی وجہ سے وہ پھر انہیں کے غلام بن گیے جنہوں نےہزاروں سال سے ان کو جانوروں کی سی زندگی جینے پر مجبور کیا تھا۔اگر ہم ان میں اسلامی نظریۂ امن وانصاف کی اشاعت کریں تو وہ ظالموں کو پہچان کر اسلام کے محافظ بن سکتے ہیں ۔ اس لیے موجودہ حالات میں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دعوت کےذریعہ ہم بڑی سرعت کےساتھ حالات کارخ بدل سکتے ہیں۔
اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ اولا ملک کی ظالم ومظلوم اقوام کو سمجھا جائے، اس سلسلے میں انتظار نعیم صاحب کی ہندی میں ایک کتاب ہے، ” دلت سمسیا،جڑ میں کون؟ ” اس کا مطالعہ کیاجاۓ، اور کمزور طبقات کے تعلیم یافتہ طبقہ کو یہ کتا ب مطالعہ کے لیےدی جاۓ۔ اسی کے ساتھ وی ٹی راج شیکھر کی کتاب” برہمنیت” کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔ نیز ایم اے چودھری کی کتاب”آتنکواد کی جڑ، منوواد”بھی کافی مفید ہے۔
اس کے بعد دعوتی کام کے لیے مولانا کلیم صدیقی کی کتاب "نصاب دعوت” کابھی مطالعہ کیاجائے۔ نیز بندہ کی کتاب "دعوت کی ضرورت،اہمیت اور طریقۂ کار”کا مطالعہ بھی شاید کچھ فائدہ پہونچائے۔
اسی کے ساتھ عصری تعلیم یافتہ طبقہ اور دینی تعلیم یافتہ طبقہ میں قربت پیدا کی جائے۔ عصری مدارس کے لوگ علماء کی نگرانی میں اردو اسلامی کتب کو ہندی وغیرہ زبانوں میں ترجمہ کریں۔ اور اہل مدارس خصوصا نئے فضلاء کو ہندی انگریزی وغیرہ زبانیں سکھانے کا بہترین انتظام کیا جائے۔
اس وقت سوشل میڈیاپراردو کے علاوہ ہندی انگریزی ودیگر عوتی زبانوں میں پیام انسانیت کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات خوب شئر کیےجائیں۔
پیام انسانیت تحریک دیکھنے میں چھوٹی کوشش معلوم ہوتی ہے، (لیکن یہ بظاہر یہ چھوٹی کوشش)متشدد معاندین کو بھی اسلام کی طرف لانے میں کافی موثر ہے۔ چنانچہ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ دعوتی مواقع و فتوحات کے ساتھ اہل اسلام کو حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں کسی کا مشاہدہ یہاں پیش کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔
ایک شہر(کسی وجہ سے شہر کانام ترک کیاجاتاہے۔) میں پیام انسانیت کے مختصر کتابچے فروخت وتقسیم کرنے کے لیےدو ٹھیلے غیر مسلم محلوں میں گشت کرتے تھے۔ مختلف محلوں کے محروم الایمان افراد پیام انسانیت کے پرچوں کوخریدتے اور ان پرچوں میں بطور حوالہ بیان ہونے والی کتابوں کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ کتابوں کے حصول کے لیےاکثر متشدد قسم کے لوگ کہتے کہ
"ہم کسی مسلم کتب فروش کی دکان پر قرآن مجید اور کتب احادیث کی خریداری کے لیے نہیں جاسکتے ہیں،اس لئےتم مخفی طریقے سے مجھے قرآن مجید اور دوسری کتب احادیث لاکر دے دو۔”
یہ لوگ مسلم مخالف اہم مشاورتی مجالس میں شریک ہوتے لیکن پیام انسانیت کے کتابچوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بڑی بڑی مسلم مخالف سازشوں کو روکنے کی کوشش کرتے۔
معلوم ہوا کہ دیکھنے میں ایک چیز چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن دعوتی لحاظ سے اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ ان چھوٹی کوششوں سے دعوت کا راستہ تو کھلتاہی ہے، ساتھ ہی اہل اسلام کو معاندین کےفتنوں سے تحفظ بھی فراہم ہوتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا پر اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اختصارکے ساتھ خوب شئر کی جائیں۔
اس وقت ہر مسلمان کو کسی نہ کسی طرح دعوت اسلام کا فریضہ ادا کرنا چاہئے، ورنہ ہزاربارخدا نہ کرے، آئندہ کے حالات قابو سے باہرہو سکتے ہیں۔ اللہ حفاظت فر مائے۔
کتبہ :محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:مہدپور اجین، ایم پی
2ذی الحجۃ 1441ھ
مطابق 24جولائی2020 ء
Comments are closed.