” اک سفر تمام ہوا” (مرحوم دادا جان کے نام)

آمنہ جبیں

ایک شام دکھ غم اور ماتم میں لپٹی دروازے پہ دستک دے بیٹھی۔جب دن بھر کی تھکاوٹیں ختم ہونے کو تھیں۔ بس دنیا کے جھمیلوں سے فرصت پانے کی تگ ودو میں لگی توے پہ روٹی دھرنے والی تھی۔کہ چچا جان کے بیٹے انیس الرحمن منہ لٹکائے گھر کے اندر داخل ہوتے چارپائی پہ براجمان ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ ” دادا جان” رحلت فرما گئے ہیں۔یہ کلمات کانوں میں گونجتے ہی ایسے محسوس ہوا کہ جیسے دل سکتے میں آ گیا ہے۔ آنکھیں لمحے کو برسیں اور پھر یوں سکوت میں آ کر منجمند ہوگئیں۔ جیسے جسم کا ذرہ ذرہ کسی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے۔ جیسے روح کسی کنارے پہ رکھ دی گئی ہے۔ اور وہاں سے گر کر زندگی کا اختتام ہو گیا ہے۔ لمحات ٹھہراؤ کی مانند وجود کو نوچ کر بےبسی کے نقارے بجا رہے تھے۔ 7 اگست 2020 کی شام یہ وہ شام تھی جب مغرب کی اذانیں گونجنے والی تھیں۔ دن کا سورج ڈھل کر رات کے پہر کو کھینچ کر ضبط کے گھونٹ لے رہا تھا۔ اسی شام ایک زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ اور زندگی میں سیاہ رات کا باب کھل گیا۔ یہ شام وہ شام ہے جب ” میرے دادا جان” اپنے خالق کی دسترس میں ہمیشہ کے لیے سمیٹ لیے گئے۔جب ایک گھنا درخت کٹ گیا۔ یہ درد اور اذیت میں گھلتی ہوئی وہ شام تھی جس کی سحر نہ ممکن سی لگتی تھی۔ کہ تناور درخت، ایک انسان نہیں ایک مکمل”زندگی” ایک شخص نہیں ایک "شخصیت” بلکہ یوں لگا کہ ایک صدی گر گئی ہے۔ ایک بہت بڑا زمانہ بیت گیا ہے۔ ایک بہت بڑا دور چھٹ گیا ہے۔ یوں دل مضحکہ خیز ہو آنسوؤں کے قہقہوں میں گونجا یہ بات سمجھا رہا تھا۔ کہ بنیاد مٹ گئی ہے۔ ایک سائبان چھن گیا ہے۔ ایک زمانہ ختم ہو گیا۔ بس یہ شام اور پھر اس شام کی ماتمی رات جب "دادا جان” روح سے آزاد ہوئے جسم کا بوجھ لیے چارپائی پہ لبوں پہ مسکراہٹ کی کلیاں سجائے آخری شب زمین کے اوپر بے بس و بے جان پڑے تھے۔کبھی آنکھوں نے ایسا منظر نہ دیکھا ہو گا کبھی دل نے وہ کیفیات محسوس نہ کی ہوں گی۔دماغ نے کبھی وہ خوف و خطر وہ وحشت و ویرانگی وہ تنہائی و سکوت کبھی محسوس نہ کیا ہو گا۔ جو اس رات آنگن میں اترا تھا۔دادی جان کی بوڑھی ہڈیاں اور کراہتا ہوا وجود ماتم ِ بیچارگی میں ضبط کیے بیٹھا تھا۔ آج ان کا سہاگ لٹ گیا تھا۔ آج وہ بھری دنیا میں جیون ساتھی سے بچھڑ کر تنہا رہ گئیں تھیں۔ لیکن صبر کا پیمانہ ان کے لبوں پہ تھا کہ رب کی رضا کو کیسا دوش دینا۔ دل بھلے روتا تھا لیکن چہرے پہ ایک اطمینان تھا۔ یہ رات یوں گزری جیسے ایک صدی ہو ایک ایک لمحہ درد کی کیفیات میں بھیگا چیخ رہا تھا۔ پھر صبح کا سورج طلوع ہوا لیکن دادا جان چارپائی سے نہ ہلے۔ بلائے بھی آواز نہ دی۔ ہنسائے بھی نہ ہنسے۔ بس آنسو تھے جو ان کی زندگی کی شام پہ حلق میں اٹکے دھاڑیں مار رہے تھے۔دل اس قدر خاموش اور واویلا مچا رہا تھا کہ دکھی پن بھی نہ جھلکا۔ دل مانتا کہ میرے ” دادا جان” ہمیں چھوڑ گئے ہیں۔ تبھی کوئی سانسوں کی تکرار ہوتی۔ لمحوں میں اضطراب ہوتا۔ لیکن دل تو مانا ہی نہیں۔ کہ دادا جان بچھڑ گئے ہیں۔ خیر جب بچھڑنے کا مقام آ جائے تو دلوں کی کہاں سنی جاتی ہے۔ جب وعدے پورے ہو جائیں تو ٹھہراؤ کی مہلت کون دیتا ہے۔ جب رب کی امانت واپس کرنے کی گھڑی آن پہنچی تو روتے دل کی کشمکش کون محسوس کرتا۔ بس پھر دادا جان کا کفن دفن کیا اور سپرد خاک کرنے کو لے گئے۔ اور ہمارا گھر ویرانگی کے مارے چیختا رہا۔ لیکن دادا جان واپس نہ آئے۔ وہ چلے گئے۔ ہم سے رابطے منقطع کر گئے۔ ہماری جانوں کو زمین کے اوپر رینگتا چھوڑ کر خود اکیلے زیر زمین آغوش ِ قبر میں چل دیے۔” دادا جان”سے بچھڑنا اپنے باپ سے بچھڑنے جیسا ہے۔ ان سے الگ ہونا ساری خواہشوں کی گلا گھونٹ رہا ہو کچھ ایسی کیفیات دل میں جنم دے رہی ہیں۔ "دادا جان” کو جب سے ہوش سنبھالی دیکھا ایک باہمت،سلیقہ شعار،معصوم،احساس مند انسان پایا۔ گھر میں کچھ سال پہلے دنیا شروع کیا۔ اس سے پہلے یہ سادہ لوح انسان ڈیرے پہ رہائش پذیر تھے۔ جانوروں سے بے انتہا محبت رکھنے والی میرے مشفق دادا جان کے دل میں زمین کی مٹی کی خوشبو اور پچھلے زمانے کی خوشبو رچی بسی تھی۔ جب دادا جان دادی کے ہمراہ ڈیرے پہ مقیم تھے۔ تو ہم لوگ چھٹی کے دن یا کبھی چھٹیاں ہونی تو اسپیشل دادا جان دادی جان کو ملنے پیدل چل کر ڈیرے جایا کرتے تھے۔ اور کبھی کبھار ایک دو راتیں ان کے پاس رہ لیتے نہیں تو؛ شام کو گھر واپس آ جاتے۔ اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھ کر ان کا چہرہ کھل اٹھتا تھا۔ جب جاتے تو بس کام میں مگن ہوتے۔ جانوروں کا چارہ خود کاٹتے خود کتر کر انہیں ڈالتے اور جانوروں سے پیار انسانوں سے بھی زیادہ کرتے تھے۔بھینسیں رکھی ہوئیں تھیں۔ انہیں صبح شام وقت پہ چارہ ڈالتے پانی پلاتے اور ان کی دھوپ چھاؤں کا خاص خیال رکھتے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ دادا جان تب تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک جانوروں کو پانی وغیرہ پلا کر چھاؤں میں نہ کر دیتے۔ ایک دفعہ جب میں میٹرک میں تھی۔ میرے پیپر ہو رہے تھے۔ تو میں بارہ بجے کے بعد پیپر دے کر گھر واپس آئی تو دادا ابھی صحن میں دھوپ میں بیٹھے تھے

تب دادا جان گھر رہتے تھے۔ ڈیرے سے گھر منتقل ہو گئے۔ تھے اور جانور بھی گھر میں ہی تھے۔ میں نے پوچھا دادا ابو آپ دھوپ میں کیوں بیٹھے ہیں۔ تب ان کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ خود جانور نہیں سنبھلتے تھے۔ بابا بھائی گھر نہ ہونے کی وجہ سے وقت پہ جانور چھاؤں میں نہ بندھے۔ تو اس وجہ سے کہتے کہ میں کیسے چھاؤں میں ہو جاؤں ابھی میرے جانور دھوپ میں ہیں۔ انہوں نے پانی نہیں پیا ہوا۔ تو میں کیسے سکون کر لوں۔ اس قدر محبت تھی جانوروں سے کے ان کے سکون سے پہلے خود سکون نہیں کرتے تھے۔ڈیرے پہ انہوں نے مرغیاں، بلی، کتا، یہ سب جانور پال رکھے تھے۔ ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے کھانے کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ وہ بلیاں ہمیشہ دادا جان کے قدموں میں رہتی تھیں۔ وہ اکثر کہتے ہوتے تھے۔ کہ ” یہ جانور ہم انسانوں سے اچھے ہیں” نہ کسی کا حق کھاتے ہیں نہ کسی کو تکلیف دیتے ہیں۔ نہ کسی کا برا چاہتے ہیں۔ جبکہ انسان ان سب باتوں کا مرتکب رہتا ہے۔جب ہم ڈیرے جاتے تو ہمیں کہتے

"اپنی دادی کولوں سامان لوو تے اپنی مرضی نال پکاؤ تے مرضی نال کھاؤ”

بچوں سے پیار محبت ان کا خاصہ تھا۔اپنے زمانے کی آٹھ جماعتیں پاس تھے۔ اور استاد رہ چکے تھے۔ بہت ہی ذہین اور قوی انسان تھے۔ ہمیں ڈیرے میں رات کو بڑی بڑی باتیں سنایا کرتے تھے۔ نبیوں کے قصے حضرت غوث پاک سرکار کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ جب ڈیرے سے گھر مقیم ہوئے تو تھوڑے ضیف ہو چکے تھے۔ پھر جانور وغیرہ نہیں سنبھلتے تھے۔ بس گھر ہی رہتے اور آرام کرتے تھے۔ لیکن ان کا دل ہمیشہ اپنے ڈیرے کی طرف اپنے شوق اپنی موج مستی اپنی تنہائی کی طرف کھینچتا تھا کہ میں پھر سے ان اپنی زمینوں میں جاؤں وہاں رہوں وہاں کام کروں۔ دادا جان اپنی جوانی اور اس عمر کا پھر بہت یاد کیا کرتے تھے جب وہ باہمت اور ایک کام کرنے والے شخص تھے۔ ہمیں کہتے ہوتے تھے۔ کہ میں اپنے زمانے میں بڑی بڑی بوریاں کندھے پہ اٹھایا کرتا تھا۔ جب وہ پٹھانوں کے ساتھ لکڑی کے آرے پہ کام کرتے تھے۔ تو کہتے کہ میں تب "لکڑی کے بھاری بھاری موچھے” اکیلے اٹھایا کرتا تھا۔ ہماری حیرانگی پہ کہتے کہ میں کلو گھی کھا لیتا تھا۔ اور خوب دودھ اور روٹیاں کھاتا تھا تبھی جان بنتی اور کام کرتا تھا۔جب کہ اب کہتے مجھ سے ایک روٹی بمشکل کھائی جاتی ہے۔ اور آج کی نسل ہماری ہمت کے برابر نہیں آ سکتی۔ہم تو بہت کام کرتے تھے۔ جب کوئی بچہ پاس آتا اس سے پہاڑے سننے بیٹھ جاتے تھے۔ اور جب نہ آتے تو کہتے آج کل کی تعلیم بچوں کا بیڑا غرق کر رہی ہے۔ بچوں کو پہاڑے ہی نہیں آتے ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں تھا۔ جب بھی کسی کے پاس بیٹھتے بس قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ انبیاء کے واقعات سے دل لبھایا کرتے تھے۔ اور مزاحیہ انداز میں بھی بہت گفتگو کرتے تھے۔ کہتے ایک دفعہ ہم نے ساگ اور باجرے کی روٹیاں بنائیں ہوں باہر سائل آیا تو ہم نے ساگ باجرے کی روٹی پہ ڈال کر سائل کو دے دیا۔ تو سائل نے ساگ اوپر سے کھا کر باجرے کی روٹی دیوار سے لگا کر کہا۔” باجی اپنا برتن اٹھا لو” اور ہمیں کئی بار یہ بات سناتے تھے اور ہم سن سن کے لطف اندوز ہوتے تھےیعنی ان کی زندگی کا ہر مظہر لطف اندوز اور خوبصورت تھا۔ کسی سائل کو کبھی خالی نہیں مڑنے دیتے تھے۔ احساس میں لوگوں کو ڈیرے سے من پسند چیزیں لے جانے دیتے تھے۔ گھر کوئی سائل آتا تو ہمیں کہتے کہ اللّٰہ راضی ہوتا ہے انہیں جھڑکو مت بس اللّٰہ نے دیا ہے تو ان کی جھولی بھر دیا کرو۔ پرندوں سے اس قدر محبت اور انسیت تھی کہ جب جب کھانا کھاتے تو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے زمین پہ ڈال دیتے کہ چڑیاں کوے کھا لیں گے۔ کبھی کبھار وہ ٹکڑے ویسے ہی زمین پہ پڑے رہتے ہم کہتے دادا ابو نیچے نہ ڈالا کریں جانور کھاتے کم اور پاؤں کے نیچے زیادہ آتے ہیں۔ لیکن شاید ان کے دلوں کو سکون نہیں ملتا تھا پھر بھی وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے زمین پہ ضرور ڈالتے تھے۔ تاکہ پرندوں کو بھی کھانا مل سکے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ تو میں دادا ابو سے کافی مذاق کر لیتی تھی تو مجھے کہتے تھے۔ ",توں تھے پھاپھو ایں چھوٹی ایں مذاق کر سکدی ایں” اور پھر خوب ہنستے بھی تھے۔ جیسے جیسے انہوں نے زندگی گزاری ان کو زندگی کی سمجھ آ گئی۔ ایک دفعہ میرے ساتھ محوِ گفتگو تھے تو کہتے ” پتر اے زندگی کوئی شے نئیی بس اک چمکارا اے کل اساں چھوٹے ہوندے سی تے کیندے سی وڈے ہوااں گے فیر شادی بچے ہوون گے۔ پر پتر پتا ہی نہیں چلتا کہ اینے سال کدھاں لنگ گئے ہلے کل دیاں گلاں لگدیاں۔ ” وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ زندگی کوئی شے نہیں انسان اس پہ اکڑتا ہے میں یہ ہوں میں وہ ہوں میں یہ کر دوں گا میں وہ کردوں گا۔ یہ میری چیز ہے۔ لیکن انسان کا کچھ بھی نہیں نہ ہی یہ زندگی کوئی چیز ہے یہ محض کچھ دن کا دھوکا ہے۔ لیکن کہتے ” پتر اے گلاں سمجھ دیر نال آؤندیاں” اردو ادب شعر و شاعری سے کافی لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر و بیشتر الفاظ کے معنی پوچھتے رہتے تھے۔ کبھی کوئی خود کو نہ آتا ہوتا تو پوچھ لیتے تو کبھی کبھی خود کو آتا بھی ہوتا تو ہماری ذہانت چیک کرنے کے لیے پوچھتے رہتے تھے۔ بابا بھلے شاہ کی شاعری بڑی سناتے تھے۔ اور جب جب زندگی کی حقیقت سے آشنائی دماغ کی کھڑکی پہ دستک دیتی تو سرد آہ بھرتے یہ شعر پڑھ دیا کرتے تھے۔

گزر گئی گزران کیا

جھونپڑی کیا میدان کیا

کہتے ہوتے تھے کہ جسے رب کی چاہ ہے۔ وہ دنیا کے رنگوں میں کبھی نہیں پھنستا اور اسی منظر میں ایک شعر سنایا کرتے تھے۔

تخت سکندری پہ وہ تھوکتے ہی نہیں

بستر لگا ہوا ہے جن کا سرکار کی گلی میں

اکثر یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نے تھے کروبیاں

اس کے علاؤہ بابا بھلے شاہ وارث شاہ کے کلام بھی سنایا کرتے تھے۔ مجھے چونکہ لکھنے کا شوق تھا۔ تو میری دادا جان کے ساتھ اس میدان میں کافی بنتی تھی۔ کبھی جب میں کوئی نیا شعر لکھتی تو دادا جان کو سنانے جاتی کہ دادا جان یہ میں نے نیا شعر لکھا ہے۔ یہ کیسا ہے کہتے بہت اچھا ہے۔ داد سے بھی نوازتے اور ساتھ کہتے کہ "پتر اے سب اُتے آلے دی دین اے تے ذہن ذہن دی گل اے” اور جب کبھی بور ہوتے فارغ بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تو کبھی کبھار خود بھی شعر سنانے کی فرمائش کر دیتے تھے۔ اور بہت خوش ہوتے تھے کہ میرے ہوتے پوتیاں قابل اور پڑھے لکھے ہیں۔ میرے لکھنے سے وہ بہت ہی خوش ہوتے تھے۔ گھر میں ایک پورا انسٹیٹیوٹ تھے۔ ایک مکمل ادارہ ایک مکمل بیتا زمانہ تھے۔ان کے چہرے پہ زمانے کی تلخیوں،حقیقتوں کے نشان تھے۔جب کبھی ہم بہنیں اونچی آواز میں بات کرتیں یا تلخ ہوتیں تو کہتے؛ "پتر تیاں اینا اُچا بولدیاں چنگیاں نہیں لگدیاں” سر سے دوپٹہ اترا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا۔ کہتے تھے لیا نہیں جاتا تو سر پہ پگڑی باندھ لو لیکن سر پہ رکھو۔ تنہائی مزاج میں رچی بسی تھی بس اب بزرگی کے زمانے میں تنہا رہنا پسند کرتے تھے۔ کھانے میں سبزیاں کم دالیں آلو گوشت سیرہ اور میٹھی چیزوں کے زیادہ شوقین تھے۔اپنی ضروریات پہ دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔کسی کی مدد کرنا ان کا خاصہ تھا۔ اور کہتے تھے کہ” پتہ نہیں اوتے آلا کیڑیاں گلاں اچ راضی اے” بس اللّٰہ پہ یقین رکھتے تھے۔ کہ وہ بہت مہربان اور بخشش کرنے والا ہے۔کہتے ہوتے تھے لوگوں پہ اندھا یقین نہیں کرتے بس اپنا کام کرتے اپنا آپ بچا کے چلتے ہیں۔ ہر موقع پہ نصیحت آمیز بات کوئی ایک اچھی بات کہ دیتے تھے۔ بہت سی یادیں دماغ کی کھڑکی کو پار کر رہی ہیں کیا کیا لکھوں کہ سب بیان ہو جائے دادا جان سے محبت مجھے والد محترم کی طرح لگتی ہے۔ جن کے جانے کے بعد ہر خواہش مرتی نظر آتی ہے۔ زندگی فضول اور بے چین لگتی ہے۔ ایک صدی ہم سے بچھڑ گئی صبر کی کس معراج کو پائیں کہ دل سنبھل جائیں۔ لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ وہ میرے دادا جان محمد رمضان ولد خوشی محمد کو جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کی قبر کو روشن کرے ان پہ لاکھوں کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ۔

ایک گزرا ہوا عنوان لکھوں

دکھ سے بھرا دیوان لکھوں

کیا گزری ہے دل پہ پچھلی شب

اپنی وہ حالت ِ پریشان لکھوں

کیا کھو دیا میں نے اب تلک

زندگی کا وہ عہد وپیمان لکھوں

تیرے جانے کے بعد میسر آئے خوشی

اب کونسی ایسی مسکان لکھوں

 

پیارے دادا جان آپ کے بن زندگی ویران لگتی ہے ?

Comments are closed.