جديد الحاد؛ ایک تجزیہ

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

جدید دور میں الحاد کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سائنسی ترقی نے انہیں سبب کا جام پلا دیا ہے، جو لوگ کبھی اپنے خالق ومالک کو سب کچھ تصور کرتے تھے اور ہر بات میں اسی کی جانب نسبت تلاش کرتے تھے؛ خواہ وہ کسی سماج، قوم، علاقہ اور نسب کا ماننے والا ہو، وہ اب سبب میں ہی اصل کو تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں، دنیا ایک زبردست دھماکہ کی وجہ سے اپنے آپ واقع ہوگئی، انسان پیدا ہوا؛ کیونکہ دو جرثومے نر اور مادہ ملے، نتیجتاً ایک تیسری جان وجود میں آئی، ہم زمین پر چلتے ہیں اور گرتے نہیں ہیں ؛ اس لئے کہ زمین میں کشش ہے، وہ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں توازن بنانے میں کامیاب ہوتا ہے، سانس لیتے ہیں کیونکہ ہوائیں چلتی ہیں جس سے ہمیں oxygen فراہم ہوتا ہے، غرض یہ کہ دنیا کی ہر چیز کو سبب پر منحصر کردیا گیا ہے اور اسی دورانیہ میں سبھی کچھ سوچا جارہا ہے؛ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ ہر سبب خود اپنے آپ میں ایک دوسرا سبب لئے ہویے ہوتا ہے، اگر انسان صرف سبب کے پیچھے پڑا رہے، Big Bang کی تھیوری کو اصل مانے، نر اور مادہ کے اختلاط کو ہی سبب سمجھے تو پھر اس سبب کو پیدا کرنے والا، اس دھماکہ خیز مادے کو پھٹنے کیلئے تیار کرنے والا، نر اور مادہ کو بنانے والا کون ہے؟ یہ ایک بنیادی بات ہے جس سے سائنس دان دامن جھاڑتے ہیں، وہ ایک تحقیق پیش کردیتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر مذاہب، تخلیق اور روحانی قوت کا یکسر انکار کردیتے ہیں، جدید اذہان چونکہ فکر و تامل کو اصل مانتی ہے، روحانیت سے دور ہے، مذہبی تصورات ان کے نزدیک کمزور ہو جلے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ ایمانی قیود سے آزادی چاہتے ہیں؛ لہذا انہیں سائنسی باتوں اور تحقیق کو اصل جان کر الحاد و لادینیت کے دروازے پر دستک دے بیٹھتے ہیں، اس کے در و دیوار کو مارے عقیدت چومنے لگتے ہیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کوئی انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرے تو پر بھڑک جاتے ہیں، خنس نکالتے ہیں اور بحث سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، قدامت پسندی کا طعنہ دیتے اور جدید دور کی ترقی و تعمیر میں رکاوٹ کہہ کر بدنام زمانہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ فکری دیوالیہ پن ہے، ذمہ داری سے بھاگنا ہے، اپنی اصل سے منہ پھیرنا ہے، اللہ تعالی کا وجود اور دین و مذہب انسان کی روح سے تعلق رکھتے ہیں اور روحانیت کا صحیح علم وحی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، اگر کوئی اسباب کو ہی اصل جانے اور مسبب الأسباب کو بھول جائے تو اسے نادان ہی کہا جاسکتا ہے، مولانا وحیدالدین خان مرحوم نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے، نوجوانوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے، ایسی ہی ایک تحریر جدید الحاد – – ایک تجزیہ کے عنوان سے ہے، مولانا تحریر فرماتے ہیں:

"فکری اعتبار سے انسان کی تاریخ کو دو بڑے دوروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے —– قبل سائنس دور، اور بعد سائنس دور- قبل سائنس دور میں فکری اعتبار سے، مذہب انسان کے لیے رحجان ساز بنا هوا تها- ماڈرن سائنس کے ظہور کے بعد یہ صورت حال بدل گئی- اب سائنس کو عمومی طور پر رحجان ساز کا درجہ حاصل هو گیا، سائنس بذات خود نہ مذہب کے موافق ہے اور نہ مذہب کے خلاف، لیکن بعض وجوه سے اس کا یہ عملی نتیجہ نکلا کہ موجوده زمانے میں تقریبا تمام فکری معاملات میں الحادی نظریہ غالب آ گیا- ایسا کیوں کر هوا، یہاں اس کا جائزه پیش کیا جارہا ہے- موجوده سیاره ارض پر انسان ہزاروں سال سے ره رہا ہے- وه روزانہ بہت سی چیزوں کو هوتے هوئے دیکهتا ہے- مثلا سورج کا نکلنا، بارش کا برسنا اور هواوں کا چلنا، وغیره- روایتی طور پر انسان یہ سمجهتا تها کہ یہ سب کچھ براه راست طور پر خدا کی طرف سے کیا جا رہا ہے – یہ عقیده انسان کے لیے ایک مسلمہ یا ایک بدیہی صداقت بن چکا تها- موحد انسان اور مشرک انسان، دونوں کسی نہ کسی طور پر اس کو بطور ایک مسلمہ حقیقت کے مانتے تهے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق (مسبب) اور نتیجے کے درمیان کسی سبب ( cause) کا تصور فکری یا عملی طور پر موجود نہ تها- جدید سائنس کے ظہور کے بعد یہ معلوم هوا کہ ہر نتیجے سے پہلے اس کا ایک مادی سبب موجود ہے- مثال کے طور پر جدید سائنس کا بانی سر ائزاک نیوٹن اپنے باغ میں بیٹها هوا تها- اس کے سامنے سیب کا ایک درخت تها- درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر نیچے گرا- نیوٹن سوچنے لگا کہ پهل درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں آیا، وه اوپر کی طرف کیوں نہیں چلا گیا- آخر کار اس نے دریافت کیا کہ هماری زمین میں قوت کشش ہے، اس بنا پر ایسا هوتا ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں، وه نیچے سے اوپر کی طرف نہیں جاتیں- یہ سائنسی مطالعہ بڑها، یہاں تک کہ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ اس دنیا میں جو واقعات هوتے ہیں، ان سب کے پیچهے ہمیشہ ایک سبب موجود رہتا ہے، ہر نتیجہ کسی سبب کے تحت ظہور میں آتا ہے- سائنس دانوں نے اپنی اس دریافت کو قانون تعلیل ( principle of causation) کا نام دیا ہے- واقعات کو مبنی بر اسباب سمجهنے کا یہ ذہن پهیلتا رہا، یہاں تک کہ وه انسان کی تمام علمی اور فکری سرگرمیوں پر چها گیا- واقعات کی توجیہہ کے لیے پہلے خدا کا حوالہ دیا جاتا تها، اب واقعات کی توجیہہ کے لیے خدا کے بجائے، سبب کا حوالہ دیا جانے لگا- سائنس کی یہ دریافت ابتدائی طور پر اپنے اندر صرف ایک طبیعی مفہوم رکهتی تهے- خدا کے حوالے سے واقعات کی توجیہ نہ کرنے کے باوجود وه خدا سے انکار کے هم معنی نہ تهے- مگر ملحد مفکرین نے، نہ کہ سائنسدانوں نے، نظریاتی ہائی جیک کے ذریعے اس کو خدا سے انکار کے ہم معنی بنا دیا- یہیں سے وه نظریہ شروع هوا جس کو جدید الحاد کہا جاتا ہے- سائنس کی اس دریافت کو لے کر جدید ملحدین نے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب ہمیں واقعات کی توجیہہ کے لیے خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ واقعات اگر طبیعی اسباب کا نتیجہ ہیں، تو وه مافوق الطبعیی اسباب کا نتیجہ نہیں هو سکتے- جدید ملحدین کے اس استدلال میں واضح طور پر ایک بہت بڑا منطقی خلا تها، وه یہ کہ کسی واقعے کا جو سبب سائنس بتا رہی ہے، وه اپنے آپ میں کوئی آخری بات نہیں، اس کے بعد بهی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہ سبب کیوں کر وقوع میں آیا- حقیقت یہ ہے کہ سبب اصل معاملے کی توجیہہ نہیں کرتا، سبب خود اس کا محتاج ہے کہ اس کی کوئی توجیہہ تلاش کی جائے—” (الرسالہ، اگست 2008)

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.