ملت سے کچھ باتیں ان کی ترجیحات کے حوالے سے۔ ( ۳)

فتح محمد ندوی
ہم سے کہاں چوک ہوئی
کسی بھی سیا سی ، سماجی اور دعوتی مقصد کے حصول کے لئے سماج کی نفسیات سے مکمل وا قفیت لازم بلکہ نا گزیر ہے ۔ کیوں کہ عا م طور پراس عوامی نفسیات کی معرفت کے بغیر ہم زندگی کے ہر میدان میں اپنی شمولیت کا احساس کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں، تاہم ہماری وہ شمولیت انقلابی زندگی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوپاتی،اس کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ کیوں ہم زندگی کے میدان کارزار اور مقصد حیات بلکہ اپنے کسی بھی نصب العین میں دوسرے نمبر پر کھسک جاتے ہیں،آج میں اس سچائی اور اس حقیقت کا تجزیہ پیش کروں گا۔ اور اسی کمی کا جائزہ لوں گا جو سیاسی، سماجی اور دعوتی اور اسی طرح ہمارے اسلام کے تعارف اور ترقی میں بڑی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے ۔
در اصل ہماری زندگی اور طرز حیات ہمیشہ دو دھاروں کے سمت بہتا ہے ایک عمومی اور دوسرا خصوصی، یہ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کا براہ راست تعلق سماج سے ہے اور وہ لوگ سماج ہی میں رہتے ہیں، سماج ہی ان کی زندگی کا خاص موضوع ہے، غرض کسی نہ کسی صورت میں وہ سماج سے وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے وہ لوگ جو ہر وقت سماج میں رہتے ہیں، وہ اس سماج کی نفسیات کا ادراک اور شعور بھی کسی حد تک ضرور رکھتے ہیں جس سماج میں وہ کام کرتے ہیں،جہاں ان کو رات دن لوگوں سے واسطہ پڑ تا رہتا ہے۔ کھانے پینے اور ملنے جلنے تک سبھی کاموں میں وہ اس سماج کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں، اب اس پس منظر میں ہندوستان بلکہ برصغیر کے سماج کی اور یہاں کے لوگوں کی عمومی اور طرز حیات کی جو سوچ اور فکر ہے اور جس کو وہ طرزِ حیات کے سلسلے میں پسند کرتے ہیں وہ بالکل سادہ طرزِ زندگی اور سادہ طرز حیات کا حسین اور بے مثال پیکر ہے۔ تا حال زمین سے جڑے ہوئے سادگی پسند لوگ آج بھی برصغیر کے لوگوں کی دلوں کی دھڑکن اور ان کی توجہ اور امیدوں کا سایہ اور ٹھکانہ ہیں؛بلکہ وہ انہیں دیگر تعیش پسند شاہان زندگی کے دلدادہ لوگوں سے زیادہ ترجیح اور عزت اور احترام دیتے ہیں ۔ جس طرف بھی وہ چلتے ہیں لوگ ان کے استقبال میں انہیں اپنی پلکوں پر بٹھا تے ہیں۔
لاریب خود اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بندہ مومن کے لئے سادہ طرز زندگی کو پسند کر تے ہیں ۔ اوراللہ تعالیٰ کو بھی یہی محبوب ہے کہ میرا بندہ سادگی سے اس دنیاکے اندر زندگی گزارے۔ خود آپ علیہ السلام نے تمام عمر سادہ طرز حیات پسند بھی کیا ہے۔اور عملی طور پر اس سادہ زندگی کو اپنا یا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکلف اور تعیش پسندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں کہیں نظر نہیں آتی۔ کھانے پینے اور رہنے سہنے تک آپ کی زندگی سادگی کا مکمل عنوان اور علامت ہے ۔ ’’ایک صحابی ؓنے ایک عمدہ لباس عطا کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اداکی او ر نماز کے فوراً بعد اسے اتارا اور لوٹا دیا دوسرا سادہ لباس زیب تن فرمایا اور ارشاد فرمایا ’’لے جاو ‘‘ اس سے میری نماز میں خلل واقع ہوا ہے۔ ( (مفتی نعیم صا حب کے مضمون سے : الوفا ء ۵۶۴)حضرت عمر ؓ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے اس باراذن مل گیا اور میں بالا خانے کے اوپر پہنچا کیا دیکھتا ہوں کی سرور کا ئنات ایک کھری چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس پر بانوں کے نشان پڑگئے ہیں۔ گھر کے ساز و سامان کا یہ حال ہے کہ ایک طرف مٹھی بھرجو کے دانے پڑے ہیں ایک کونے میں کسی جانور کی کھال رکھی ہے دوسری کھال ایک طرف لٹک رہی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میرا دل بے قابو ہوگیا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسوجاری ہوگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر تم رو تے کیوں ہو؟ عرض کی رونے کی اس سے زیادہ بات کیا ہوگی۔ آج قیصر و کسریٰ عیش و راحت کے مزے لو ٹ رہے ہیں حالاں کہ خدا کی بندگی سے غافل ہیں مگر آپ سروردوجہاں ہوکر اس حالت میں ہیں کہ گھر میں ایک چیز بھی آرام کی میسر نہیںاور کھری چار پائی کے نشانا ت جسم مبارک پر نما یا ں ہیں‘‘۔(رسول رحمت: ۴۸۶ ) غرض آپ نے زندگی کے تمام شعبوں میں چا ہے اس کا تعلق اپنی ذات سے ہو گھر یا سماج سے باوجود اسباب و علل کی فراوانی اور وسعت کے سادگی ور سادہ طرز حیات کو اپنا یاہے اور پسند بھی کیا ہے ۔ بلکہ کہیں اور کسی موقع پر بھی آپ نے اپنے لئے کسی بڑائی اور تصنع کو پسند نہیں فرمایا۔ حتی کہ آپ کی تواضع ،زہد و ایثار اور بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ باہر سے آنے والے اجنبی شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا ن میں دقت ہوتی تھی۔ اصحا ب سیر نے عدی بن حاتم جو اپنے قبیلے عدی کے سردار اور حاتم طائی کے بیٹے ہیں ان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا وا قعہ بیان کیا ہے ’’ عدی بن حاتم اپنی بہن کے کہنے پر آپ سے ملنے تشریف لائے۔جس زمانے میں اسلامی فوجیں یمن گئی یہ بھاگ کر شام چلے گئے۔ ان کی بہن گرفتار ہوکر مدینہ آئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بڑی عزت اور حرمت سے رخصت کیا وہ اپنے بھائی کے پاس چلی گئیںاور کہا جس قدر جلد ہو سکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو۔ وہ پیغمبر ہوں یا بادشاہ ہر حالت میں ان کے پاس جانا مفید ہے ۔ غرض عدی آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ۔ عدی نے مسجد میں جاکر سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد نام پوچھا پھر ان کو لیکر گھر کی طرف چلے اسی اثنا میں ایک بڑھیا آگئی ۔ جس نے آپ کو روک لیا اور دیر تک آپ سے کسی کام کے متعلق باتیں کرتی رہی عدی خود رئیس تھے شام میں رومیوں کا دربار دیکھا تھاان کو حیرت ہوئی کہ شہنشا ہ عرب ایک بڑھیا کے ساتھ اس مساوات سے پیش آتا ہے اس وقت ان کو خیا ل ہوا کہ یہ شخص بادشا ہ نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے چمڑے کا ایک گڈا تھا اس کو عدی کی طرف بڑھا یا یہ اصرار کے بعد اس پر بیٹھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ کیوں عدی تم اپنی قوم سے مرباع لیتے تھے لیکن یہ تمہارے مذہب نصرانیت میں جایز نہیں ہے ۔ پھر فرمایا خدا کے سوا کوئی اور خدا ہے ؟ بولے نہیں کہ خدا سے کوئی بڑا ہے ؟ بولے کہ ’’ نہیں ‘‘آپ نے فرمایا کہ یہودیوں پر خدا کا غضب نا زل ہوا اور عیسائی گمراہ ہوگئے ۔ غرض عدی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حسن اخلاق اور حسن کردار کو دیکھ کر اسلام قبو ل کیا اور ثابت رہے‘‘۔ سیرت النبی /ص / ۳۷۱/ ج دوم/
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی سادگی اور قناعت پسندی کا ایک نمونہ اور پیکر جمیل ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ابو درد ا ؓ کو ایک موٹا سا جبہ اور ایک موٹا سا ازار نکال کر بتا یا اور اس بات کی نشاندہی کر دی کہ یہی وہ دونوں کپڑے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پر دہ فرما گئے ۔ ( الوفاء باحوال المصطفیٰ ۵۶۵ / ۲ / مفتی نعیم )پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ بھی اسی اسوہ ٔ حسنہ کے مکمل پابند رہے جو ان ہوں نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر دیکھا تھا۔حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ نے تمام تر مالی وسعت اور فراوانی کے باوجود سادگی اور تنگی کے ساتھ گزاری ۔ بلکہ پر تعیش اور پرتکلف زندگی کے تمام مکرو ہات کو انہوں نے اپنے پاؤ ں سے کچل کر رکھد یا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی اس سادہ طرز حیات ، اور رہن سہن سے ہم کتنے دور ہیں اس کا اندازہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی سے لگا سکتے ہیں ۔ ذاتی زندگی سے لیکر سماجی اور معاشی ذخیرہ اندوزی تک سیرت رسول کے طرز اور طریقوں سے بغاوت کی حد تک ہمارا معاملہ ہے ۔کچھ باتیں سخت ہوتی ہیں بلکہ ان کو سننے کے لئے ہماری طبیعت بالکل آمادہ نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ہماری جماعت کے وہ لوگ جو براہ راست عوام سے وابستہ ہیں دوسرے الفاظ میں ہم انہیں ملی اور سماجی قائد اور رہنما کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ بہر حال وہ کسی بھی صورت میں عوام الناس کے تئیں مفکر ہیں ۔ ان کے عیش و آرام اور تعیش زندگی کے لوازمات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی تکمیل میں ملت کے نام پر اپنی دکان بنانے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف اسی مذکورہ جماعت کے کچھ لوگوں نے عوامی ہونے کے باوجود اپنی زندگی کے روز مرہ کے اصول اور ضابطوں کو عوام کے لئے اتنے مشکل بنا رکھے ہیںکہ ان تک رسائی اور ان کی شخصیت سے کچھ تصرف ایک عام آدمی کی پہنچ سے بالاتر ہے۔ حالاں کے اگر وقت کے ضا ئع ہونے کی بات کہی جائے اور یہ عذر پیش کیا جائے تو بھی ان کی زندگی وقت کے ضیاع کے حوالے سے حساسیت کی اتنی قائل نہیں جہاں انہیں لمحوں کے ضائع ہونے پر کف افسوس ہو۔جا ری
Comments are closed.