ظلم پر خاموشی، صبر، حکمت یا منافقت اور بزدلی؟

از: محمد اللہ قیصر
سماج میں لوگوں کی طبیعت مختلف ہوتی ہے، سنجیدہ اور اجڈ سب ہوتے ہیں، کمزور اور شرفاء پر ظلم و زیادتی کوئی نئی بات نہیں، قدیم زمانہ کا رواج ہے، اب سے بیس تیس سال قبل تک دیہی علاقوں میں یہ وبا عام تھی، "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کے ظالمانہ اصول پر نظام حیات ٹکا تھا، سب سے پہلے اسلام نے اس کے خلاف جامع طریقہ اپنا، اس نے ظلم کی روک تھا کیلئے تین محاذ سے گھیرا بندی کی، اولا، ظلم پر ناراضگی کا اظہار کیا، ظالموں کی ہلاکت کے واقعات سنائے، ان کی ہلاکت کے یقینی ہونے کا اعلان کیا، نیز ظالم کے دل میں خوف خدا پیدا کرنے کے مقصد سے ظلم پر وعید سناکر اس کے اصلاح کی کوشش کی، وَتِلكَ القُرى أَهلَكناهُم لَمّا ظَلَموا وَجَعَلنا لِمَهلِكِهِم مَوعِدًا۔ (اور یہ ہیں وہ بستیاں جن کے باسیوں کو ہم نے ہلاک کردیا، جب انہوں نے ظلم اختیار کیا، اور ہم نے مقرر کردیا تھا ان کیلئے ہلاکت کا ایک وقت)
دوسرے، سماج کو حکم دیا کہ پہلے اصلاح کی کوشش کرے ، پھر ظالم اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو اس کے خلاف کھڑے ہونے کا حکم دیا۔
وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ”
( ترجمہ: اور اگر اہل ِایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کر رہا ہو تو تم جنگ کرو اس کے ساتھ جو زیادتی کر رہا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف } پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو عدل کے ساتھ اور دیکھو ! انصاف کرنا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔)
نیز آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کو حکیمانہ طریقہ سے ظلم کے خلاف بولنے، اور مظلوم کی مدد کا حکم دیا،عن جابر بن عبدالله لِينْصُرَنَّ الرجُلُ أخاهُ ظالِمًا أوْ مظلُومًا، إنْ كان ظالِمًا فلْيَنْهَهُ، فإنَّهُ لهُ نُصْرَةٌ، وإنْ كان مَظلومًا فلْينْصُرْهُ فلينصره” (الحديث) . (حضرت جابر ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آدمی اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو مظلوم، اگر ظالم ہو تو اس کو ظلم سے روکے، اس لئے کہ یہی (ظلم سے روکنا) اس کی مدد ہے، اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے)
تیسرے حکومت پر لازم کیا کہ ظالم کو سزادے، ، قتل، غصب، زیادتی، توہین و تذلیل اور مار پیٹ، ہر نوعیت کے ظلم کیلئے الگ الگ سزا مقرر کی، قانون کے ساتھ عوامی بیداری پر بھی توجہ دی، لہذا جب تک اور جہاں بھی اسلامی نظام قائم رہا، سماجی ، اور حکومتی ہر سطح پر بڑی حد تک ظلم پر بندش قائم رہی، اور بعد کے زمانہ تک دینی مزاج رکھنے والا ایک چھوٹا طبقہ اس سماجی برائی سے محفوظ رہا، لیکن اسلامی حکومتوں کے زوال اور سماج میں اسلامی تعلیمات میں تساہلی سے ایک بار پھر ظالمانہ سماج کو سر ابھارنے کا موقع ملا، زمین دارانہ نظام آیا اور سماج پھر جہالت کی ڈگر پر چلا گیا، پھر سماج میں ظلم کا رواج بڑھ گیا، لیکن جمہوریت کے پھیلاؤ کے بعد "اسٹیٹ” کی خود مختاری، ظلم و زیادتی کے خلاف قانون سازی اور ” لاء اینڈ آرڈر” کی جزوی درستگی نے اس بیماری پر کاری ضرب لگائی، اور دیہی علاقوں کا غریب ترین طبقہ بھی "ظلم و تعدی” کی مصیبت سے ایک حد تک محفوظ ہو نے لگا، لیکن یہ ایک خالص سماجی برائی ہے اس لئے سماج جب تک بیدار نہیں ہوگا، اس کا مکمل خاتمہ ناممکن ہے، -واضح رہے کہ اسلام کا بڑا زور سماجی بیداری پر ہی ہے-، اس کے خلاف قانون سازی اور "لاء اینڈ آرڈر” کی درستگی نے عوام کو بھی بیدار کیا ہے، سزا کا آغاز ہوا تو دھیرے دھیرے عوام میں بیداری آئی، ان کو محسوس ہوا کہ ظلم کو روکنا ممکن ہے، ظالم درحقیقت اندر سے انتہائی کمزور اور بزدل ہوتا ہے، اس کے خلاف کھڑا ہونا ہی اس کے خاتمہ کا نقطئہ آغاز ہے، لہذا عوام بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے لگے، آج یہ حالت ہے کہ "ظلم پر صبر” زمانہ رفتہ کی یادگار بن کر رہ گیا ہے، اب ہر کوئی "ظلم پر خاموشی” کو اچھے اخلاق اور” شرافت” سے تعبیر کرنے کے بجائے، "بزدلانہ صفت” کا نام دیتا ہے، بعضوں نے مظالم پر خاموشی کو منافقت سے تعبیر کیا ہے، قتیل شفائی کہتے ہیں
دنیا میں قتیل اس سے منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
چناں چہ ایک سنجیدہ اور جذباتی بگاڑ سے پاک، شریف انسان کی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ اگر کہیں ظلم نظر آئے، تو ظالم کے خلاف سر بکف ہوکر بغاوت کا اعلان کرے، سماجی اور قانونی طور پر اس کا تعاقب کرے، دین اسلام نے بھی ظالم کے تعاقب کی تعلیم دی ہے، چناں چہ پہلے انصاف اور صلح کا حکم دیا پھر صلح سے بھاگنے والے کے تعاقب کا حکم دیا کہ سب ملکر ظالم کی سرکوبی کیلئے آگے بڑھو ، اور اس وقت تک تعاقب ہونا چاہئے جب تک کہ وہ خدائی حکم تسلیم نہ کرلے، انصاف کے ڈگر پر واپس نہ آجائے۔
ذرا تصور کیجئے پورا سماج اگر کسی ظالم کے خلاف بیک آواز کھڑا ہوجائے، تو کس میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ دوبارہ کسی پر ظلم کا ارادہ کرلے، ایسا ممکن ہی نہیں ہے،
دراصل سماج کی اکثریت ظلم و تعدی کے مقابلہ میں اسلئے خاموش رہتی ہے، کہ وہ "غیر ضروری پریشانی” میں پڑنا نہیں چاہتی، حالاں کہ ظلم کا ادنی ترین معاملہ بھی غیر "ضروری پریشانی” نہیں ہے، وہ سماج کیلئے "کینسر” ہے، اور کینسر کو غیر ضروری پریشانی نہیں کہا جا سکتا، جس طرح جسم میں کینسر ہوجائے تو انسان تباہ ہوجاتا ہے، اسی طرح سماج میں کسی فرد کو ظلم کا روگ لگ جائے تو پورا سماج مکمل فساد کا شکار ہو جاتا ہے، کینسر جس طرح جسم میں خلایا کے معمول سے زیادہ تیزی سے بڑھنے کا نام ہے، اگر اول مرحلہ میں اس کا علاج نہیں ہوا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد جسم میں پھیل کر اسے تباہ کردیتا ہے، اسی طرح ظلم دوسری عادتوں کے مقابلے بہت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، اگر پہلے مرحلہ میں اس پر بھی بندش نہیں لگائی جاتی تو آنا فانا پورے سماج کو تہس نہس کر دیتا ہے، تعلیمی، اقتصادی ،ذہنی و فکری ترقی بالکل تھم جاتی ہے، فطری بات ہے، سماج پر امن ہوگا، تو لوگ اس کی ترقی کے راستے تلاش کریں گے، اس کے بجائے اگر انتشار کا زور ہو تو کسی کو غور وفکر کا موقع کہاں سے مل سکتا ہے۔
اسلئے اگر کوئی سماج اپنی اور اپنے نئی نسل کی ترقی چاہتا یے، تو اسے سب سے پہلے سماج سے ظلم و تعدی کا کینسر ختم کرنا ہوگا، ورنہ جان لے کہ تنزلی اس کا مقدر ہے۔
Comments are closed.