یوپی میں اویسی کی آمد، قابلِ تحسین

بقلم :مفتی محمداشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

ستر سالوں سے بی جی پی اور فاشسٹ طاقتوں کو ہراتے ہراتے مسلمان ملکی سسٹم کے کس پائیدان پرپہونچ گئے؟
صرف کسی پارٹی کوہرانے کے جذبے سے میدانِ عمل اور قلمدان تک پہونچنے کی کوششیں ترک کردینا باحوصلہ اور زندہ قوموں کی نہیں بلکہ غلاموں کی سوچ ہوسکتی ہے۔یہ سوچ ہمارے پیروں میں غلامی کی زنجیر کو مضبوط کرتی رہے گی۔
جس طرح فاشسٹ قوتوں نے مذہبی منافرت کی بنیاد پر فتوحات کی منزلیں طے کی ہیں۔اُسی طرح اہلِ ایمان امن وانصاف،مساوات و مواقع اورمحبت واخوت کی بنیاد پر فاشسٹ قوتوں سے کہیں بہتر طریقے،حکمتِ عملی اور منصوبوں پرعمل کرتے ہوئے الیکشن میں تخریب پسندوں کو شکست دے کرملک وملت کی بہتر ناخدائی کرسکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں کچھ لوگ اپنی سفید پوشی اور عیش کوشی کو دوام دینے کی خاطر نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے قدم پرکھڑے ہوں؛ کیوں کہ اس طرح وہ دیگر اقوام سے اپنی عیش پرستی کے لیے عام مسلمانوں کا سودانہیں کرسکیں گے۔
اس ملک میں صرف دو نہیں بلکہ 6743 قومیں رہتی ہیں۔ اور تمام قومیں اپنے اپنے تشخصات و امتیازات کے تحفظ کی متمنی ہیں.ان سب کو ایک قوم کے بجائے ان کی اصل پوزیشن پر باقی رہنے اوران کے تشخصات و امتیازات کے تحفظ کایقین پیدا کرکے مسلمان ان کے امتیازات و تشخصات کے محافظ اورملک میں منصفانہ قیادت کے فریضے کی ادائیگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں؛
( یادرکھیں کہ! ہمیں بھول کربھی کسی تقریر،اسپیچ یا تحریرمیں لفظ ‘ہندو’ بولنے ، لکھنے سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ یہ لفظ گالی ہے اور جب یہ لفظ ہم بولتے ہیں تو یہی نہیں کہ کسی کو گالی بکتے ہیں بلکہ ملک کی 6743 قوموں کو اس لفظ سے متحد کرکے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر نے کی غیر شعوری طور پر بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔)
یوپی،بہاراور دیگرصوبوں کے انتخابات میں حصہ لینے پربعض مسلمان ایم. آئی.ایم.پارٹی کو مطعون کر رہے ہیں۔اس طعن وتشنیع کے پیچھے دوغلط محرکات کام کررہے ہیں:
اول:بی جے پی یا دیگر فاشسٹ قوتوں کو صرف شکست دینے کی سوچ۔
دوم:مسلمانوں کوغلام سمجھنے والے سفید پوش مسلمانوں کی طرف سے نئی مسلم قیادتوں کے خلاف کھڑے کیے گئے موانع۔
معاملہ یہ نہیں ہے کہ ایم، آئی، ایم کی وجہ سے فاشسٹ طاقتیں آگے نہیں بڑھ رہی ہیں، بلکہ مذکورہ بالا دونوں غلط محرکات کی وجہ سے مسلمان چند سفید پوشوں کے غلام بن کر اپنی ہی پارٹی و افراد کو ووٹ نہیں کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہےکہ فاشسٹ قوتیں آگے جارہی ہیں۔ اورغیرشعوری طو پر مسلمانوں کی طرف سے ہونے والی غلطی اورغلامانہ سوچ کی وجہ سے مسلمانوں کی مخلص قیادتی شکست سے دوچار ہیں۔ع

اپنے ہی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کا
طائروں پر سحر ہےصیاد کے اقبال کا

اگر مسلمان مذکورہ بالا دونوں غلط محرکات سے آزاد ہوکر یک طرفہ اہل ایمان و مخلص امیدوار کو ووٹ کریں تو ایماندار ممبران کافی تعداد میں کامیاب ہوکر مقننہ میں پہونچ سکتے ہیں۔
ہمارا نصب العین کسی پارٹی کو صرف شکست دینا نہیں ہوناچاہیے ، بلکہ قلمدان تک پہونچ کر ملک میں امن وانصاف کی بالادستی کے لیے خود مکتفی ہونا ہمارا گول و نصب العین ہونا چاہئے۔اس سلسلے میں کچھ باتیں بہت اہم ہیں۔
1.ایکڈمک بیسڈ پرملک کی مختلف قوموں کو ان کی اصلیت سے انھیں متعارف کرانے اورجوڑنے کے لیے تحقیقی کاموں کو مختلف وسائل کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ملک کی مختلف قوموں تک پہونچایاجائے۔
(اس سلسلے میں انتظار نعیم کی کتاب’دلت سمسیا، جڑ میں کون؟’اور وی ٹی راج شیکھر کی جملہ کتابیں،ایم۔ اے ۔ چودھری کی کتاب’ آتنکواد کی جڑ؟ منوواد’کامطالعہ کافی مفید پے۔) اس کے ساتھ ہر جگہ مختلف جماعتیں اِن قوموں میں خاموشی کے ساتھ سلیپر مومینٹ کے طورپر اسلام کے تعارف ودعوت کا کام بھی کریں۔ ( ابتدائی مرحلے میں پیام انسانیت کے لٹچرس اور مولانا کلیم صدیقی صاحب کی کتاب ‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘کی تقسیم کافی مفید ہیں)
2. انتخابات کےسلسلے میں حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ آنجہانی کاشی رام کی تھیوری پر عمل کیا جائے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ:
(الف)ہم پہلے ہاریں گے پھر بھی الیکشن لڑیں گے۔
(ب)ہارتے ہارتے ایک دن آئے گا کہ دوسری پارٹیوں کا حصہ بنیں گے۔
(ج)پھرگوکہ ہم نہیں جیتیں گے اورنہ ہماری حکومت بنے گے۔ لیکن دوسروں کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہوگے۔ اوردشمنوں کو شکست دیں گے۔
(د) اتنے مرحلوں کے بعد پھر ہماری حکومت آئے گی۔
بی جے پی کی ابتدائی صورتِ حال بالکل ایسی ہی تھی اورپھر اسی تدریجی مرحلے سے گزر کر آج اس مقام پر ہے، جہاں ہم اُسے دیکھ رہے ہیں۔
بی ایس پی اسی تھیوری پرعمل کر تے ہوئے تدریجی مراحل سے گزر کر کئی بار یوپی میں اپنی سرکار بنا چکی ہے۔
کچھ طاقتوں کو شکست دینے اور مسلمانوں میں موجود سفید پوش برہمنوں کی غلط رہمنائی کی وجہ سے ستر سالوں سے مسلمان اپنی ساری جد وجہد دوسروں کو شکست دینےپر ہی مرتکز کیے ہوئےہیں۔اوراپنی پولیٹکس پارٹی کے قیام واستحکام کے ذریعہ خود فاتح بننے کے بارے میں بہت کم سوچتے ہیں،بلکہ سوچتے ہی نہیں ہیں۔ جوکہ افسوسناک بات اورمسلمانوں کے زوال وادبار کاباعث ہے۔
ضرورت ہے کہ غلامی ومایوسی کے حصار سے باہر نکل کر ہر ہرخطے سے مسلمان پولیٹیشنس آگے آئیں . اورہارتے، ہراتے، شراکت ومرافقت کے معاملات کرتے ہوئے قلمدان تک پہونچ کر ملک میں امن و انصاف کی باگ ڈور سنبھالیں۔
اقلیت و اکثریت کی بنیادپر اقتدار تک نہیں پہونچا جاتا ہے، بلکہ دماغ کو صحیح استعمال کرکے فتوحات حاصل کی جاتی ہیں۔ جب گھوڑے اور گدھے کی سواریاں ہوتی تھیں، اورہم بہت چھوٹی اقلیت میں بلکہ نہ کے برابر تھے، لیکن دماغ سے کام لیتے تھے،تو ہم دوسرےمقام ومرتبہ پر تھے۔ اوراس ملک میں کاغذ کے نہیں بلکہ ہمارے ذریعہ سونے اورچاندی کے سکےچلتے تھے۔
3.مقابلہ میں اترنا بذات خود ایک قسم کی فتح ہے، اس سے فاسسٹ قوتوں کو ضرور کچھ نہ کچھ ضررو ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے،اور مقابلہ کرنے سے غلامی کہ سوچ ختم ہوتی ہے،آگے بڑھنے کے حوصلے و تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم الیکشن ہار بھی جائیں تو بھی الیکشن لڑنا فائدہ سے خالی نہیں ہے۔
4.امن و انصاف کے قیام ، محروموں ومظلوموں کے لیے مساوات ومواقع کی فراہمی کے لیے مناسب اورطاقتور منطق اور لاجک ہی کافی ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر محترم ومکرم ہستیوں کی طرف منسوب خوابوں کو بیان کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
5. بھارت کی موجودہ صورتِ حال میں مسلمان کسی بھی شعبہ میں میاں بھائی، خان اورترم بن کر نہیں کامیاب ہو سکتے ہیں، بلکہ یہاں اب صرف ایک ہی راستہ بچاہے کہ مسلمان صرف مسلمان بن کر رہیں، بولیں، لکھیں اور آگے بڑھیں۔
اس لیے عوام کو مخاطب کرتے وقت سیکڑوں پرایک میاں بھائی کے بھاری ہونے کی باتیں کرنا صرف اور صرف شکست و ریخت کاذریعہ اور میاں بھائیوں کی مزید تباہی کاباعث ہے۔
آخر میاں بھائی کیسے اور کہاں سیکڑوں پربھاری ہیں؟ جب کہ میاں بھائیوں کے تعلیم یافتہ نوجوان ،باکردار متمول افراد کو ان کے گھروں سے اٹھا کر کئی کئی سالوں تک جیلوں میں سڑایا جاتا ہے۔ سب سے بڑی عدالت میاں بھائیوں کی مظلومیت اور بے گناہی کو بتابتا کر (کہ میاں بھائیوں نے کسی عبادت خانہ کو توڑکر بابری مسجد نہیں بنائی،بابری مسجد کو توڑنے والے مجرم ہیں) علی الاعلان میاں بھائیوں کے خلاف اور مجرموں کے حق میں فیصلہ سناتی ہے۔ جنتر منتر پر کھلے عام میاں بھائیوں کو کاٹنے کے پرشور نعرے بلند کئےجاتے ہیں، اورایسے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔
ان تمام موقعوں پر پرسینکڑوں پر بھاری پڑنے والے میاں بھائیوں کی کوئی موثر کارروائی نظرنہیں آتی ہے۔
اس لیے نہ میاں بھائی بننا چاہئے اور نہ ہی میاں بھائی کا نعرہ لگا نا چاہئے۔ بلکہ مسلمان بننے اور مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
خاص طور پر پولیٹیکس میں تو اس قسم کے لغو الفاظ کے استعمال میں بہت احتیاط برتنا چاہئے۔
6.مسلمان پولیٹکل فیلڈ میں ہوں یا کسی دوسرے میدان میں، انھیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ :وہ ایک داعی قوم ہیں۔ اس لیے خاص طور پر موجودہ حالات میں اپنے خطبات وخطابات میں انھیں کسی بھی مذہب اور قوم کے خلاف ایسا کوئی جملہ نہیں بولنا چاہئے، جس سے دوسری اقوام سے دوری پیدا ہو اور دعوتی مواقع ختم ہو جائیں۔
7۔ مسلمانوں اور مسلم تحریکوں کی یہ کمزوری ہے کہ وہ کسی بھی تحریک، مومنٹ اور ادارہ کے ساتھ جب تک اسلام یا مسلمان وغیرہ الفاظ نہیں جوڑتے ہیں اس وقت تک انہیں چین نہیں آتا ہے۔ اس طرح اسلام اورمسلمانوں کی ترقی و فتوحات کوروکنے کا انتظام پہلے دن ہی ہم کرلیتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ عملی لحاظ سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، اور سیاسی مصالح کے پیش نظر اپنے تحریکی اداروں کے نام انگریزی ، ہندی، کنڑ، گجراتی، مراٹھی وغیرہ زبانوں میں مقرر کریں۔خاص طورپر پولیٹیکس میں اس بات کا ضرور لحاظ کرنا چاہئے۔
آخرمیں یوپی میں اویسی کی آمد پر انھیں بہت مبارک بادی ور تہنیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کی نصرت فرمائے، اور ہرقسم کے شرور وفتن سےملک وملت کی
حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین
فقط

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اُجین (ایم ۔ پی)
یکم محرم الحرام ھ
11/جولائی2021ء

Comments are closed.