لاک ڈاون میں بند مسجدوں کے ائمہ ومؤذنین کےماہانہ وظائف

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسئلہ میں۔
کووڈ19/کے موقع پر جسمانی فاصلہ (Physical distancing) قائم کرنے کے لیےحکومت(Administration) اور محکمۂ صحت(Health department)
کی ہدایت کے مطابق تالابندی (Lockdown) کی وجہ سے مختلف ادارے بند کردیے گیے ، ان اداروں میں عبادت گاہیں بھی آتی ہیں جہاں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے، عبادت گاہوں میں خاص طورسے مسلم مراکز اور مسجدوں کو بند کرانے کے لیے حکومت اور Administration نے بڑی سختی کی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان نمازوں وغیرہ کے لیے مسجدوں میں نہیں حاضر ہوسکے۔ اور چونکہ صرف پانچ نمازیوں کو مسجدوں میں نماز کے لیے حاضری کی اجازت تھی، بعض ائمہ کی رہائش مسجدوں سے کچھ فاصلے پر تھی، جائے سکونت اور مسجد کے درمیان فاصلہ ہونے کی وجہ سے ائمہ اپنی آمد ورفت پر انتظامیہ(Administration) کی بداخلاقی اور زیادتی کے اندیشہ کی پیش نظر پنج وقتہ امامت کے لیے مسجدوں میں نہیں حاضر ہوسکے۔ نیز کہیں کہیں
مسجدوں میں حاضر ہونے والے مقررہ نمازیوں میں سے کچھ مقتدیوں نے ائمہ کو انتظامیہ (Administration) کی بداخلاقی سے محفوظ رہنے کے لیے یہ کہہ کر روک دیا کہ راستے میں ڈر ہے، اور مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہے، اس لیے ہم خود ہی نماز کی امامت کرلیں گے، اور آپ مسجد میں حاضر ہونے کی زحمت نہ اٹھائیں۔
چنانچہ لاک ڈاون کے موقع پر بعض ائمہ مسجدوں میں نہیں حاضر ہوسکے، اور اکثر ائمہ حاضر ہوئے، لیکن مقتدیوں کی تعداد بہت کم رہی۔ ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ:
1.جو ائمہ مذکورہ بالا صورتِ حال میں مسجدوں میں امامت کے لیے نہیں حاضر ہو سکے وہ غیرحاضری کے باوجود مسجد انتظامیہ کی طرف سےاپنے ایام غیر حاضری کے وظائف کے حقدار ہیں کہ نہیں۔
2.اگر انتظامیہ انھیں غیر حاضری کے ایام کے وظائف نہ دے تو شرعی لحاظ سے انتظامیہ کا فیصلہ درست ہے یا نہیں؟
3.بیان کردہ صورتِ حال میں جو ائمہ مسجدوں میں حاضر ہوتے رہے لیکن وہاں نمازیوں کی اتنی قلیل تعداد رہی کہ باوظیفہ امام کی امامت کے بجائے صرف اپنے فرض کی ادائیگی کے مماثل ان کی امامت رہی، ایسے ائمہ کے وظائف کاکیا حکم ہے۔
4.کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایامِ تالابندی(Lockdown (period کے وظائف ائمہ کو لینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کمیٹی کے لیے یہ درست ہے کہ ان ایام کے وظائف ائمہ کو دے۔کیا ان لوگوں کی بات درست ہے۔؟
بینواوتوجروا
عبداللہ، اُجین، (ایم پی)
الجواب حامداومصلیا، امابعد
بیان کردہ دو نوں صورتوں میں ائمہ ومؤذنین ماہانہ وظائف کے حقدار ہیں، استطاعت کے باوجوداگر کمیٹی تنخواہ نہ دے وہ گنہ گار ہوگی۔ اگر کمیٹی کے پاس مالی وسعت نہیں ہے، توعام مسلمانوں ومصلین سے چندہ کرکے ائمہ ومؤذنین کو ایام تالابندی (Lockdown period)
کی تنخواہ دی جائے۔موجودہ صورتِ حال میں تنخواہوں کےدینے لینے کوجو لوگ ناجائز کہتے ہیں ان کی بات درست نہیں ہے۔
مسجد و مدرسے کارخانہ یا فیکٹری نہیں ہیں کہ اگر کچھ دنوں تک لیبریاکاریگر وہاں مصنوعات نہ تیارکریں ،تومصنوعات کی فروختگی اور آمدنی پر اثر پڑتا ہے۔ اس لیے کام نہ کرنے کی صورت میں کارخانہ کے مزدوروں اور کاریگروں کی مزدوری نہیں دی جاتی ہے۔
بلکہ مسجدوں کے نظام کو بہتر ومنظم انداز میں مسلسل جاری رکھنے کے لیے امامت وغیرہ کو عقدِ اجارہ سے مربوط کرکے ائمہ ومؤذنین کے لیے ماہانہ وظائف مقرر کیے گیے ہیں۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امامت ومؤذنی مزدوری نہیں ہے۔ کہ عام حالات میں کارخانے کے مزدوروں طرح ان کے وظائف میں کٹوتی کا معاملہ کیا جائے۔
عام مسلمان رضائے الہی وحصول ثواب کے شوق وامید میں مسجدوں کے نورانی معمولات کو برابر جاری رکھنے کے لیے مسجدوں میں چندہ دیتے ہیں۔ اگر ائمہ ومؤذنین موجودہ حالات میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکے، تو بھی مسلمانوں کی امداد سے ان کو ان کے ماہانہ وظائف کی ادائیگی پر چندہ دہندگان کو ثواب ملے گا۔ کارخانے کی طرح نہیں کہ اشیاء پروڈیوز نہیں ہوئیں تو آمدنی بند۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسجد کی عمارت کی حفاظت کے بعد مسجدوں کی اساسی خدام اورروح رواں ائمہ وموذنین کی حفاظت بھی متعلقہ مساجد کی کمیٹیوں اور نمازیوں کی دینی ذمہ داری ہے۔
جس طرح خاص حالات میں مسجدوں کی عمارت کو مسلمان محفوظ رکھنے کی حتی المقدور سعی کرتے ہیں، اسی طرح مسجدوں کے ائمہ ومؤذنین کو متعلقہ مسجدوں سے مربوط رکھنے کے لیے فکر کرنا متعلقہ مسجدوں کی کمیٹیوں، نمازیوں اور مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ موجودہ صورتحال میں ائمہ ومؤذنین کے ماہانہ وظائف نہ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
بیان کردہ حالات کی وجہ سے مسجدوں میں نہ حاضر ہونے والے یاقلیل ترین مقتدیوں کی امامت کرنے والے ائمہ و مؤذنین کو ان کے ماہانہ وظائف سے محروم کرنے سے مسجدیں کو مستقل مزاج اور بہترومناسب ائمہ ملنا مشکل ہوگا۔ اس طرح مسجدیں ویران یا نااہل ائمہ ومؤذنین کی آمد وتقررکی وجہ سے مسجدوں کی روحانی فضاوہوا مکدر ہوجائے گی۔
ائمہ ومؤذنین کی تعطیلات اور تعطیلات کی چھٹیوں کے سلسلے میں بنیادی طور پر دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ان دوباتوں پر لاعلمی کی وجہ سے بھی ایسے سوالات پیدا ہوتے اور ائمہ ومؤذنین اور ارکان کمیٹی ومصلین کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں۔
?پہلی بات: یہ کہ مسجدوں کے ائمہ ومؤذنین کی چھٹیوں کے سلسلے میں ارکان کمیٹی اور مصلین شرعی ہدایات کی بالکل پابندی نہیں کرتے ہیں جس کے اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ اور ائمہ ومؤذنین حتی کہ علماء وخطباء ان کی ماہانہ چھٹیوں کے سلسلے میں ارکان کمیٹی ومصلین کو نہیں بتاپاتے ہیں۔ جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
ائمہ وموذنین کی چھٹیوں کا حکم یہ ہے کہ ان کو ہر مہینے سات دنوں کی چھٹی دی جائے۔ علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں:
"نقل فی القنیۃ :ان الامام للمسجد یسامح فی کل شھراسبوعاللا ستراحۃ او لزیارۃ اھلہ، وعبارتہ فی باب الامامۃ،:امام یترک الامامۃ لزیارۃ اقربائہ فی الرسائق اسبوعا او نحوہ، او لمصیبۃ او لاستراحۃ لابأس بہ، ومثلہ عفو فی العادۃ والشرع، انتھی۔ ( الاشباہ والنظائر مع شرحھا باللغة الاردیۃ نورالبصائر، ج 1/ص467/بزم نصرۃ المؤمنین، بڑودہ، گجرات 2012ء)
ترجمہ:
"قنیہ میں ہے کہ: مسجد کے امام کوہرماہ ایک ہفتہ کی رخصت ہونی چاہیے، آرام کے لیے، یا اپنے اہل وعیال کی زیارت کے لیے،اس ( قنیہ) کی عبارت باب الامامۃ میں یہ ہے، :وہ امام جو دیہات میں اپنے اقرباء کی زیارت کے لیے جائے، یا مصیبت کے وقت یا آرام کے لیے مہینے میں ایک ہفتہ امامت نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ( اس لیے رخصت کے ان دنوں کا وظیفہ وضع نہیں کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ) عادت اور شریعت میں اس جیسی غیر حاضری معاف ہے۔ الاشباہ والنظائر، ”
(تعمیر مساجد اور انسانیت کی رہنمائی، ص277/بندہ(مفتی) محمد اشرف قاسمی، مکتبہ شاہ ولی اللہ دہلی، 2017ء)
چونکہ ہفتے کے سات دن، مہینے کے چار پانچ ہفتے اور سال کے بارہ مہینے مسجدوں میں باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں،تو جس طرح مسجد میں پتھر کامنبریاستون نصب ہوتا ہے اسی طرح ائمہ ومؤذنین کو سمجھ کر ائمہ ومؤذنین کو ماہانہ رخصتوں سے محروم کردیاگیا جو کہ زیادتی ہے۔
?دوسری بات: یہ ہے کہ مسجد کے اوقاف اور مسلمانوں کی امدادی رقوم کومسجد کی عمارت کے بعد ائمہ ومؤذنین پر ماہانہ وظیفہ کی صورت میں خرچ کرنا ضروری ہے۔
فی الدرالمختار:(ویبدأ من غلتہ بعمارتہ )ثم ماھو اقرب لعمارتہ کامام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون بقدر کفایتھم (وان لم یشترط الواقف ) لثبوتہ اقتضاء، وتقطع الجھات للعمارۃ وان لم یخف ضرر بین فتح۔ فان خیف کامام وخطیب وفراش قدموا، فیعطی المشروط لھم،۔۔۔۔
ویدخل فی وقف المصالح قیم
امام، خطیب والمؤذن یعبر
وفی الرد المحتار: قولہ ویدخل فی وقف المصالح؛ ظاھرہ ان جمیع من ذکر یکون فی قطعہ ضرر بین،
(الرد المحتار مع الدرالمختار، ج6/ ص559,566تازکریا)
اگر امام و مدرس اپنے ذاتی حالات وتعدی کے بغیر امامت یا تدریسی خدمات نہ انجام دے سکیں تو بھی وہ چندہ والے ملی اداروں اور اوقاف سے ماہانہ وظائف کے حقدار ہوتے ہیں۔
فی الرد المحتار: مطلب فیمن لم یدرس لعدم وجود الطلبۃ، وفی الحموی: سئل المصنف عن من لم یدرس لعدم الطلبۃ فھل یستحق المعلوم؟ اجاب، ان فرغ نفسہ للتدریس بأن حضر المدرسۃ المعینۃ لتدریسہ استحق المعلوم، لامکان التدریس لغیر الطلبۃ المشروطین، قال فی شرح المنظومۃ : المقصود قبیل الفروع انہ لو درس فی غیر ھا لتعذرہ فیھا ینبغی ان یستحق العلوفۃ ،وفی فتاویٰ الحانوتی، یستحق المعلوم عند قیام المانع من العمل وان لم یکن بتقصیرہ سواء کان ناظرا او غیرہ کالجابی
( الدرالمختار، ج6/ 567زکریا)
یہی نہیں بلکہ ائمہ وخطباء کے بارے میں یہاں تک صراحت ہے کہ ان کا انتقال ہوجائے تواوقاف سے ان کا ماہانہ وظیفہ ان کی اولاد کو دیا جائے( خواہ اولاد چھوٹی ہو)، اور اولاد بالغ ہونے کے بعد اگر امامت وخطابت کی ذمہ داری سنبھالتی ہے تو امام وخطیب باپ کا وظیفہ بیٹے کے لیے جاری رہے گا اور اگربالغ ہونے کے بعد اولاد امامت وخطابت نہیں کرتی تو اب امام کی اولاد کا وظیفہ بند کیاجائے گا۔
وفی الدر المحتار: انہ مات الامام او المدرس،
قال الشامی ناقلا عن العلامۃ البیری: اقول ھذا ھو مؤید لما ھو عرف اھل الحرمین ومصر والروم من غیر نکیر من ابقاء ابناء المیت ولوکان صغارا علی وظائف آبائھم من امامۃ وخطابۃ وغیر ذالک عرفا رضیا، لان فیہ احیاء خلف العلماء ومساعدتھم علی بذل الجھد فی الاشتغال بالعلم وقد افتی بجواز ذالک طائفۃ من اکابر الفضلاء الذین یقولون علی افتائھم، اھ وقیدنا ھنا بما اذا اشتغل الابن بالعلم، اما لوترکہ وکبر وھو جاھل فانہ یعزل وتعطی الوظیفۃ للاھل۔( (الرد المحتار مع الدرالمختار، ج8/ص143/زکریا)
جب امام وخطیب کے انتقال کے بعد اس کی اولاد
( خواہ چھوٹی ہی ہو) کے لیے بالغ ہونے تک اور بالغ ہوکر امامت وخطابت نہ اختیار کرنے تک وظیفہ جاری رکھنے کی ہدایت ہے، تو ایک دوسال کے لاک ڈاون کی وجہ سے خدمات انجام نہ دینے سکنے پر زندہ وموجود اور خدمات پر مامور ائمہ وخطباء اور مؤذنین کے وظائف بدرجہ اولی دینا لینا درست ہے۔
خدمات دینیہ میں مصروف علماء کے تعاون کی ترغیب دینے کے بجائے جو مسلمان ان کے وظائف میں کٹوتی کی بات کرتے ہیں وہ توبہ کرکے علماء کا تعاون کریں۔ اگر اس قسم کے قدرتی ودجالی آفات کی وجہ سے
علماء وائمہ کی وظائف کو روکا گیا تو خدا نخواستہ ابھی جماعت، جمعہ وعیدین سے محرومی ہے، کہیں نماز جنازہ سے بھی محرومی نہ ہوجائے۔ اعاذنااللہ منہ
کتبہ :
محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء:شہر مہدپور،
اُجین( ایم پی)
2محرم الحرام 1443ھ
مطابق12/اگست 2021ء
تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری۔
ترتیب:محمد فیضان خاں، مہدپور،
مسافر الی دلھی بقطار غولدن تمفل۔
Comments are closed.