آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
ایڈیٹر:ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی
یہ ملک ہندوستان جس کے بارے میں ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ مجھے ہندوستان سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں جس کا نقشہ علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کھینچا ہے ؎
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
ہم اس ملک میں آئے تو اپنے ساتھ انصاف، اخوت، مساوات، علم و فن، ثقافت و تہذیب، امن و رواداری، محبت و انسانیت کی روشنی اور خدمت و تعمیر کا جذبہ لائے اور ہم نے ان اوصاف کو یہاں کے لوگوں پر خوب لٹایا اور فیاضی کے ساتھ لٹایا۔ اس کے عوض میں یہاں کی زرخیز مٹی نے علم و حکمت کے جو ذخیرے اپنے اندر محفوظ رکھے تھے، ہمارے قدموں میں ڈال دیئے۔ ہم نے یہاں کے ذرے ذرے سے محبت کی۔ یہاں کے چپہ چپہ کو اپنے جذبۂ عشق کی سجدہ گاہ بنایا۔ یہاں کی محبت ریز سرزمین نے ہمارے دلوں کو جیت لیا اور اس سرزمین نے ہمارے سروں پر شفقت و عنایت کا ہاتھ رکھا۔ ہمارے حوصلوں، ہماری امنگوں کو رعنائیاں اور شادابیاں عطا کیں، ہم نے اسے وطن کا پر عظمت مقام دے دیا۔ اس کی خدمت ہماری سعادت بن گئی، اس کی حفاظت اور اس کا احترام ہمارے لئے سر مایۂ افتخار بن گیا، اس کی آغوش ہمارے لئے شفقت و محبت بن گئی۔ ہم نے یہاں کے سرد و گرم کو برداشت کیا، طوفان، مصائب کا سامنا کیا، ہمیشہ خارزار کو گلستان بنانے کی کوشش کی اوروں کی جانب گل پھینکتے رہے، تاریخ کی ایک لمبی مسافت ہے جو ہم نے اس سرزمین میں عظمت و سربلندی کے لہراتے ہوئے پرچم کے سایہ میں طے کی ہے۔ یہاں کی گلریز وادیوں نے ہمارے پاؤں چومے اور سنگلاخ پہاڑیوں نے جھک کر ہمارے قدموں کو بوسے دیئے۔ مئی 1857ء کی تاریخ ہمارے اس پروقار سفر کی آخری سرحد ثابت ہوئی۔ پھر کچھ ضمیر فروشوں نے اپنی قوم، اپنے مذہب اور اپنے وطن کا سودا کیا جس کے نتیجے میں انگریزوں نے تقریباً 90 سال تک بڑے آن و بان اور شان و شوکت کے ساتھ یہاں کے ذرہ ذرہ پر حکومت کی۔ انہوں نے اپنی حکومت و اقتدار کے زمانہ میں ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ہمارے آبا و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کی پامال کرنے والی سفید فام قوم سے مقابلہ کے لئے اپنے برادران وطن کا انتظار کئے بغیر جنگ آزادی کے میدان میں تنہا کود گئے۔ ہم نے وطن کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی سفید فام قوم کو اپنی رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برداشت نہیں کیا۔ انگریزوں نے ہمارے اور برادران وطن کے درمیان پھوٹ ڈالنا شروع کیا اور اس نے Divide Rool کی پالیسی اپنائی۔ انگریزوں نے نفاق کے شعلوں کو بھڑکانے کے لئے یہ عملی اقدام کیا کہ پہلے مسلمانوں کو کچلا اور ہندوؤں کو آگے بڑھایا اور پھر ہندوؤں کی ہمت شکنی کی اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب میں ہمارا ملک فرنگیوں کے قبضہ و تسلط سے آزاد ہوگیا اور وطن کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ تقسیم کے درد ناک نتائج کو ہم نے دیکھا۔ جمعیۃ العلماء چیختی رہی کہ اس ملک کو تقسیم ہونے سے بچا لو لیکن تقسیم کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ عام آدمی انصاف کرنے نہیں بیٹھتا، نہ اس کی رسائی غیر مسخ شدہ تاریخ تک ہو پاتی ہے اور اس اجتماعی جھوٹ کی تہہ تک جو حقیقت کے برعکس مسلمانوں کے خلاف پھیلایا گیا کہ مسلمان پاکستان بنانے کے باوجود یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور حکومت ان کی منہ بھرائی کر رہی ہے۔ برادران وطن نے تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ منہ بھرائی کا نتیجہ پسماندگی، تنزلی، خستہ حالی اور افلاس نہیں ہوتا۔ ہندوستانی مسلمانوں پر جو الزام لگائے گئے ان کے ازالے یا صفائی کی ہم نے بھی کوئی وقیع کوشش نہیں کی۔ اس طرح دونوں قوموں کے درمیان تلخی بڑھتی چلی گئی حالانکہ اس ملک میں ہم اقلیت میں ضرور ہیں لیکن ہماری اتنی بڑی اقلیت ہے کہ اکثریت کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔ بقول حضرت علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کہ اس کو اقلیت کہنا بھی صحیح نہیں بلکہ اس کو ملت کہنا چاہئے اور ہم وہ ملت ہیں جو خدا کا واضح پیغام رکھتی ہے جو آخری آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت ہمارے پاس ہے۔ نوع انسانی کے لئے رحمت و ہدایت کا عظیم سرمایہ اسوۂ رسول، حیات صحابہ اور مثالی و معیاری انسانوں کے کردار و عمل کا عظیم ذخیرہ ریکارڈ موجود ہے۔ اس لئے ہمیں تو چاہئے تھا کہ اپنے بساط بھر اکثریت کی بدگمانی کو دور کرتے اس سے ان کی عداوت دور ہوتی۔ شاید ہم بھول گئے یا حالات نے ہمیں بھلا دیا کہ اس ملک میں ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ہم نے دعوت سے نہ مثال سے نہ حسن معاملات سے نہ خوبی سیرت سے برادران وطن کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ کیا تویہ کیا کہ ہم نے ہندوستان میں آکر اس مساوات کو بھول گئے جو ہمارا طرۂ امتیاز تھی، ہم نے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم کو ایک حد تک اپنا لیا جو ہندوستان میں ہزاروں سال سے رائج تھی، ہم نے ان کو وہ پیغام نہیں پہنچایا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچا، ہم نے اللہ کے کلمہ کو خود اپنے ذات ہی تک محفوظ و محدود رکھا، ہم نے یہ بھی نہیں کیا کہ ہم اہل وطن سے قریب ہوتے، ان کو جانتے، پہچانتے، ان کے ساتھ اچھے روابط و تعلقات قائم کرتے، انسانی بنیادوں پر ان کے کام آتے، ان کو ان کی زبان میں پریم و شانتی اور امن کا پیغام دیتے۔ انسانیت کی خدمت کرکے ان کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے۔ عوام کی بات تو چھوڑ دیں، ممبر آف پارلیامنٹ سطح کے لوگ بھی اسلام اسلامی عقیدہ، اسلامی اخلاق، اسلامی عبادات اور اسلامی معاملات سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ قرآن کو مذہبی کتاب کی طرح ایک کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اوتار اور مسجد کو مندر کی طرح پوجا کا ایک جگہ (استھل) اور نماز کو مندر میں کی جانے والی پوجا کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر پارلیامنٹ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قانون بنتا ہے، عدالتوں سے قرآن و حدیث کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو کیا اس میں ہمارا قصور نہیں ہے؟ سینکڑوں سال ہوگئے، ہمیں اس ملک میں رہتے ہوئے اور یہاں کے غیر مسلموں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے۔ ہم آج تک انہیں یہ نہیں بتا سکے کہ قرآن کیا ہے؟ حدیث کیا ہے؟ نماز کیا ہے؟ زکوٰۃ کیا ہے؟ روزہ کیا ہے؟ حج کیا ہے؟مسجد کیا ہے؟ اذان کیا ہے؟ نکاح کیا ہے؟ طلاق کیا ہے؟ وراثت کیا ہے، چار شادیوں کا مسئلہ کیا ہے، دفنانے میں حکمت کیا ہے؟ ختنہ کا فائدہ کیا ہے؟ پردہ کا مقصد کیا ہے؟ داڑھی کا معاملہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کے چوٹی کے لیڈران اسلام سے کتنے واقف ہیں؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مسلم مطلقہ عورت کے گزارہ کو لے کر ہندوستان میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ یہ تین طلاق چار نکاح اور متبنی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً یہ آواز خاص خاص موقعوں پر اٹھتی رہتی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس آواز کو دبایا ہے اور اب بھی دبا دیں گے۔ لیکن اصل مسئلہ ہماری اپنی ذات کا ہے۔ ہندوستان میں گزارہ بھتہ کو لے کر جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس وقت کے وزیر اعظم تھے مرحوم راجیو گاندھی۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رمضان کا مہینہ آگیا، اگلی ملاقات کے لئے جو دن طے ہوا وہ رمضان کا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اس وقت حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی علیہ الرحمہ تھے۔ انہوں نے راجیو گاندھی سے کہا کہ ہم لوگوں کو رمضان میں دہلی آنا مشکل ہے، کیوں کہ گرمی بہت سخت ہے، رمضان کے علاوہ کوئی اور دن بات چیت کے لئے رکھ لیا جائے۔ اس پر راجیو گاندھی نے جو جواب دیا اس سے اس سطح کے لیڈروں کی اسلام سے عدم واقفیت کا اندازہ ہم سب لگا سکتے ہیں اور یہ بات خوب اچھی طرح سوچ سکتے ہیں کہ ایسے ناواقف شخص کے فیصلے ہمارے مذہبی معاملات میں کیسے صحیح ہوسکتے ہیں۔ راجیو گاندھی جی نے کہا مولانا صاحب! آپ لوگ رمضان کے روزے جاڑے میں کیوں نہیں رکھ لیتے؟ مولانا نے کہا راجیو جی! یہ بات آپ پبلک میں نہ کہہ دیجئے گا، ورنہ شاہ بانو سے بھی بڑا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔
ایمان و اسلام کی ہدایت کرنا اللہ جل شانہ کا کام ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر اس کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہدایت کے نظام میں آپؐ کی حیثیت مرکزی اور بنیادی ہے۔ آپؐ انسانوں کے لئے ہدایت کا ماخذ ہیں، جس طرح اللہ کی اطاعت ایمان والوں پر فرض ہے اسی طرح آپؐ کی اطاعت بھی مستقل فرض ہے، جس طرح فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی کے لئے اللہ جل شانہ کی اطاعت ضرری ہے اسی طرح آپؐ کی اطاعت بھی ضروری ہے، جس طرح اللہ کی نافرمانی گمراہی اور بدبختی ہے، اسی طرح آپؐ کی نافرمانی بھی موجب ضلالت و شقاوت ہے۔ اللہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی راضی کرنا ضروری اور شرط ایمان ہے، لہٰذا کسی مذہب کے ماننے والے کو حضور اکرمؐ کی اتباع کے بغیر چارہ کار نہیں کیوں کہ بقول حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے ’’کہ مخلوق پر اللہ کی طرف پہنچنے کے کل راستے بند ہیں بجز اس راستہ کے جو نبی آخر الزماںؐ نے بنایا ہے۔‘‘ النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسہم کہ نبی زیادہ حقدار ہے مومنوں کا ان کی جانوں سے۔ اس آیت کے ضمن میں حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے لکھا ہے کہ نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی کا، اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی حکم کرے تو فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا اتباع اور انطباق ہر مسلمان کا نصب العین ہے، اس کے لئے ہر پہلو کو نظر میں رکھنا ضروری ہے اور ہر مرحلہ دعوت سے رہنمائی حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ ہمارے ملک میں ایک مذہبی طبقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کو اسوۂ کاملہ قرار دیتا ہے تو دوسرا مذہبی طبقہ مدنی زندگی کو اسوۂ کاملہ کے طور پر دیکھتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مکی اور مدنی دونوں زندگیاں اختیار کے لحاظ سے اپنی اپنی اہمیت رکھتی ہیں اور اجتماعی معاملات میں ہمارے لئے دلیل راہ کا کام دیتی ہیں۔ مگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی کے ایک اہم مرحلے کو نظر انداز کر جاتے ہیں وہ ہے ہجرت حبشہ جو کثیر قومی معاشرہ میں براہ راست ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا محترم حضرت جعفرؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ذکر اصحمہ نجاشی کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں توحید، سچائی، امانت داری، صلہ رحمی، پڑوسیوں سے اچھا سلوک، حرام کاموں سے پرہیز، خونریزی سے گریز، بدکاری سے پرہیز، جھوٹی بات سے پرہیز، مال یتیم سے پرہیز، عورتوں پر الزام تراشی سے گریز، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا اور روزہ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ مسلمان حبشہ میں 15 سال تک مقیم رہے۔ وہاں انہوں نے شادی بیاہ کی، ان کی اولادیں ہوئیں اور ایک پر امن شہری زندگی گزارتے رہے اور وہاں چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتے تھے اور محنت و مشقت سے روزی کماتے تھے، جس طرح حبشہ میں صحابہ کرام نے دین کی دعوت، حکمت، معقولیت اور مدلل طریقہ سے دی ہم بھی اپنے ہم وطن بھائیوں کو دین کی دعوت نہایت حکمت کے ساتھ دیں اور ہم اپنے موقف، مقصد حیات اور طرز زندگی سے انہیں واقف کرائیں تاکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں ان کے لئے تحفظ کے مسائل پیدا نہ کریں تاکہ وہ اسلام کو ایک حریف کے طور پر نہ سمجھنے لگ جائیں۔
مجھے یقین ہے کہ انسانی نسل کی اس بربادی پر اگر آنکھ میں آنسو آسکتے ہیں تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آسکتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے جس ہمدردی، خیر خواہی اور انسانیت کی دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود کی بات کہی ہے، وہ ساری کائنات انسانی کے لئے ہے، آپؐ نے کہا کہ میں نے دسترخوان بچھایا ہے، بلایا ہے سب کو، کوئی آیا اور کوئی نہیں آیا، نہیں آنے والوں کی فلاح کے لئے بھی ہمارے آقا پریشان ہیں، آج ہندوستان کی ہزاروں بیٹیاں تلک اور جہیز کی رسموں میں جلائی جارہی ہیں، یہ جلائی جانے والی بیٹیاں بھی اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہیں، جس طرح حضرت فاطمہ زہرہ حضورؐ کی بیٹی ہے، حضورؐ کا غم سب کے لئے ہے، حضورؐ کا دکھ سب کے لئے ہے۔
آج اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم نے خود ان مختلف فیہ اور مجتہد فیہ مسائل کو جو امت کے درمیان ہیں ان کو منصوص کا درجہ دے کر اس پر کفر اور ضلال و گمراہی کا فتویٰ دے کر امت کو جنگ و جدال میں مبتلا کر دیا ہے، ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ آخری پیغام یاد نہ رہا جو آپؐ نے حجۃ الوداع کے عظیم الشان اجتماع کے موقع پر دیا تھا۔ لوگو! بیشک تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزت، و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہے جس طرح یہ دن اور یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہے، جاہلیت کے تمام دستور اور رسم و رواج میرے قدموں کے نیچے پامال ہے۔ آج جاہلیت کی آپس کی نہ ختم ہونے والی تمام لڑائیوں کے سلسلہ کو ختم کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ الگ الگ مسلکوں اور قوموں کے معاشی اور سیاسی مفادات کے پیچھے دوڑنے کو عصبیت اور جہالت قرار دیا۔ آپؐ نے کبھی نہیں لفظ قوم کا موجودہ زمانے کی علاقائی لسانی نسلی اور دیگر تعصباتی معنوں میں استعمال کیا اور نہ ہی آپؐ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی عصبیت کی بنیاد پر اپنی امت کو بٹتے ہوئے برداشت کیا۔ آپ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں، جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں، لیکن نبی کی وہی امت خود برادریوں میں بٹ گئی۔ مسلکوں کی بنیاد پر تفرقہ کا شکار ہوگئی۔ دنیا کو جوڑنے والے، دنیا کو اخوت کا درس دینے والے خود باہم دست و گریباں ہوگئے۔ مسجدیں الگ، قبرستان الگ، بات بات پر ایک دوسرے کو کافر، فاسق، ضال و مضل قرار دینے لگے، حالانکہ ہمارا معبود ایک، رسول ایک، قرآن ایک، رسول کی سنت سب کو تسلیم، قبلہ ایک، پھر انتشار کیوں؟ کیا ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ تھا، نہیں ہرگز نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے بارہا خود اپنی قوت اپنے خلاف استعمال کی اور اس کے نتیجے میں ہمیں بار ہا ذلت و نکبت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے اسلاف کا تو یہ حال تھا کہ جب حضرت کعب بن مالکؓ کے بائیکاٹ کے زمانے میں غسان کا بادشاہ ان کے نام خط بھیجا تو انہوں نے اس خط کو تندور کے حوالے کر دیا، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر جب ایک عیسائی نے حضرت علیؓ کے مقابلے میں حضرت معاویہؓ کی حمایت میں فوج کشی کرنا چاہی تو حضرت معاویہؓ نے کہا او عیسائی کتے! اگر تو نے ہمارے برادرانہ اختلافات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو علی کی فوج میں شامل ہوکر تیری پیشانی پر ذلت کا داغ لگانے والا پہلا فرد معاویہ ابن ابی سفیان ہوگا۔ غزوہ حنین کے بعد مال غنیمت کے سلسلے میں بعض انصاری نوجوانوں نے حضور اکرم ؐ کے سلسلے میں جانب داری کی بات کی، آپؐ کا اس وقت کا خطاب ، ہر صاحب دل کو رلا دینے کے لئے کافی ہے۔
اس لئے میں نہایت درد مندی کے ساتھ سیرت کے اس اہم کڑی کی جانب آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہم سب ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کریں کیونکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نے لوگوں کے دلوں کو جوڑا ہے توڑا نہیں ہے۔
سلام اے آتشیں زنجیر باطل توڑنے والے
سلام اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی حیات اجتماعی کا مرکزی لفظ صرف ذات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جتنا اس سے قرب ہوگا، اتنی ہی اجتماعی زندگی میں توانائی اور انفرادی زندگی میں سربلندی حاصل ہوگی۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم ترے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں مسلمانوں کی حیات اجتماعی کا راز پوشیدہ ہے، اسی لئے ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کو حکم دیا تھا ؎
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
مسلمان بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پورے طور پر قرآنی زندگی ہے، آپؐ جس کتاب کی تعلیم دیتے ہیں خود اس کی جیتی جاگتی تصویر ہیں، گویا قرآن متن ہے تو سیرت اس کی تشریح، قرآن علم ہے تو سیرت رسول اس کا عمل، حضرت عائشہؓ سے ایک بار سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟ تو آپؓ نے فرمایا کیا تم نے قرآن پاک نہیں پڑھا جو چیز وہاں حروف میں ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عمل میں تھی، جب اس چشمۂ نور سے اکتساب فیض میں کمی واقع ہوگی بہار زندگی خزاں ہوجائے گی علامہ اقبال ؒ نے اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا ؎
ایک سبق میں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ صرف اسلام تھا، جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا نہ کہ مسلمان، اور اس حیات ملی کا راز سیرت و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل اتباع تھا، جب ممالک اسلامیہ پر زوال و انحطاط کی گھٹائیں چھائیں، ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا راز بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب بھی یہاں ملی زندگی پر افسردگی کی کیفیت طاری ہوئی ہے، دیار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق نے زندگی میں نئی توانائی بخش دی ہے۔
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے نکہت بیز پھولوں کے چمن میں جو پھول سب سے زیادہ دلربا ہیں وہ ہیں آپؐ کے مکارم اخلاق، خدت خلق، عفو در گزر، تواضع و انکساری، قناعت و توکل، عدل و انصاف، صدق و امانت، شفقت و رافت، الفت و محبت، ہمدردی و مروت، عفت و پاکدامنی، حق گوئی و حق پسندی، جود و کرم، صبر و حلم، زہد و شکر، صنف نازک کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے دشمنوں کے ساتھ عمدہ برتاؤ، نیکی و نیکو کاری، ایثار و کرم گستری اس لئے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنے خول سے باہر نکل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ صفات کو اپنا شیوہ بنانا ہوگا۔ مسلمانوں کو اس ملک میں سیرت طیبہ کے مطابق اپنی تصویر بنانی ہوگی اور اپنی اعلیٰ کوالیٹی کی تعلیم اور صلاحیتوں کا سکہ جمانا ہوگا۔ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ اعلیٰ ترین اخلاق کا نمونہ پیش کرنا ہوگا، ساتھ ہی اپنی حب الوطنی کا نقش قائم کرنا ہوگا، دہشت گرد فسادیوں کا مقابلہ پوری قوت ہمت اور شوق شہادت کی اسپرٹ سے کرنا ہوگا، ساتھ ہی سیرت رسول ؐ کی روشنی میں آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کواشتعال انگیزی سے احتراز کرنا ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر سجدہ کی حالت میں اوجھڑی ڈالی گئی لیکن آپؐ مشتعل نہیں ہوئے۔ ہمارے ملک میں آج رفاہی کاموں کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اس لئے ہمیں ملک کے بیماروں اور غریبوں کی دستگیری، یتیموں اور بیواؤں کی پشت پناہی اور رفاہی کاموں کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ سے سبق لینا ہوگا۔ آپٔ نے ارشاد فرمایا: اچھا آدمی وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، ایک جگہ ارشاد فرمایا: مخلوق خدا کا کنبہ ہے، خدا کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ ایک حدیث میںآپؐ نے یہ تعلیم دی ہے کہ جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں، رحمن ان پر رحم کرتا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ معاف کرو تم کو معاف کیا جائے گا۔ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ بطور ریکارڈ موجود ہے کہ آپؐ نے دشمنی کا جواب دوستی سے، نفرت کا محبت سے، بداخلاقی کا حسن اخلاق سے، جھوٹ کا سچ سے، حق تلفی کا حق کی ادائیگی سے، کڑوے بول کا میٹھے بول سے دیا۔آپؐ تو دشمنوں کے لئے بھی تڑپتے تھے، انتقام کے لئے نہیں ہدایت کے لئے، زیر کرنے کے لئے نہیں قریب کرنے کے لئے، توڑنے کے لئے نہیں جوڑنے کے لئے۔ کیا وہ نبی دہشت کی تعلیم دے سکتا ہے جو بدلہ لینے سے زیادہ معاف کرنے پر یقین کرتا ہو جس کی پوری زندگی صل من قطعک واعف عمن ظلمک و احسن من اساء الیک کی عملی و قولی تفسیر تھی، آپؐ فرماتے کہ میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت کے باوجود معاف کردوں، جو مجھ سے تعلق توڑے میں اس کے ساتھ تعلق جوڑوں جو مجھے محروم رکھے اس کو میں عطا کروں، غضب اور خوشنودی دونوں حالتوں میں حق بات کہوں۔ تنگ دستی و فراخی میں میانہ روی اختیار کروں، خلوت و جلوت (ہر حالت) میں اللہ سے ڈروں۔ (مشکوٰۃ) خاص طور پر اپنے تو اپنے پرائے کے ساتھ رحیمانہ و مشفقانہ طریقے سے پیش آنا آپ کا شیوہ تھا۔ غیروں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آنے کے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات ہیں۔ غزوہ بدر کے قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو نامی تھا جو عام مجمعوں میں آپؐ کے خلاف اشتعال انگیزی اور گستاخانہ تقریریں کیا کرتا تھا اور آپ کی ہجو میں اشعار کہا کرتا تھا، جب حضرت عمرؓ کی نظر ایک موقع پر پڑی تو کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل ابن عمرو ہے جو آپؐ کی شان مبارک میں گستاخانہ کلام کرتا ہے، آپؐ اس کے نیچے کے دو دانت اکھڑوا دیجئے تاکہ یہ بیان و تقریر کے قابل ہی نہ رہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا، عمر میں لوگوں کے چہروں کو بگاڑنے کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ میں نبی ہوں لیکن اگر میں کسی کا عضو بیکار کر دوں گا تو اس کے عوض قیامت کے دن اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا۔ (الرحیق المختوم) خیبر کی ایک یہودیہ عورت نے آپ کی دعوت کی اور آپ کو زہر آلود بکری کا گوشت کھلا دیا جیسے ہی آپ نے نوالہ اپنے منہ میں لیا گوشت نے یہ گواہی دی کہ مجھ میں زہر ملایا گیا ہے، بعد کو اس عورت نے اپنے جرم کا اقرار بھی کر لیا چنانچہ وہ خدمت اقدس میں پیش کی گئی، آپ سے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ آپ اس یہودیہ کو قتل فرما دیجئے، آپ نے فرمایا نہیں، پھر اس عورت کو انتقام لئے بغیر معاف فرما دیا۔ (بخاری) ایک دفعہ ایک کافر آپ کا مہمان ہوا، رات کو اس نے آپ کے بستر پر ہی آرام کیا، حتیٰ کہ آپؐ کے بستر پر رفع حاجت بھی کر دیا اور صبح آپ کو بتائے بغیر ہی نکل گیا مگر جانے کے بعد اس کو یاد آیا کہ میں نے تو جلد بازی میں اپنی تلوار وہیں پر بھول آیا ہوں جب یہ شخص اپنی تلوار لینے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اپنے دست مبارک سے بستر دھو رہے ہیں اور صحابہ عرض کر رہے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دھودیتا ہوں مگر آپ فرماتے ہیں کہ وہ میرا مہمان تھا، مجھے ہی یہ کام کرنے دو۔ اس کافر نے آپؐ کے اس عمل کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوا کہ فوراً اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو بھی اپنی ذات سے ادنیٰ سی بھی تکلیف نہیں پہنچائی، انسان تو انسان آپؐ نے کبھی کسی جانور کو بھی تکلیف نہیں پہنچائی بلکہ ہمیشہ لوگوں کو ان کے ساتھ رحمت و شفقت کی تعلیم فرماتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے دنیا و جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتقام لینے سے زیادہ عفو و درگزر، مہربانی و نرمی محبوب تھی۔ ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض دیا پھر اس کے بعد وقت مقررہ سے پہلے قرضے کا تقاضہ کرنے لگا، آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے، مگر اس یہودی نے کہا مگر میں بغیر وصول کئے یہاں سے ٹلوں گا نہیں، آپ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ بیٹھتا ہوں پھر آپ ظہر سے لے کر فجر تک اس کے ساتھ بیٹھے رہے، جب صحابہ کرام نے اس کی گستاخی پر ناراضگی کا اظہار فرمایا تو آپ انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت نے مجھے کسی ذمی یا کسی اور شخص پر ظلم کرنے سے منع فرمایاہے۔ پھر آپؐ نے اس یہودی کو مطلوبہ رقم دینے کے ساتھ ساتھ بیس صاع کھجور مزید عنایت فرمایا۔ چنانچہ اس یہودی نے آپؐ کا یہ سلوک و احسان، عفو و درگزر، عدل و انصاف کا معاملہ دیکھ کر اسی وقت مسلمان ہوگیا اور اپنا آدھا مال اللہ کے لئے وقف کر دیا۔ (مشکوٰۃ) آج دشمنان اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کا علمبردار باور کرانے کے لئے مسلم ممالک پر جنگیں تھوپ رہے ہیں تاکہ اپنے حکمراں کی ظلم و بربریت کو چھپایا جائے، ان کے حکمراں نے اپنی شہرت و انتقام کے لئے ظلم و بربریت، کشت و خون کا وہ ننگا ناچ ناچا ہے کہ جس سے حیوانیت بھی شرمندہ ہے۔ اس کے برخلاف رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ کو فتح کرنے کے بعد عفو و درگزر رحمت و شفقت کی وہ انوکھی مثال قائم فرمائی ہے جو قیامت تک آنے والے انسانیت کے لئے اسوہ و نمونہ ہے۔ آپ جب مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے ہیں تو اس وقت آپ کا سر عبدیت و تواضع کی وجہ سے اونٹنی کے کجاوہ سے لگ رہا تھا اور حضرت اسامہ ابن زید آپ کی سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ایک شخص آپ سے گفتگو کرنا چاہی تو رعب نبوت کی وجہ سے کانپ اٹھا، آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا ڈرو نہیں اطمیان رکھو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں میں تو قریش کی ایک ایسی عورت کا لڑکا ہوں جو گوشت کے سوکھے ٹکڑے کھایا کرتی تھی۔ (بخاری) جب صحابہ مکہ معظمہ کی طرف نہایت وقار و سنجیدگی کے ساتھ بڑھ رہے تھے کہ دوران راہ ایک صحابی کی نظر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ابن حرب پر پڑی، اس وقت تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تو اس وقت ان کی زبان سے جوش میں یہ جملہ نکل گیا۔ آج گھمسان کا دن ہے اور خونریزی کا دن ہے، آج کعبہ میں سب جائز ہوگا، آج اللہ نے قریش کو ذلیل کیا ہے۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو ارشاد فرمایا نہیں نہیں، آج تو رحم اور معافی کا دن ہے، آج اللہ قریش کو عزت عطا فرمائے گا اور کعبہ کی عظمت کو بڑھائے گا اور ان صحابی سے جھنڈا لے کر دوسرے صحابی کو دے دیا اور مکہ میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اعلان فرما دیا کہ جو شخص مقابلے سے ہاتھ روک لے اس کو امان ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے جو ابوسفیان اور حکیم ابن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اس کو امان ہے، حالانکہ جس وقت آپؐ نے شہر مکہ کو اپنے قبضہ میں لیا تھا اس وقت وہاں بڑے بڑے دشمنان اسلام موجود تھے، وہاں وہ بھی تھے جو آپ کے جسم اطہر پر پتھر برسائے تھے، وہ بھی تھے جو آپ کی ہجو میں اشعار کہے تھے، بس آپ کے ایک اشارے بھر کی دیر تھی، ان سب کی گردنیں تن سے جدا ہوسکتی تھیں۔ مگر قربان جائیے آپ کی رحیم و شفیق ذات پر کہ آپ نے ارشاد فرمایا میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا جاؤ تم سب کے سب چھوڑ دیئے گئے۔
دانائے سبل، مولائے کل، ختم الرسل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طٰہٰ ﷺ ۔
Comments are closed.