دجالی فتنوں کا آغاز اور ہماری غفلت!

 

 

شریف آحمد شریف

ایڈیٹر ایس انڈیا

 

اس وقت پوری دنیا کے جو حالات ہیں اس سے ہم اور آپ بخوبی واقف ہیں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں جو ہنگامہ برپا ہے وہ سمجھ سے پرے ہے لیکن مسلمانوں کے لیے ان حالات کو سمجھنے کے لئے آسانیاں موجود ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر بات سے آگاہ کیا ہے اور ہر آنے والی آفات سے بچنے کے راستے بتائے ہیں اس کے علاوہ اللہ کی کتاب قرآن مجید ہمارے پاس ہے جس میں اللہ نے براہ راست اپنے بندوں کی رہبری فرمائی ہے اس وقت ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک اور دنیا میں جو کچھ بھی تبدیلیاں ہم دیکھ رہے ہیں، ظالم حکمرانوں کی آخر اس کے پیچھے کیا منصوبہ بندی ہے ؟

اگر اس وقت صرف ہندوستان ہی کی بات کی جائے تو ہم دیکھ رہے ہیں کے کس تیز رفتاری کے ساتھ موجودہ حکومت اپنے ایجنڈے کی طرف گامزن ہے، کس طرح جبرا دیش بھر میں یہ اپنی حکومت قائم کرنے میں مگن ہے اور کس طرح ملک کی دیگر پارٹیوں کو ختم کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی بھی ان کے منصوبے میں رکاوٹ نہ بنے ۔

ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ایک مدت سے مسلمانوں نے جسے اپنی پارٹی جان کر اس کی حمایت کی وہ کانگریس بھی اب کھوکھلی ہوچکی ہے بلاشبہ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کانگریز کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ کانگریز نے خود موجودہ حکومت کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دئے ہیں اور اب کانگریز صرف اپنے وجود کے قائم ہونے کا تماشہ کر رہی ہے۔ جبکہ وہ موجودہ مرکزی حکومت کے ہر ایجنڈے میں ساتھ دے رہی ہے ۔ یہاں پر ہمیں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ بی جے پی کا آخر ایجنڈا کیا ہے ؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں بی جے پی ہندوتوا ایجنڈے کو لے کر حکومت میں آئی اور دیش کو ہندو راشٹر بنانے کے مقصد کو سامنے رکھ کر وہ اب پورے دیش میں سرگرم ہے جبکہ یہ محض ایک ظاہری ایجنڈا ہے،

بی جے پی ایک کٹپتلی ہے ۔ پارٹی کے وزرا کی ڈور آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے آر ایس ایس پارٹی کو سامنے رکھ کر اپنے مقصد کو پورا کرنا چاہتی ہے لیکن آر ایس ایس کس کے اشارے پر کام کر رہی ہے یہ بات بھی قابل غور ہے دراصل آر ایس ایس اسرائیل کے اشاروں اور منصوبوں کے تحت کام کرتا آرہا ہے …

اور اس بات کا علم آر ایس ایس کے کچھ مخصوص ذمہ داران کو ہی ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسرائیل آر ایس ایس کی پشت پناہی کیوں کر رہا ہے ؟

یہ ایک اہم سوال ہے ؟

اس کی وجہ یہ ہے اسرائیل پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش میں ہے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے دیش میں اسرائیل نے اپنا جال بچھا رکھا ہے جس میں ہندوستان بھی ایک ہے ۔

ہندوستان جغرافیائی اور آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے اسے قابو میں رکھنے کے لئے اسرائیل آر ایس ایس نامی سنگھٹنا کا سہارا لے رہا ہے بلکہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ آر ایس ایس کی بنیاد ہی اسرائیل کے کہے جانے پر رکھی گئی تھی اس سنگھٹنا کو اسرائیل کی جانب سے مالی تعاون بھی حاصل ہے اس کے علاوہ ہر بات کی ٹریننگ بھی اسرائیلی ہی سے انہیں دی جاتی ہے۔ مودی جیسے ایک عام شخص کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے دراصل یہ اسرائیل کی پلاننگ اور شاطر دماغ کا نتیجہ ہے۔

این آر سی، زراعی قوانین ، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ، بڑھتی مہنگائی یہ سب کچھ ایک پلان کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ہی زندگی کا مقصد بنالے حکومت اور حاکموں کی طرف اس کا خیال بھی نہ جائے۔

کرونا وبا بھی دراصل اسی کا حصہ ہے وبا کے نام پر اچانک لاک ڈان کر لوگوں پر خوف طاری کرنا ان کا مقصد ہے اس کی آڑ میں تعلیمی نظام کو بھی ختم کرنا ہے جو اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اسکولوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ، اب اسی سے جڑا ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر ان سب کے پیچھے اہم مقصد کیا ہے ؟

اسرائیل کا مقصد عین یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہودیوں کا غلبہ ہو اور مسلمانوں کا خاتمہ ہو ، دراصل یہودی اس وقت دجال کی آمد کے منتظر ہیں اور دجال کے ظہور سے پہلے وہ دنیا بھر میں دجالی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں موجود تین بڑے آسمانی مذاہب "اسلام، یہودیت، عیسائیت ” کہ ماننے والے ایک ہستی کا انتظار کر رہے ہیں ۔ جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگی۔

اہل اسلام حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے آسمان سے نزول کے منتظر ہیں مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ نازل ہو کر دجال کو قتل کریں گے ۔

عیسائی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے منتظر ہیں فرق یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب ہونے کے تین دن بعد آسمان پر لے جائے گئے پھر آخری زمانے میں وہ نازل ہو کر غیرعیسائیوں کا خاتمہ کریں گے۔ یہودی جس شخص کا انتظار کر رہے ہیں وہ ان کے عقائد کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد سے ” القائم المنتظر ” ہے اور یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اُس کی بدولت تمام دنیا پر حکومت کریں گے مسیا یعنی دجال کی آمد پر عالمی یہودی ریاست قائم ہو جائے گی ، کل ملا کر ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہم اس وقت دجالی فتنوں سے گھرے ہوئے ہیں رفتہ رفتہ ہم دجال کے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں دجال مادی قوتوں پر دسترس رکھتا ہوگا اور سائنس مادہ میں پوشیدہ قوتوں کو جاننے اور عمل میں لانے کا دوسرا نام ہے لہذا یہودی سرمایہ داروں کے پیسے اور یہودی سائنسدانوں کی محنت سے سائنسی ایجاد جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے دجال کی قوتوں اور فتنوں کو سمجھنا ایک حد تک آسان ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کرنسی نوٹ کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ہمارے ملک میں بھی کیش لیس کرنسی سسٹم عام ہوتا جا رہا ہے فون پے اور پے ٹی ایم جیسے نظام کو رائج کیا جا رہا ہے اور لوگ اسے جدیدیت کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں آنے والے دنوں میں تمام لین دین صرف کریڈٹ کارڈ یا موبائل کے ذریعے ہوگا ممکن ہے اسے مائکرو پلانٹیشن کے ذریعے کیا جائے گا اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت کارروائی بھی ہو سکتی ہے، پرانے سکوں یا موجودہ کرنسیوں سے تجارت کو غیر معمولی جرم قرار دیا جائے گا، آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ مصنوعی غذائیں ، قدرتی غذاؤں کی جگہ لے رہی ہیں ائس کریم ، بسکٹ, چاکلیٹ ، مکھن چٹنی ، اچار، جام و مربہ، کولڈ ڈرنگ کے علاوہ لسی ،دودھ ، شہد غرص ہر قسم کے کھانے بھی ٹن پیک میں آنا شروع ہوگئے ہیں تمام انحصار یہودی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر دیکھا جا رہا ہے جانور مصنوعی نسل کشی کے ذریعہ پیدا کیے جا رہے ہیں فصلیں مصنوی بیجوں اور کھادوں کے ذریعہ اگائی جارہی ہیں آج کل منرل واٹر کا فیشن عام ہے لوگ منرل واٹر کے استعمال کو اسٹیٹس سمجھ رہے ہیں جب کہ یہ دجالی قوتوں کی سیاست کا مظہر ہے قدرتی صاف شفاف جھیلوں ، دریاؤں، اور چشموں کا معدنیات اور جڑی بوٹیوں کی تاثیر والا پانی تو اب غریبوں تک محدود ہو گیا ہے پانی اور غذا کو مصنوعی بنانے کی مہم اس لیے جاری ہے کہ مصنوی چیز صانع کے ہاتھوں میں ہوتی ہے وہ جس کو چاہے بیچے نہ بیچے، دے نہ دے ، عنقریب قدرتی دیسی غذاؤں کی فروخت پر پابندیاں عائد کی جائیگی ۔

یہ دجالی نظام کی تیاری ہے دجال پانی اور غذا اپنے کنٹرول میں رکھے گا جو اس کے شیطانی مطالبات نہیں مانے گا وہ اُسے روٹی یا پانی ہرگز نہیں دے گا عجیب بات تو یہ ہے کہ قدرتی پانی کو مضر اور منرل واٹر کو صحت کے لئے مفید بتایا جارہا ہے اور لوگ اُسے مان بھی رہے ہیں۔ منرل واٹر کے نام پر اربوں ڈالر کمانے کے ساتھ ساتھ ہماری نسلوں کو کمزور بھی کیا جارہا ہے ورلڈ بینک کی پشت پناہی میں بین الاقوامی سطح پر غذا اور پانی فراہم کرنے والی مٹھی بھر کمپنیوں نے انسانی ہمدردی کے نام پر پانی کو اشیائے صرف میں شامل کر کے منافع خوری شروع کر دی ہے ایک اور اہم بات بتاتا چلوں ٹیلی ویژن فلم اداکار سلمان خان کا شو بگ باس بہت مشہور ہوا اس شو کہ دیوانے گھر گھر میں موجود ہیں، شو کیا ہے اور اس میں کیا کیا ہوتا ہے یہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات ضرور بتانا ہے کہ اس شو کو پیش کرنے کے پیچھے بھی دجال کو پرموٹ کرنا ہی ہے اس شو کے انٹرو میں جو سمبول دکھایا گیا ہے اس میں ایک آنکھ موجود ہے اور اسلام کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دجال کانا ہوگا یعنی اس کی ایک آنکھ ہوگی واضح رہے کہ اسی طرح کی بہت ساری ٹیلی فلمس اور آیڈس کے ذریعے دجال کو پروموٹ کر عوام کی ذہن سازی کی جارہی ہے اس وقت اگر ہم دجال اور اس کے فتنے پر بات کرنے بیٹھ جائیں تو اس کے لئے وقت درکار ہے فی الحال ہم نے کچھ اہم پہلوؤں کی جانب آپ کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے مزید دجال اور دجالی فتنوں اور موجودہ حالات کو جاننے کے لیے بہتر ہے کہ علماء کرام سے رابطہ کیا جائے، قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان فتنوں سے بچنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی سورتیں بھی سامنے آئیں گے ویسے تو علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے امت کو ان سے بچنے کے راستے اور طریقے بتاتے لیکن افسوس کہ وہ اس موضوع پر کچھ بولنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ایسے میں یہود اور دجالی سازشوں میں پھنس کر ان کی پیروی کرنے یا غلام بننے سے بہتر ہے کہ مرنے سے پہلے مرنے کا اختیار خود کیوں نہ استعمال کرلیں یعنی پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ شریعت پر استقامت، غیرشرعی اور حرام چیزوں سے کلی اجتناب ۔۔۔۔

ویسے ہم اسلاف کے کارناموں کو بارہا سنتے ہیں کہ ایسی کئی آزمائشوں کے باوجود انہوں نے اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا ظاہری اور وقتی طاقتوں کا کھُل کر مقابلہ کیا ہے، ہزار ظلم سہہ کر بھی ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ہم ایسے واقعات کو محض سن کر بھول جاتے ہیں اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور ان کے نقش قدم پر چلنا گوارا نہیں کرتے۔ اطغرل غازی جیسے ڈرامے کو بھی ہم نے صرف وقت گزاری کے لیے دیکھا لیکن اس ایمانی جذبے کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش یا فکر نہیں کی ہم حکومت کی سازشوں میں بڑی آسانی سے پھنس جاتے ہیں اس وقت مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانسنا دشمنوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ ذرا سی رحم دلی کا اگر کوئی مظاہرہ کرتا ہے تو ہم اس کے سو خون معاف کر دیتے ہیں ان کی پچھلی ساری غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں حال ہی میں لاک ڈاؤن کے بعد حکومت کی جانب سے اماموں و مؤذن کے لئے کووڈ ریلیف فنڈ کے نام پر تین ہزار روپے دینے کا اعلان ہوا تو وقف بورڈ کے آگے اماموں کو قطار لگائے بھی دیکھا گیا ۔

فارم بھرنے کی جلدی بازی کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جس قوم نے بلا تفریق مذہب و ملت غریبوں کو لاکھوں روپے کا راشن تقسیم کیا ہو، جس قوم کے اداروں کی جانب سے کووڈ سینٹرس کا قیام کر کے جان بچانے کا کام کیا ہو، جس قوم نے اپنے پیسوں سے آکسیجن کا انتظام کیا ہو، اس قوم کے امام تین یا چار ہزار روپیہ کے لیے حکومت کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں یہ سراسر توہین ہے جبکہ اماموں کا خیال رکھتے ہوئے کئی اداروں اور این جی او کی جانب سے اماموں کی مدد کی گئی ہے باوجود حکومت کے چند سکوں کو تسلیم کرنا گویا امام کے وقار کی بے ادبی ہے، کروڑوں روپے خرچ کرکے اے سی کی مسجدین تعمیر کرنے والی قوم کے امام کیوں کسی کے محتاج رہیں ؟

اماموں کی سرکاری تنخواہ بھی ایک سازش ہے اس بات کو بخوبی سمجھنا ہوگا اور اس کے نتائج بہت جلد سامنے آجائیں گے ۔۔۔۔۔

اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے آمین

Comments are closed.