15 اگست: یوم_آزادی

 

 

✍️ عاطف شبلی

 

ہم اپنے أبرز زعماء و علماء کو یاد تو کرتے ہیں، جنہوں نے اپنے خون سے اس چمن کی آبیاری کی، جنہوں نے ہندوستان کو فرنگیوں سے آزاد کرایا، جنہوں نے مالٹا کی جیل میں قید ہوکر بھی ہندوستان سے والہانہ و سرفروشان حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا، آزادی ہند کی خاطر سولی کو بوسہ دیا، سینوں پر گولیاں کھائیں، چاندی چوک سے خیبر تک درختوں کھمبوں پر لٹکائے گئے۔۔۔۔ تاکہ آنے والی نسلیں آزادانہ زندگی گزار سکے، تاکہ سامراجیوں کی غلامی سے اس کے ایک ایک گل و بلبل کو آزادی حاصل ہوسکے۔۔۔۔ تاکہ اس سرزمین کو تنگ نظر انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے۔

آخر کار خون کے ان قطروں سے اس چمن کی ایسی آبیاری ہوئی کہ 15 اگست 1947 کو وہ صبح درخشاں نمودار ہوئی جسکے انتظار میں پیر کہن، کنگ و جمن، سال دہر نے صدیاں صرف کردی تھیں، سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں مدتوں سے چشم براہ تھے، چرخ کہن اسی مدتہائے دراز سے اسی صبح جاں نواز کے لیے لیل و نہار کروٹیں بدل رہا تھا۔

 

لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہوگئے ہیں؟

Comments are closed.