مولانا محمد قمر عالم ندوی کی مرتبہ کتاب "ضیائے ولی” :ایک مطالعہ

انوار الحسن وسطوی
9430649112
امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی کی حیات و خدمات پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ضیائے ولی مدرسہ احمدیہ ابابکر پور کے جواں سال استاذ مولانا محمد قمر عالم ندوی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے ۔مولانا ندوی نے اپنی انتھک محنت سے جس قلیل مدت میں 317 صفحات پر مشتمل یہ کتاب منظر عام پر لانے کی سعی کی ہے اس کے لیے وہ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔موصوف ذی استعداد اور باصلاحیت عالم دین ہیں۔وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فارغ التحصیل ہیں۔ابھی گزشتہ دنوں مولانا سید مظاہر عالم قمر شمسی سابق پرنسپل مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی کے خطبات کا مجموعہ "خطبات مظاہر” کے نام سے شائع کیا ہے جس کی پذیرائی ہوئی ہے۔مولانا محمد قمر عالم ندوی نہ صرف ضلع ویشالی بلکہ بہار کی سرزمین کے لیے امید کی ایک کرن ہیں۔ مثبت فکر کے حامل مولانا موصوف ایک سلجھے ہوئے انسان اور ایک ذی فہم عالم دین ہیں۔مولانا موصوف کا تعلق اس خانوادے سے ہے جس کا تعلق امارت شرعیہ سے بہت دیرینہ بھی ہے اور مخلصانہ بھی۔موصوف کے والد گرامی حضرت الحاج مولانا عبدالقیوم شمسی برنسپل مدرسہ اسلامیہ اماموری پاتے پور ویشالی امارت شرعیہ کے دیرینہ اور مخلص خیر خواہ ہیں۔ وہ اپنے علاقہ میں امارت کے ترجمان ہیں۔ماشاءاللہ دونوں باپ بیٹے یعنی حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب اور مولانا محمد قمر عالم ندوی،حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کے حلقہ ارادت میں بھی شامل ہیں یعنی دونوں حضرات کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے مرید ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی امارت شرعیہ کے امیر شریعت ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ،خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشین،جامعہ رحمانی کے سرپرست ،رحمانی فاؤنڈیشن،رحمانی تھرٹی کے بانی اور عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین ومشہور اسلامی مفکر تھے۔ان کی پوری زندگی قوم و ملت کی سربلندی کے لئے وقت تھی ۔ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی ،ان کی زندگی کا ہر دن ملت کی فلاح و بہبود کی فکر میں گزرتا تھا،ان کی زندگی کا مقصد قوم کی سربلندی ،ترقی اور فلاح تھی ۔اللہ رب العزت نے انہیں غیر معمولی ذہانت عطا کی تھی،حق گوئی اور بے باکی ان کی زندگی کا لازمی جزوتھا،وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہنے والے انسان تھے۔یہی سبب ہے کہ انہوں نے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کبھی ملت کو سرنگوں نہیں ہونے دیا۔وہ اپنے دبلے پتلے جسم میں چیتے کا جگر رکھتے تھے اور باطل کے آگے ہمیشہ سینہ سپر رہتے تھے۔ان کی ذات پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے:
ہو حلقئہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
” ضیائے ولی” مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کی مندرجہ بالا خصوصیات کو اجاگر کرنے والی ایک ایسی کتاب ہے کہ یہ جب قارئین کے ہاتھوں میں پہنچے گی تو قارئین کتاب خود اس بات کی گواہی دیں گے کہ کیا در نایاب ان کے ہاتھ لگا ہے ۔وہ اس کتاب کو سنجوگ گر اپنی الماریوں کی زینت بنائیں گے اور مولانا محمد قمر عالم ندوی کو اپنی ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازیں گے۔
” ضیائے ولی” چار ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول میں” تاثرات و دعائیہ کلمات” ہیں۔باب دوم "حیات و خدمات” کے عنوان سے معنون ہے۔باب سوم” مشاہدات و تاثرات "پر مبنی ہے ۔اور باب چہارم” منظوم خراج عقیدت” کے لئے مختص ہے ۔کتاب کا آغاز مرتب کتاب مولانا محمد قمر عالم ندوی کی تحریر "حرف آغاز "سے ہوا ہے اور مقدمہ” کی تحریر بھی موصوف کی ہی رقم کردہ ہے مولانا محمد قمر عالم ندوی حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لیے مونگیر تشریف لے گئے تھے،وہاں سے واپسی پر ان کے دل میں کیا باتیں آئیں، یہ ان کے ہی الفاظ میں ملاحظہ ہوں:
"واپسی کے بعد میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ کیوں نہ اپنی بساط کے مطابق ضلع ویشالی کے علماء، ادباء،شعراء اور دانشوروں سے تحریریں لکھوا کر مرتب کردوں اور ویسے حضرات جن کے اندر صلاحیتیں موجود ہیں،لیکن وہ سامنے نہیں آپارہی ہیں ،کی تحریروں کو بھی جگہ دوں تاکہ انہیں اورحو صلہ اور ہمت ملے اور آئندہ بھی ان کے قلم کی جولانی سے لوگ مستفید ہوں” ۔(ص۔ ۸)
مولانا محمد قمر عالم ندوی کا” مقدمہ” کافی طویل ہے جس میں موصوف نے صاحب تذکرہ مولانا محمد ولی رحمانی کی حیات و خدمات کو مختصر طور پر یکجا کیا ہے ۔پھر بھی یہ مقدمہ 28 صفات پر مشتمل ہے،جس میں وہ حضرت مولانا کے سلسلہ نسب ،خاندانی پس منظر پیدائش اور تعلیم ہفتہ وار نقیب کی ادارت ،درس و تدریس قانون ساز کونسل کی رکنیت ،خانقاہ رحمانی اور اس میں پڑھی جانے والی درود شریف و ورد وظائف ،ان کے خلفاء کے اسم گرامی ،مریدین کے لیے ضروری ہدایتیں، جامعہ رحمانی کی سرپرستی ،رحمانی فاؤنڈیشن ،رحمانی تھرٹی ،بحیثیت امیر شریعت ،انداز خطابت ،انداڑتحریر ،زبان دانی ،صحافت نگاری ،اردو کارواں کی تشکیل اور انتقال پر ملال کے تعلق سے ان کی پوری زندگی کا نقشہ مختصرا پیش کر دیا گیا ہے ،جن کے مطالعہ سے حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی پوری شخصیت کا ایک مکمل خاکہ قاری کے ذہن میں آجاتا ہے ۔
” ضیائے ولی” کے باب اول میں جن حضرات کے تاثرات اور دعائیہ کلمات کو جگہ دی گئی ہے ان میں مولانا محمد شمشاد رحمانی نائب امیر شریعت امارت شرعیہ ،معروف عالم دین اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ کے سابق پرنسپل مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی ،امارت شرعیہ کے قائم قام ناظم مولانا شبلی القاسمی،قاضی شریعت امارت شرعیہ مولانا محمد انظار عالم قاسمی ،مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ ،سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی ،مولانا محمد انوار اللہ فلک ،طارق شفیق ندوی ،محمد قمرالزماں ندوی (یوپی)محمد شمیم اختر ندوی،پٹنہ ،مولانا سیف الرحمن ندوی مونگیر ،ڈاکٹر کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج مظفر پور ،اور ڈاکٹر بلند شاہ ظفر اللہ دہلی کےنام شامل ہیں۔تمام حضرات نے اپنی تحریروں میں مولانا محمد ولی رحمانی کی جامع کمالات شخصیت کا اعتراف بھی کیا ہے اور مرتبہ کتاب مولانا محمد قمر عالم ندوی کو اپنی دعاؤں اور نیک خواہشات سے بھی نوازا ہے ۔سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی اپنی تحریر "آنکھیں ترستیاں ہیں” میں حضرت مولانا ولی رحمانی کے تعلق سے لکھتے ہیں :
"وہ ایک ایسے عالم دین تھے جن کا سیاسی شعور بہت ہی بالیدہ تھا،انہیں مومنانہ فراست ورثے میں ملی تھی ،جرات و بے باکی اور جواں مردی کے وہ پہاڑ تھے ،حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ان کے سوا کسی اور عالم دین میں ہمت نہیں تھی،وہ چاہتے تھے کہ اس ملک میں مسلمان اپنے پورے اسلامی تشخص کے ساتھ زندہ رہیں ،اس کے ملی اور مذہبی ادارے مضبوط اور مثالی ہوں، اردو پروان چڑھے ،اور اردو تحریک زندہ رہے تاکہ حکومت اردو کے ساتھ ناانصافی نہ کر سکے ۔(ص ۔۵۰)
"ضیائے ولی” کا باب دوم 15 قلمکاروں کے مضامین پر مشتمل ہے۔اس باب کی پہلی تحریر سرزمین بہار کے بابائے تحریرمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی ہے،جس کا عنوان ہے” مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا ” مفتی صاحب موصوف کی یہ تحریر 27 صفحات پر مشتمل ہے۔جب کسی تحریر میں ذرا ذرا سی بات کا ذکر آ جائے تو وہ تحریر مختصر ہو ہی نہیں سکتی ہے۔بہت کچھ لکھنے کے باوجود مفتی محمد ثناء الھدی صاحب اپنی تحریر کے اختتام پر لکھتے ہیں:
یادوں کی برسات لمبی ہوگئی ،کچھ اب بھی باقی رہ گئیں۔ وہ دن لوٹ کر آنے والے نہیں ہیں،جب حضرت فرمایا کرتے تھے کہ میں آپ کا لحاظ کرتا ہوں اور آپ سے امیدیں رکھتا ہوں،اللہ کرے حضرت کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے امارت شرعیہ کا ماحول ساز گار ہے اور اکابر کی اس امانت کو کسی کی نظر نہ لگے ۔(ص۔ ۱۱۳)
باب دوم میں جن دیگر قلمکاروں کی مختلف النوع نوعیت کی تحریریں زینت کتاب بنی ہیں ان میں مولانا آفتاب عالم قاسمی ،محمد صدر عالم ندوی،سید مصباح الدین احمد،مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری،محمد امتزاج الہدی ویشالوی،مولانا وصی احمد شمسی،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی،مولانا محمد تاج الہدی رحمانی،مولانا عمر فاروق ندوی،مولانا فیروز عالم ندوی،ثانیہ فرحت جمال،مولانا نیازاحمد قاسمی، اور ناچیز انوارالحسن وسطوی کی تحریریں بھی شامل ہیں۔سید مصباح الدین احمد نے” ایک عظیم ماہر تعلیم "کے عنوان سے مولانا محمد ولی رحمانی کے تعلق سے لکھا ہے:
"حضرت مولانا دینی تعلیم کے ساتھ نوجوانوں کو عصری علوم میں بھی آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ تعلیم کا مقصد اچھا انسان اور اچھا شہری بنانا ہے نہ کہ نوکری کرنے والی مخلوق بننا ۔جس طرح ملت کو اچھے ڈاکٹر اور بہترین انجینئر کی ضرورت ہے اسی طرح ہوشیار وکیل اور اعلی درجہ کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی بھی ضرورت ہے۔”(ص۔۱۳۲)
باب سوم "مشاہدات و تاثرات” پر مشتمل ہے۔جن میں کل 34 اہل قلم کی نگارشات کو جگہ دی گئی ہے،جس میں مولانا سید مظاہرعالم قمر شمسی، مولانا نظیرعالم ندوی،محمود عالم، مولانا عبد القیوم شمسی، مولانا اظہار الحق قاسمی، مفتی توقیر عالم قاسمی،مولانا نظرالہدی قاسمی، مولانا امام الدین ندوی، محمد جنید عالم ندوی قاسمی، ڈاکٹر محمد کلیم اشرف،حافظ توقیر سیفی، ابوبکر صدیقی،مصباح الدین اکرم، محمد رضاء الہدی رحمانی، محمد فداء الہدی فداء وغیرہ حضرات کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔بطورمثال مولانا امام الدین ندوی کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس کا عنوان ہے” ولی اپنے ولی حقیقی کی بارگاہ میں”:
"موت برحق ہے۔اس سے کسی کو مفر نہیں،موت مومن کا تحفہ ہے،موت ایک محبوب کو دوسرے محبوب سے ملانے کا واسطہ ہے،ہر مومن اسے قبول کرتا ہے،حضرت امیر شریعت نے بھی اس تحفہ کو قبول کیا،حضرت امیر شریعت ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے،اللہ ایسی شخصیت کو خال خال ہی پیدا کرتا ہے،اس پرآشوب دور میں امیر شریعت حضرت ولی رحمانی جیسی شخصیت کی امت کو سخت ضرورت تھی،ایسے میں امت کے عظیم رہبر کا جدا ہو جانا امت مسلمہ ہند کا عظیم خسارہ ہے۔”(ص۔ 226)
بابے چہارم ” منظوم خراج عقیدت” پر مشتمل ہے،جس میں مولانا سید مظاہرعالم قمر شمسی،مولانا سید ابوالخیر جبریل،فیض رسول فیض،مظہر وسطوی اور محمد احسان اشرف کے منظوم کلام شامل ہیں- یہ سبھی منظوم کلام بہت ہی عقیدت و محبت کے ساتھ کہےے ہوئے ہیں۔جن کے مطالعہ سے حضرت مولانا ولی رحمانی سے ان شعرا کی بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے،بطورمثال سید ابوالخیر جبریل کے منظوم خراج عقیدت کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
شمع عرفاں گل ہوئی پیر مغاں جاتا رہا
قادری فکر و نظر کا ترجماں جاتا رہا
اولیاء کی بزم کاروح رواں جاتا رہا
پھول غنچے رہ گئے اور گلستاں جاتا رہا
قابل صد مبارک باد ہیں عزیز گرامی مولانا محمد قمر عالم ندوی جنہوں نے صرف ویشالی ضلع کے اہل قلم حضرات کے گراں قدر مضامین و مقالات کا مجموعہ بنام "ضیائے ولی "نہایت قلیل مدت میں منظرعام پر لاکر نہ صرف بڑا کام کیا ہے بلکہ بڑا کارنامہ انجام دیا ہے،موصوف کا یہ کارنامہ قابل ستائش بھی ہے اور قابل تقلید بھی،محض کسی ایک ضلع کے اصحاب قلم کے مضامین پر مشتمل کتاب ترتیب دینا اپنے آپ میں ایک کمال کا درجہ رکھتا ہے ،یقینا مولانا محمد قمر عالم ندوی کا یہ کارنامہ عرصہ دراز تک یاد رکھا جائے گا- بلاشبہ مولانا موصوف کی اس کاوش میں ان کا حد جنون کار فرما رہا ہے،میں ان کے اس جذبے کو سلام کرتا ہوں۔
دلوں کو فکر دو عالم سے کردیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
Comments are closed.