سیاست اور علمائے عصر!!

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

اسلام اور سیاست کے موضوع پر اہل علم کے درمیان نظریاتی اختلافات پایے جاتے ہیں، مگر جمہور علماء اسلامی ریاست، حکومت اور سلطنت کے قائل ہیں، بہت کم اور شاذ ونادر علماء کی فہرست ہے جنہیں لگتا ہے کہ اسلام اور سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ دعوتی مشن کو انبیائی مشن کا کل قرار دے کر ایک مومن کو صرف دعوت کی حد تک رہنے کی ہدایت دیتے ہیں، قرآن مجید میں ایک آیت ہے: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (حج:٤١) "یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکومت عطا کردیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ ادا کریں گے ، بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے” اسے محور بنا کر افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے، ایک طبقہ سرے سے ہی سیاست کا انکار کر بیٹھتا ہے دوسرا صرف سیاست و حکومت کو ہی اصل مانتا ہے، بقیہ نماز، روزے اور عبادات کو محض ایک وسیلہ بتلاتا ہے، دراصل یہ دونوں غیر حقیقی تبصرے ہیں، اسلام کی جامعیت پر اشکال ہے؛ نیز یہ بھی درست ہے کہ مروجہ سیاست کی اصطلاحات اگر قرآن و حدیث میں تلاش کی جائیں تو انہیں نہیں پایا جاسکتا؛ لیکن ان کے خد وخال، بنیادی ڈھانچے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اسلام نے عہد اولین ہی سے امیر کی اطاعت، جماعت کو پکڑے رہنا، اتحاد، نظم ونسق اور ایک حکومتی تانے بانے کی ٹریننگ دی ہے، اس کے اصول فراہم کئے ہیں، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر میں انہیں برتا، اگرچہ حکومت کی وہ نوعیت نہ بنی جو بعد میں رائج ہوئی، مگر آپ ہی کے کھینچے ہوئے خطے پر خلفائے راشدین نے عمارت تعمیر کی؛ اگرچہ بادشاہت اور موروثیت نے اسلامی اصول پر کاری ضرب لگائی لیکن انہیں یکسر اسلامی طرز حکومت سے الگ شمار نہیں کیا جا سکتا ہے، اسلامی سیاست کی ایک پوری تاریخ ہے، اسلام کی نشو و نما، دور دراز علاقوں تک اس کی رسائی اور امن وامان کے قیام میں اس کا خاص رول رہا ہے، جہاں کہیں اس میں ڈھیل دیکھی گئی، جس صدی میں بھی مسلمانوں نے اس سے دامن جھاڑا، اپنے آپ کو سیاست سے بچا کر حکومت سے دور کر کے ایک عام زندگی بسر کرنے کی کوشش کی تو ان کی زندگیاں دوبھر کردی گئیں، ظلم وجور کا پٹ سرپٹ کھول دیا گیا، قوانین کے طوق و سلاسل گلے میں ڈال کر غلام بنانے کی کوشش گئی، استعماری طاقتیں ان پر چڑھ آئیں، انہیں کے گھر میں گھس کر انہیں بے گھر کردیا، ان کی ماؤں، بہنوں کی عزتیں تار تار کردی گئیں، نماز، روزے بھی مشکل کردیئے گئے، اندلس، ترکی خلافت عثمانیہ کے بعد کا کیا بنا؟ یا اس کے علاوہ تاریخی جائزہ لیجیے! شاید ہی کوئی مثال ملے جہاں مسلمانوں نے اپنے آپ کو سیاست، حکومت سے دور رکھا ہو اور انہیں سکون کی نیند ملی ہو، یقیناً عبادت ہی مقصود ہے؛ لیکن اس مقصود کو بدرجہ اتم پورا کرنے کیلئے اسلامی سیاست وسلطنت میل کا پتھر ہے، دعوت تو ہر حال جاری رکھنا ہے، وہ تو مذاکرہ ہے؛ لیکن اگلا سبق حکومت ہے.

سیاست اور علمائے عصر کے عنوان پر خاتون اسکالر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر، شعبہ اسلامی تاریخ کراچی یونیورسٹی) کی یہ ایک مختصر تحریر پڑھئے! جس میں بنیادی طور پر اسلام، سیاست اور علماء کی فکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، آپ رقمطراز ہیں: "تدبیر ملکی یا سیاست کے حوالے سے علمائے عصر مختلف و متضاد آرا کا اظہار کرتے ہیں ۔ایک طرف مولانا مودودی اور ان کے ہمخیال علما ہیں جو سیاست کو فوق الکل اہمیت دیتے ہیں اور اسلام کا مقصود اسلامی ریاست کا قیام قرار دیتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ علمائے عصر ہیں جو سیاست ملکی کو اسلام کا بنیادی مطالبہ نہیں مانتے مثلا جناب غامدی، مولانا وحید الدین خان اور ان کے ہمخیال علما ۔ مسلمانوں کی تاریخ میں سیاست(تدبیر ملک داری ) کے تصورات کا آغاز خود قرآن کریم ہی سے ہو جاتاہے، یہ درست ہے کہ قرآن میں لفظ سیاست کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ہے، اور قرآن میں کہیں بھی تفصیلی تشکیل نہیں ملتی لیکن ایسے مجمل اشارے ضرور ہیں جن سے کسی اسلامی ریاست کے تشکیلی اصول مرتب ہو سکتے ہیں ۔مثلا شوری کا حکم(سورہ شوری:٣٨)۔۔۔اولی الامر کی اطاعت کا حکم(النساء:٥٩) ۔۔۔ قیام عدل کا حکم اور امانتوں کو حق داروں تک لوٹانے کا حکم وغیرہ ۔ انہیں مجمل اشاروں کی عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست مدینہ تھی ۔رسول اللہ نے معاشرے اور ریاست کی تشکیل پہلو بہ پہلو کی، کسی کی تقدیم و تاخیر پر حکم لگانا مشکل ہو گا ۔ نو تشکیل شدہ اسلامی ریاست کے رہنما اصول خطبہ حجتہ الوداع میں موجود ہیں ۔تبلیغ دین، اصلاح اخلاق اور تزکیہ نفوس کے علاوہ استخلاف فی الارض کے ربانی وعدے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملکی ۔۔۔دفاعی۔۔۔اور عسکری انتظامات بھی کئے، چنانچہ اس سادہ سی اولین اسلامی ریاست میں آپ نے حکام، ولاتہ، عمال اور امیر العساکر اور قاضیوں کا تقرر بھی کیا ۔زکوات اور جزیہ کےلئے محصلین کا اہتمام، غیر قوموں سے معاملات، اجرائے فرامین، اجرائے تعزیر و احتساب وغیرہ کے کام انجام دیئے ۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے اسی سلسلے کو آگے بڑھایا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریاست کے اصولی نظریے کے ساتھ سیاست اور حکمرانی کے طریقے بھی بدلتے رہے۔ لیکن سیاست کو ہمیشہ ایک اہمیت حاصل رہی ہے، دوسری صدی ہجری کے اوائل سے ہی مسلمان علما کے سیاسی افکار و نظریات پر مبنی رسائل و کتب منظر عام پر آنے لگے ۔ابن ابی الربیع، فارابی، ماوردی،نظام الملک طوسی، غزالی، ابن تیمیہ،ابن خلدون، الغرض ایک طویل فہرست ان علماء کی ہے جنہوں نے سیاست مدن کے مختلف اور متنوع پہلوؤں پر لکھا اور بیشتر نظائر عہد رسالت اور عہد خلافت (خاصہ اور عامہ دونوں) ادوار سے لائے ۔ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ریاست قائم ہی نہیں کی، خاصا مغالطہ انگیز ہے، جملہ اسلامی سیاسی ادب پر ایک نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ سیاست نبوی ایک حقیقت تھی،اور وہ انوار الہیہ سے مستنیر تھی ۔”

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.