ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند اور پھلت کاسفر

مفتی محمد اشرف قاسمی۔

مہدپور،اُجین،ایم۔پی۔

قسط (1)

رمضان سےقبل میرا لیب ٹاپ ہینگ ہونا شروع ہوا اور عیدالفطر کے بعد معلوم ہواکہ سسٹم ہیک ہوکر تین سال سے لکھی گئی میری تمام تحریریں کرپٹ ہوگئیں ہیں۔جس میں میری لکھی ہوئی54/کتب کے علاوہ لاک ڈاون کے موقع پر لکھی گئیں ایم پی اورخانقاہ نعیمیہ بہرائچ کی تاریخ (جوکہ طباعت کے لیے پریس میں جانے والی تھی۔) اور دوتحقیقی تحریریں جن کی مقررہ تاریخیں نکلنے والی تھیں ،شامل ہیں۔ ان دو تحقیقی تحریروں کو نئے سرے سے لکھنے میں گزشتہ دو مہینے اتنا مصروف رہا کہ کسی کا فون ریسیو کرنا بھی میرے لیے مشکل تھا۔ خدا خدا کرکے دس اگست کو وہ دونوں کام مکمل ہوگئے، اور کچھ فرصت ملی۔ تو طبیعت کا بوجھ کم کرنے کےلیے کہیں سفر وتفریح کا پروگرام سوچ ہی رہاتھا کہ مہدپور درجہ چہارم عالمیت کے ایک طالب علم محمد فیضان خان (جن سے بسا اوقات اپنی تحریروں کی ترتیب اورپروف ریڈنگ کاکام کراتا رہتا ہوں۔ ) کو مدرسہ خادم الاسلام ہاپڑ (یوپی) میں چھوڑنے کے لیے اس کے گھر والوں نے مجھ سے فرمائش کی، اوریہ بتایا کہ فلاں عالم صاحب کی معرفت اس کا داخلہ مدرسہ میں ہوچکا ہے۔
ہاپڑ کاسفر کافی طویل ہونے کی وجہ سے طبیعت پر گرانی کااحساس ہوا، لیکن خانگی معاونت ومرافقت کی وجہ سے میں تیار ہوگیا،وہاں واپسی میں تنہائی سے بچنے کے لیے ڈاکٹر اسرائیل صاحب قاسمی،جنھوں نے تبلیغی جماعت کی برکت سے اپنی پرکسٹس (مطب)کےساتھ درس نظامیہ کی ابتدائی وثانوی اورمتوسطات پڑھنے کے بعد دیوبند یا ندوہ میں کسی کے انتخاب کےلیے بندہ سے مشورہ کیاطلب کیا تھا،موصوف کی تعلیمی کیفیت اور دینی جذبہ کے پیش نظر میں نے انھیں دارالعلوم دیوبند جانے کا مشورہ دیا تھا،وہاں داخلہ کے لیے تقابلی امتحان میں کامیاب ہونے کے بعدانھوں نے دارالعلوم میں دورۂ حدیث مکمل کیا۔ مجھ سےمشورہ بلکہ میری تاکیدکےبعدانھوں نے اپنے نام کے آگے قاسمی لکھنا شروع کیا۔
مزاج میں موافقت کی وجہ سے موصوف کواس سفر میں ہمراہ چلنے کے لیے کہا۔ چنانچہ وہ اپنی طبی وتعلیمی مصروفیات کے باوجود دو دن کے بعد سفر کے لیے آمادہ ہوگئے، اور اسی وقت گولڈن ٹمپل اکسپريس سے غازی آبادکے لیے تین ٹکٹ بنوالیا گیا۔ اور اسی کے ساتھ علی گڑھ، دیوبند، پھلت کے لیے ترتیب کے ساتھ مختلف ٹرینوں سےریزرویشن کرالیا، سولہ اگست کو پھلت سے واپسی کے لیے مظفر نگر (دہرادون باندرہ ایکسپریس)ٹرین نمبر09020سے واپسی کا ٹکٹ ہوا۔
سفر کی شروعات میں دو دن باقی تھے۔ لیب ٹاپ کی خرابی کے باعث کچھ اہم استفاءات کے جوابات اور مضامین لکھنےکام نہیں ہوسکا تھا۔
1.استفتاء ات میں دو اہم سوالات جو کہ کئی بڑے علماء اور ذمہ داروں کے طرف سے تھے۔ پہلا بند مدارس کے اساتذہ ومدرسین کے ماہانہ وظائف، اور اسی طرح بند مساجد کے ائمہ ومؤذنین کے ماہانہ وظائف کے بارے میں تھا۔
2.مسلمانوں کو لفظ "ہندو” بولناچھوڑنے کے لیے مضمون لکھنے کی بام سیف کے ایک ذمہ دار غیر مسلم ایڈوکیٹ نے فرمائش کی تھی۔
3.دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ تحفظِ سنت وردِبدعت سے فارغ ہونے والے محبی فی اللہ مولانا محمد نوشاد قاسمی نے رد فرقہ ہائے ضالہ ومُضلہ پر کئی مقالات لکھا تھا، ان مقالات پر تأثر لکھنے کی بندہ سے فرمائش کی تھی۔
4.نیز اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی انڈیا کی طرف سے منعقد ہونے والے30/ویں فقہی سیمنارکا سوالنامہ بھی کوڈ19/موضوع پر موصول ہوچکا تھا،
دوران سفر راستوں میں مذکورہ بالا موضوعات پر کچھ لکھنے لیے شامیہ،بحر، بدائع ، کتاب النوازل وغیرہ سے دو دن میں مودا اکٹھا کرلیا۔
ہماری ٹرین ناگدہ سے 12/اگست کی صبح 4/بجے تھی۔ رات میں ناگدہ پہونچنے میں دشواری تھی، اس لیے11/اگست مطابق یکم محرم الحرام 1443ء کی شام ہی کو ہم ناگدہ ٹرانسپورنگر کی مسجد میں مولانا محمد نوشادصاحب قاسمی (مسجد کے امام وخطیب) کے پاس پہونچ گئے، عشاء کی نماز ختم ہونے کے بعد امام صاحب نے میرے بیان کا اعلان کردیا۔ چونکہ بندہ کو ذہنی یکسوئی حاصل تھی،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سامعین میں عصری تعلیم سے مربوط سنجیدہ افرادہیں۔ اس لیے میں نے دینی نہج پر اسکولس وکوچنگ سینٹرس کے قیام اور اپنے محلوں میں کوچنگ سینٹرس کی افادیت و اہمیت، غیروں کے کوچنگ کلاسز کے نقصانات وغیرہ کو بیان کرکے ہر ہر مسلم محلے میں کوچنگ سینٹرس کے قیام کی صدا لگائی۔ بیان ختم ہونے کے بعد لوگوں نے کوچنگ سینٹرس کے قیام کےلیے سعی کرنے کاعزم ظاہر کیا۔ اللہ تعالی انھیں حوصلہ وہمت عطا فرمائے، اور ان کے لیے اپنے خزانہ غیب سے وسائل کا بندوبست فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
بیان اور کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد سونے کی تیاری تھی، لیکن ناگدہ میں منظم مکاتب اورقبا گلوبل اسکول کے فاونڈر، میرے دارالافتاء کے سابق علمی رفیق مفتی محمد اکرم صاحب قاسمی تشریف لے آئے. ( یہ کانپور کے رہنے والے ہیں،ناگدہ میں فائین ٹچ ممبئی کے نظام مکاتب کو بہت پُرکشِش و کامیاب انداز میں جاری کیا تھا،اورقباگلوبل انگلش میڈیم اسکول بھی قائم کیا تھا۔ لاک ڈاون اور علاقہ ونسل کی بنیاد پرتعاون وتناصر کے جذبات نے ان کے دونوں نظاموں کو ختم کردیا. فیا للاسف)
ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اور رفقاء، ائمہ وارکان کمیٹی کی باہم رساکشی کی نامسعود باتیں بھی سیاہ گوش سے ٹکرائیں۔
صبح چار بجےہم گولڈن ٹمپل سے غازی آباد کے لیے روانہ ہوئے ،پون گھنٹہ آرام کرنے بعد ٹرین ہی میں نماز فجر ادا کی گئی۔ اور پھر "لاک ڈاون میں بند مسجدوں کے ائمہ ومؤذنین کے ماہانہ وظائف” پر استفاء کاجواب لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ غازی آباد پہونچنے سے قبل تک یہ طویل تحریر مکمل ہوگئی۔ تصدیق کے لیے مہدپور میں محترم مفتی محمد سلمان ناگوری کو ارسال کردیا۔
محمد فیضان گھر سے پہلی بار اتنی دور سفر پر جارہاتھا، اس لیے اس کے گھر والے کافی متفکر تھے۔ غازی آباد میں ایک حکیم صاحب ہیں، بچہ کے والدین نے انھیں اس کے غازی آباد ہاپڑ جانے کی اطلاع کرکے رہنمائی طلب کی تھی۔ اس لیے غازی آباد حکیم صاحب نے اپنے گھرہوکر ہاپڑ جانے کا اصرار کیا۔ سامانِ سفر لاد پھاند کر منزلِ مقصود کے بجائے دائیں بائیں جانا بہت پریشانی کا باعث ہوتا ہے، لیکن بچے اور اس کے والدین کی دلبستگی اورحکیم صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے بادل نا خواستہ کئی رکشے بدل بدل کرموصوف کے دولت خانہ پر پہونچے ، ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھایا گیا۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ موصوف کامطب دیکھاگیا۔ اور مسجد کے امام ، علاقہ کے ذمہ دار ایک مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ پورا دن غازی آباد میں ختم ہوگیا۔عصر کی نماز باجماعت ادا کرکے قَُبیل مغرب ہم ہاپڑ کے لیے نکلے۔ اور اذانِ عشاء سے قبل ہاپڑ مدرسہ کے گیٹ پر تھے۔
۔۔۔۔۔ جاری

Comments are closed.