ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند اور پھلت کاسفر

مفتی محمد اشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم۔پی

علی گڑھ یونیوسٹی میں حاضری

12/اگست بروز جمعرات کی شام کو مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ پہونچ کر پرمعلوم ہواکہ مدرسہ میں ہفتہ واری تعطیل ہے، یہاں کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بچہ کے داخلہ کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ سلسلہ بسلسلہ معنی و مفہوم تبدیل ہوتے ہوئے داخلہ کرادینے کے ارادے اور وعدے کو”مدرسہ میں داخلہ ہوگیا”میں مبدل ومقلوب جملہ بنا کربچہ کے گھروالوں اور میرے علم میں لایاگیا۔
دوسرے دن جمعہ تھا، میرے سفرکی ترتیب میں جمعہ کو علی گڑھ اور وہیں سے رات میں دیوبند نکلناتھا۔ لیکن یہ معلوم ہوا کہ شنبہ کو داخلہ کی کارروائی ہوگی۔ امتحان ہوگا، پاس ہونے کی صورت میں داخلہ ہوگا، ورنہ واپس جانا پڑے گا۔
ہم بہت پریشانی میں مبتلاء ہوگئے، گھرسے نکلنے سے قبل میں نےمفتی محمد ارشد فاروقی صاحب قاسمی کو بذریعہ فون دیوبنداپنی آمد کی اطلاع دی تھی۔ انھوں نے ہاپوڑ مدرسہ میں اپنے ایک رفیق مفتی محمد مقصود صاحب سے ملاقات کی رہمنائی کردی تھی۔ اس لیے تھوڑی طبیعت مطمئن تھی۔ لیکن خیال یہ آرہا تھا کہ اگرہم علی گڑھ سے دیوبند نکل گئے اور بچے کا داخلہ نہیں ہوا تو یہ بچہ بہت پریشان ہو جائے گا۔اور اس کے ساتھ میرے آنے کا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہونچے گا۔ اس لیے ہم نے آگے اپنے سفرکی ترتیب تبدیل کردی۔ اور یہ طے کیا کہ آج جمعہ کو علی گڑھ جائیں اور پھر وہاں سے مدرسہ ہاپوڑ واپس آئیں۔ 14/کو بچہ کے داخلہ کی کارروائی مکمل کرائیں، اگرداخلہ نہیں ہوتا ہے تواُسے سیدھا دیوبند ساتھ لے کر جائیں گے۔
چنانچہ دوسرے دن یعنی 13/اگست کی صبح کو ہم علی گڑھ جاکر شام کو واپس آگئے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جمعہ کی وجہ سے شاید ہاف ڈے آفسز کھلتی ہیں، اس لیے میراکوئی کام نہیں ہوسکا۔ البتہ ایک مخلص شناسا جناب ڈاکٹر مبین الاسلام صاحب ندوی سے وہاں ملاقات ہوگئی۔ موصوف نے ہمیں اپنے دولت کدہ پر لنچ کے لیے اصرارکیا،جس پر ہم نے معذرت کردی کیونکہ ہم جمعہ کی نمازکے بعد فورا ہوٹل میں کھانے سے فارغ ہوگئے تھے۔پھر موصوف نے چائے کے عنوان سے بھاری ناشتے کاانتظام کیا۔
ناشتہ کے دوران مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، جس میں ہماری لیڈر شپ پیدا کرنے کے سلسلے میں امت واداروں کی غفلت، ہمارے اکیڈمیشینس کے تحفظ و تعاون کے سلسلے میں اغنیاء اور اداروں کی کوتاہی۔
مدارس میں حالات حاضرہ اورمعاصر ضروریات کے تحت تحقیقی کاموں کے فقدان پرطویل گفتگو ہوئی۔
یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر سنجیدہ غوروفکر ،لکھنے وبولنے اور کچھ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
انتخابات میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں اویسی کا بھی نام آیا، میں نے سوچا کہ اس نکتے پر میں کچھ کرِکشن کردوں، لیکن گفتگو طویل ہوتی جارہی تھی۔ اس لیے اس موضوع کو نظر انداز کردیا۔البتہ عام قارئین کے گوش گزار کرناضروری سمجھتا ہوں کہ صرف فاشسٹ قوتوں کو شکست دینے کے لیے سسٹم سے الگ ہوجانے سے غلامی کی زنجیریں کستی ومضبوط ہوتی چلی جائیں گی۔ اس لیے کسی کی ہاریاجیت ، ووٹوں کی جوڑوتقسیم سے بے فکر ہوکر سسٹم میں داخل ہونے کے لیے سیاسی اصول وضوابط اوراسرارِسیاست ورُموزِ جہابانی کی کامل رعایت کرتے ہوئے عبادت سمجھ کر پولیٹکس میں اپنے تحرُک وقیام کی مسلمانوں اور مسلم پارٹیوں کوبرابراپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئے۔
اول الذکر دو موضوعات میں اکیڈمیشینس کی پرورش و پر داخت پر اغنیاء واثریاء کو متوجہ کرنے کے لیے پہلے سے ہی میں سوچ رہا تھا کہ کم از کم اس موضوع پر لکھنا وبولنا چاہئے۔ مدارس میں اس وقت درجاتِ عالمیت کے اساتذہ اورافتاء کے طلباء واساتذہ بہترین اکیڈمیشینس ہیں،لیکن لاک ڈاون کے موقع پر کچھ اداروں میں وہ اپنے قلیل ترین ماہاوظائف سے بھی محروم کردئے گیے۔ ایک تو ہمارے مدارس میں بہت محدود دائرے میں اکیڈمک ورکس پرتوجہ دی جاتی ہے، دوسری طرف اپنے حوصلے وہمت سے کام لے کر جو اکیڈمیشینس تیار ہوئے، تھوڑے سے حالات آجانے پر انھیں بے دردی سے ضائع ہوتا ہوا دیکھ کر ہمیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے۔ فیاللاسف
دوسرے موضوع پر لکھنے و پڑھنے اور سوچنے کے سلسلے میں اپنے انداز تفکر کی میں نےاصلاح کی۔
ابھی تک مجھے یہ احساس تھا کہ ہمارے یہاں قیادت خاص طور سے پولیٹکل لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ لیکن یہ قیادتیں کہاں کہاں سے پیدا کی جاتی ہیں یاپیدا کی جاسکتی ہیں؟ اس پہلو پر میری نظر نہیں تھی۔
ڈاکٹر مبین الاسلام صاحب ندوی کی صحبت سے اس پہلو پر غوفکر کا رُخ فراہم ہوا۔جس میں تین مواقع اہم ہیں۔
1.نئی قیادتیں اسکولس وکالجز اور یونورسٹیز میں اسٹوڈینٹس یونین سے پیدا ہوتی ہیں۔ قیادتیں پیداکرنے کے لیے یونیورسیٹیز میں طلبہ یونین کے لیے خطیر بجٹ ہوتی ہے۔ چند مہینوں کی مواقیت پر انتخابات کے ذریعہ مختلف عہدوں کے لیے طلبہ منتخب ہوتے ہیں۔ اس طرح مختلف طلباء کے اندر قائدانہ صلاحتیں پیدا ہوتی اور ترقی کرتی ہیں۔ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ان طلباء کو بعد میں مختلف پولیٹکل پارٹیز اپنی اپنی پارٹیوں میں شامل کرکے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں۔
بعض طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو کالج یا یونیورسٹی انتظامیہ کے معاون بننے کے بجائے معاند بن جاتے ہیں، اس لیے وہ ادارے اپنے تحفظات کی پیشِ نظر طلباء یونین کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں۔
2.مدارس عربیہ میں طلباء کی تنظیمیں بھی قیادت پیداکرنے کابہترین ذریعہ ہیں۔ لیکن کالجز ویونیورسٹیز کی طرح مدارس میں قائم طلباء تنظیموں کے لیے اداروں کی طرف سے کوئی مالی بجٹ نہیں ہوتی ہے، بلکہ طلباء خود باہم چندہ کرکے اپنی تنظیمیں چلاتے ہیں، نیز ان طلباء لیڈروں کے سامنے پولیٹکل پرسنس، سوشل سائنس، اسرار جہانبانی نہیں ہوتے ہیں، ساتھ ہی ملک و ریاست اور مخاطب اقوام کی زبانوں سے بھی یہ ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے یہ مین اسٹریم سے باہر ہوکر محدود دائرے میں معاشرے کے قیادت انجام دیتے ہیں۔
3.عام طورپر بے شمار اداروں اورتحریکوں کی قیادت چند بزرگ شخصیات کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ جس سے نئے قیادتوں کو اپنی صلاحیت کے استعمال کا موقع نہیں ملتا ہے۔
اپنی خداد صلاحتیوں سے بہت سی قیادتیں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن نئی قیادتوں کو خوب پکاکر بوڑھابنایاجاتا ہے، پھر خاندانی تعلق یاخدمت وارادت اورتملق کی بنیاد پر کام کا موقع ملتا ہے۔ اس لیے تازہ دم ونئے فضلاء ومخلص قائدین بکثرت ضائع ہوتے رہتے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں کم ازکم اپنے دانا دشمن سے ہی کچھ سبق حاصل کرلینا چاہئے، آر ایس ایس، بی جے پی میں دیکھ لیں کہ تقریباً تمام بوڑھی قیادتیں نوجوان قیادتوں کو موقع فراہم کرکے عقب سے رہنمائی وگائڈنگ کررہی ہیں۔
اس پہلوپر ہمارے ان بزرگوں کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کی شام حیات کے سائے دراز ہوچکے ہیں۔ اوروہ بے شمار اداروں کی قیادتوں کا بوجھ تنہااپنے سر پر لادے ہوئے ہیں۔

Comments are closed.