ذہن دو قسم کے ہوتے ہیں۔

محمد صابر حسین ندوی
انسان کا امتیاز اس کی عقل و فکر سے ہے، یہی وہ چیز ہے جس سے انسان دنیا کی ترقی کے خواب بنتا ہے، اپنی دگرگوں حالت درست کرنے کی پرواہ کرتا ہے، سماج کو ایک نئی جہت دینے اور بنیادی ضروریات سے لیکر تمام فروعات تک کو سہل بناتا ہے، اب تک دنیا نے جو کچھ ترقی پائی ہے اور زندگی کی جو کچھ سہولتیں میسر ہوئی ہیں ان سب میں اسی ذہن کا دخل ہے، ہمارے سماج میں ایک عجیب بیماری یہ ہے کہ وہ ذہن و فکر اور عقل کی موجودگی کے باوجود لنگڑے پن اور فالج زدہ فکر کو ترجیح دیتے ہیں، ایک دماغ جس کے اندر زمین و آسمان کی وسعت بھی سما جائے، سمندر کی گہرائی، فضا کی وسعت بھی ہیچ ہوجائے، اسے کنوئیں کا مینڈک بنا دیتے ہیں، پچھلی لیکروں پر فقیروں کی طرح چلتے رہنا اور آنکھ بند کر کے ایک ہی سمت پر دوڑتے رہنے کو اصل مان لیتے ہیں، مسلمانوں کو خصوصاً اللہ تعالی نے عقل و فکر استعمال کرنے پر ابھارا ہے، قرآن مجید کی تعلیم ہو یا احادیث نبویہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا پھر بعد کے ادوار میں بھی یہی پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی فکر سے نت نئے ایجادات اور ترقی کی راہیں ہموار کی ہیں، انہوں نے انسانوں کو ایک ظلمت و اندھیرے سے نکال کر ترقی یافتہ دور سے ہمکنار کیا ہے؛ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ دور وسیع ترین ہونے کے باوجود مسلمانوں نے اس نہج کو برقرار نہیں رکھا، وہ اپنی اندرونی کمزوریوں اور نفسیاتی ضعف بلکہ قرآن و حدیث کے معانی سے دور ہوجانے کی وجہ سے عامیانہ تقلید اور سہل پسندی کو ہی لازم پکڑ بیٹھے، جمود، تعطل اور فکری انحراف میں مبتلا ہوگئے، انتشار، اختلاف اور آپسی رساکشی کا دروازہ کھل گیا، عرصے تک چند مفادات، اصولیات اور رواج کو لے کر دست گریباں رہے، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کی ہائی ٹیک، ترقی یافتہ اور عروج پسند دور میں بھی ذہنی ٹھہراؤ، قدامت پسندی اور فکری کجی میں پڑے ہوئے ہیں؛ البتہ اس دھندلکے میں کہیں کہیں شمع جلتی نظر آتی ہے، مگر اس کی روشنی اتنی کم ہے کہ اپنے ارد گرد بھی اندھیرا دور کرنے سے قاصر ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اس ذہن سازی کی سخت ضرورت ہے جس سے یہ باور ہو کہ وہ دنیا میں فکر و عمل کو فروغ دینے کی کلید ہیں، جو ان سے چھنتی جارہی ہے، وہ امیر ہیں جس سے وہ پچھڑتے جارہے ہیں.
اگر اس امت میں پھر سے وہی علمی و فکری ذہن پروان پا جائے، سوچنے سمجھنے اور تحقیق و تحلیل کرنے کی صلاحیت روبہ عمل آنے لگے، سطحیت سے اٹھ کر بلند فکر اور پرواز نصیب ہوجائے، گھر / گھر میں اعلی ذہنی کاوشیں رونما ہونے لگیں تو حیران کن اٹھان دیکھا جاسکتا ہے، ترقی و تعمیر ان کی حصہ داری بڑھ سکتی ہے، دنیا میں کارنامے انجام دے سکتے ہیں اور قوم کی رگوں میں نیا خون دوڑ سکتا ہے، مولانا وحیدالدین خان مرحوم نے اس ذہن سازی کی طرف توجہ دلائی ہے، آپ ایک موقع پر لکھتے ہیں: ” ذہن دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک، علمی ذہن، اور دوسرا وہ جس کو شخصیت پرستی (personality cult) کا ذہن کہا جاتا ہے۔علمی ذہن وہ ہے جس میں ساری گفتگو علم کی بنیاد پر کی جائے۔ جس میں فیصلے کی بنیاد صرف مسلمہ علم ہو، نہ کہ کوئی اور چیز۔ جس میں مسلمہ علم کی بنیاد پر کوئی چیز قبول کی جائے، اور مسلمہ علم کی بنیاد پر کسی چیز کو ردّ کردیا جائے۔ جہاں علمی ذہن ہو، وہاں ہمیشہ ذہنی ترقی کا سفربرابر جاری رہتا ہے۔ وہاں ترقی کا سفر کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہوگا۔ یہ مزاج کیا ہے، اس کو برطانوی رائٹر اور نقاد برنارڈ شا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرا قد شیکسپیئر سے چھوٹا ہے، لیکن میں شیکسپیئر کے کندھے پر کھڑا ہوا ہوں:Shakepear is a far taller man than I am, but I stand on his shoulders. (The Oxford Companion to Shakespeare, Shaw, George Bernard, p. 499) اس کے برعکس، شخصیت پرستی کا معاملہ ہے۔ شخصیت پرستی ہمیشہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کرتی ہے۔ جہاں شخصیت پرستی ہو، وہاں لوگوں کے اندروہ سوچ پیدا ہوگی ، جس کو ایک قدیم جاہلی شاعر، عنترہ بن شداد نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ہَل غادَرَ الشُعَراءُ مِن مُتَرَدَّمِ
کیا شعرا نے کوئی پیوند لگانے کی کوئی جگہ چھوڑی ہے- شعرا سے مراد ان کے نزدیک بڑےشاعر تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عرب کے بڑے شعرا نے سب کچھ کہہ دیا ہے، اب کوئی چیز کہنے کے لیے باقی نہیں رہی۔ پرسنالٹی کلٹ کیا ہے۔ کسی مشہور شخصیت کے بارے میں غلو آمیز انداز میں تعریف یا اس سے وابستگی:Personality cult is excessive public admiration for or devotion to a famous PERSON. – – (الرسالہ: نومبر 2018)
7987972043
Comments are closed.