سیرت سیدنا حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما

از ۔۔۔۔شمشیر حیدر قاسمی

۔ ولادت با سعادت۔

سن 4۔ھجری شعبان المعظم کا مہینہ ہے ۔ستارہ انسانیت اپنے اوج پر ہے ۔توحید خداوندی کی باد بہاری سے بنی آدم کی قسمت اٹکھیلیاں کررہی ہے ۔رسالت کی پر نور کرنیں چہاردانگ عالم میں امن و آشتی ،محبت و اخوت ،شرافت و دیانت بکھیرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔سرزمین یثرب طابہ و طیبہ کی راہ طے کرکے مدینة النبی کا پاکیزہ لقب حاصل کرچکی ہے ،حضرت جبرئیل علیہ السلام لوح محفوظ سے پیغام الہی لیکر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچانے میں مصروف ہیں، نگاہ فلک اپنی طویل سلسلہ وجود میں روے زمین پر انتہائی خوبصورت اور بنی آدم کے لئے سب سے زیادہ قابل فخر احوال و کوائف کو دیکھ کر کروبیاں کو آنکھیں دیکھا نے میں لگی ہے ۔ایسے نورانی ساعت ، ایمانی وعرفانی ماحول اور پر کیف و روح پرور معاشرہ میں شجرہ نبوی کی ایک نازک ترین شاخ پر
وہ خوشرنگ ارغوانی پھول کھلتا ہے ۔جس سے سیدہ زہر (رضئ اللہ عنہا)کی آغوش کے لئے زینت، علی شیر خدا(رضی اللہ عنہ ) کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک،حضرت حسن (رضی اللہ عنہ)کے لئے قوت بازو، سید الكائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی لاڈ و پیار کے لئےمرجع  اور پورے عالم کے لئے حق و صداقت، جرأت و بسالت، عزم و استقلال ،ایمان و عمل اور ایثار و قربانی کا سامان فراہم ہوتا ہے ۔

تسمیہ اور عقیقہ ۔

سیدہ فاطمہ زہرا کے جگر گوشہ ،علی المرتضی کے نور چشم اور ہاشمی گھرانے کے  اس خلاصہ کی ولادت باسعادت کی بشارت جب سماعت نبوت سے ہم آغوشی کا شرف حاصل کرتی ہے، تو صاحب نبوت و رسالت خوشی و شادمانی سے نہال ہو کر کاشانہ مرتضوی پر تشریف لے جاتے ہیں اور علی و فاطمہ (رضی اللہ عنہما )کی جانب سے  منتخب شدہ نام ۔حرب ۔کی جگہ حسین تجویز کرتے ہیں ۔ع

دل و جاں باو فدایت چہ عجب خوش لقبی۔

پھر حسین کے حسن کی تابانی کو آفات و بلیات کے تیزوتند جھونکوں سے محفوظ رکھنے اور ہر طرح سے ان کی سلامتی کے لئے رب کائنات کے حضور التجا کرتے ہیں اور عقیقہ کی تلقین فرماتے ہیں۔
ابن کثیر کی ایک روایت کے مطابق تسمیہ و عقیقہ کی یہ سنیت ولادت کے ساتویں دن انجام پزیر ہوئی ۔
تربیت و پرورش ۔

سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا کی کی انتہائی پاکیزہ آغوش حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پدرانہ شفقت اور ہادی عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی حکیمانہ تربیت اور غیر معمولی محبت و رافت نے سیدنا حسین بن علی کی شخصیت کوبچپن ہی میں ایسے عمدہ اخلاق اور اعلی فضل و کمال سے آراستہ کردیا کہ بچپنے میں اس طرح کے اوصاف اور خوبیوں کے حامل بچہ کی نظیر پیش کرنے سے تاریخی صفحات عاجز و قاصر نظر آتے ہیں ۔
خلاصہ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پناہ محبت اور شفقت سے فیضیاب ہوتے ہوئے   جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر سات سال کی ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا سایہ شفقت سرسے اٹھ گیا ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفاء بشمول پدر بزرگوار حضرت علی (رضی اللہ عنہم)نے نبی پاک علیہ السلام کے اس لاڈے نواسے کو پیار و محبت سے نوازنے اور تربیت نبوی کی طرح اس کی نگہداشت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔اور اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ۔
سرداد، دست نداد در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ کی چھ ماہی خلافت کے ساتھ خلافت علی منہاج النبوت  (علی صاحبہا الصلاة والسلام )کا سلسلہ اختتام پزیر ہوگیا ۔اس کے بعدمتفقہ طور پر پورے اسلامی سلطنت کے فرمانروا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مقرر ہوگئے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد سلطنت گرچہ خلافت راشدہ سے کسی قدر مختلف تھا تاہم صحبت نبوی کا اثر ابھی قائم اور غالب تھا ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےاپنے وفات سے قبل بعضے مدبرین کے مشورے اورچند مصالح کے پیش نظر اپنے صاحبزادہ یزید کو ولیعہد مقرر کر دیا   تھا ۔ مدینہ منورہ میں موجود بعض صحابہ (رضی اللہ عنہہم) کی طرف سے جس كی مخالفت بھی ہوئی لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاسی بصیرت اور اثر و رسوخ نے اس مخالفت کے بال وپر کتر دئیے ۔چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے فورا بعد جب یزید مسند آرائے سلطنت ہوا تو اسے حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر کے سوا کسی با اثر شخصیت کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ان دونوں حضرات پر جب یزید کے گورنر کی طرف سے یزید کے لئے بیعت کرنے کا دباؤ پڑا تو خفیہ طور پر مدینہ منورہ سے مکة المكرمة چلے گئے ۔ادھر کوفہ کے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت حسین یزید کی خلافت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں توانھوں نے حضرت حسین کے پاس خطوط لکھنا شروع کیا تاریخی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان خطوط کی تعداد ڈیرھ سو سے متجاوز تھی ۔ان خطوط میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تھا کہ
یزید کی خلافت سے ہم اہل کوفہ بیزار ہیں، یزید خلافت اسلامیہ کی مسند  پرمتمکن ہونے کا کسی بھی اعتبار سے اہل نہیں ہے۔ آپ نواسہ رسول ہیں آپ کے فضائل و محاسن سے کون انکار کر سکتا ہے ۔
ہم تخت خلافت پر آپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتے ۔اللہ کے واسطے آپ کوفہ تشریف لائیں،اور فسق و فجور کے دلدادہ شخص کے ہاتھوں خلافت اسلامی کو داغدار ہونے سے بچائیں ہم اہل کوفہ آپ پر اپنا تن من دھن  لٹانے پر فخر محسوس کریں گے ۔

اس قسم کے مضامین پر مشتمل خطوط کے ذریعہ کوفیوں کا اصرار جب حد سے تجاوز کرگیا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی فریاد رسی ضروری سمجھی اور صحیح صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے معتمد خاص اور  برادر عم حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا ۔حضرت مسلم کے نزول اجلال کا کوفہ میں پر تپاک استقبال کیا گیا ۔
لوگ ذوق در ذوق  مسلم بن عقیل کے ہاتھ پرحضرت حسین کے لئے بیعت ہونے لگے ۔حضرت مسلم نے کوفیوں کی اس والہانہ وارفتگی کی اطلاع حضرت حسین کو بھیج دی اور ساتھ ہی جلد کوفہ آمد کی اپیل بھی کردی۔
۔یزید کو جب اس صورت حال کی اطلاع ملی تو اس نے کوفہ کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر کو معزول کرکے بصرہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کی گورنری بھی سونپ دیا ۔عبید اللہ بن زیاد کی آمد اور اس کا ظالمانہ تیور کو دیکھ کرحامیان مسلم آہستہ آہستہ حمایت سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے بالآخر حضرت مسلم بن عقیل کوفہ ہی میں عبید اللہ بن زیاد کے ہاتھوں جام شہیدکردئےگئے ۔
ادھرحضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت مسلم کی طرف سے اطمینان بخش خبر پاکر اپنے اہل و عیال اور جانثاروں کی ایک جماعت کے ساتھ  کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں موجود اصحاب رسول صلی اللہ علیہم و سلم کو جب حسینی عزم کا علم ہوا تو انھوں نے حضرت حسین کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن عزم حسینی کے سامنے ان کی کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں ۔اور اہل بیت کا قافلہ سوئے کوفہ چلتا ہی رہا ۔راستے میں اہل کوفہ کی بدعہدی اور حضرت مسلم کی شہادت کی خبر ملی ۔معمولی لیت و لعل کی صورت سامنے آئی لیکن حضرت مسلم کی صاحبزے اور بھائیوں کے رجحانات نے مضمحل ارادوں کو استحکام دیکر راہ کربلا کے سنگریزوں کو صاف کردیا۔اور بالآخر 10 محرم الحرام سن 61ھ بروز جمعہ تاریخ انسانیت کا وہ المناک منظر سامنے آیا جس نے ملت کے قلب و جگر کو اس طرح پاش پاش کردیاکہ چودہ سو سال کا طویل عرصہ گزر جانے کےبعد بھی وہ زخم جوں کا توں ہرا معلوم ہوتا ہے ۔اور اس کے تصور سے دل کانپنے لگتا ہے اورآنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں ۔ذراچشم تصور کو وا کیجئے ۔اور سوچئے کتنا قیامت خیز اور زہرا گداز رہا ہوگا وہ منظر جب جنتی نوجوانوں کے سردار کی اس مبارک گردن پر چھڑی چلائی جارہی ہوگی ۔جسے بارہاں حضرت نبی  آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کےمقدس ہونٹوں نے بوسے سے نوازا تھا،کتنا دل دہلانے والا رہا ہوگا وہ سماں جب  اہل بیت کے ننھنے اور معصوم بچےپانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے ہوں گے۔شاید ابلیس بھی ان کی اس حرکت پر  انگشت بدنداں ہوگا جب اہل بیت نبوی کو ایک ایک کر کے شہید کیا جارہا ہوگا ۔
۔،اے سر زمین کر بلا کیسے تجھ سے دیکھا جارہا تھا وہ منظر جب خانوادہ نبوی کی عورتوں کے ہاتھوں میں زنجیریں  ڈالی جارہی تھیں ، ان کے خیموں کو جلایا جارہاتھا ۔سر زمین کربلا تو پھٹ کیوں نہیں گئی تاکہ عبیداللہ بن زیادہ ،عمر سعد، شمر ذی الجوشن اور انس نخعی جیسے ننگ انسانیت افراد کے ناپاک وجود سے اہل دنیا کو راحت مل جاتی ۔اے آسمان نبی کے نواسوں پر تیر چلانے والوں، ان سے پانی کو روکنے والوں ان کہ صاحبزایوں پر دست درازی کرنے والوں پر تونے آتشیں شعلے کیوں نہیں برسایا تاکہ دنیا دیکھ لیتی ان بدطینتوں کے حشر کو ،ہائے ہائےکتنا بڑا المیہ ہے ۔جس گھر سے پیاسوں کو پانی، بھوکوں کو روٹی،ننگوں کو کپڑا ،مظلوموں کو انصاف یتمیوں وغریبوں اور بے سہارا قسم کےلوگوں کو سہارا ملا۔ آج اسی گھر کے لوگ میدان کربلا میں بلک رہے ہیں ۔ان کے بچے پیاس سے تڑپ رہے ہیں ۔ان کے نانا کے عشاق کہلانے والے ہی ان پر ظلم و ستم ڈھانے میں لگے ہیں ۔یقینا یزیدیوں کی جانب سے اہل بیت نبوی پر ڈھائے گئے مظالم تاریخ انسانی کا نہایت ہی سیاہ ترین باب ہے جس پر پوری انسانیت آج تک شرمندہ ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اہل بیت اور ان کے جانثار رفقاء نے شہید ہوکر ابدی زندگی حاصل کر لی۔ان کی بہادری ،جرأت، حق گوئی اور عزم و استقلال کو دنیا تاصبح قیامت سلام پیش کرتی رہے گی اور ان کے دشمنان کےنامہ اعمال میں نحوست اور لعنت جمع ہوتی رہے گی ۔
القصہ مختصر ۔آج کےظلم و طغیان سے بھری دنیا میں انسانیت کی بقا کے لئے ایک بار پھرحسینی عزم کی ضرورت ہے ۔تاکہ وقت کے یزید، عمر سعد، شمر ذی الجوشن اور انس نخعی جیسے افراد کے مکروہ چہرہ کو ہر کوئی پہچان سکے ۔اور نسل نو کوحسینی اسوہ سے مربوط ہونے میں رہنمائی مل سکے ۔
مدرسہ مقصود العلوم، رامپور ،رانی گنج ۔ارریہ ۔بہار

Comments are closed.