شعری مجموعہ "روپک” پر آن لائن بین الاقوامی مذاکرہ

زیرِ اہتمام: امروہہ فاؤنڈیشن
تاریخ: 28 جون 2025
رپورتاژ نگار: ڈاکٹر رفیعہ نوشین (حیدرآباد، دکن)
اردو ادب کے بین الاقوامی منظرنامے میں 28 جون 2025 کی شام ایک ادبی و فکری اعتبار سے یادگار لمحہ بن گئی، جب امروہہ فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام معروف شاعرہ فوزیہ اختر ردا کے دوسرے شعری مجموعے "روپک” پر ایک بین الاقوامی آن لائن مذاکرہ منعقد ہوا۔ اس نشست کی صدارت کولکتہ کے معروف اور استاد شاعر حلیم صابر نے کی، جبکہ امروہہ فاؤنڈیشن کے روحِ رواں جناب فرمان حیدر نے میزبانی کا فریضہ انجام دیا۔
ادبی، صحافتی اور سماجی سطح پر معتبر شخصیات کی شرکت نے اس مذاکرے کو ایک بامعنی اور ثروت مند مکالمہ بنا دیا۔ فرانس، بنگلور، راجستھان، کشمیر، اور حیدرآباد سے شریک دانشوران و تخلیق کاروں نے فوزیہ ردا کی شاعری کے فکری، جمالیاتی اور علامتی پہلوؤں پر سیرحاصل گفتگو کی۔
نظامت کے فرائض کشمیر کے ممتاز شاعر عرفان عارف نے نبھائے، جن کی شائستہ گفتگو اور نپی تلی زبان نے مذاکرے کو وقار بخشا۔ انہوں نے گفتگو کا آغاز فرمان حیدر سے کیا اور گزارش کی کہ وہ امروہہ فاؤنڈیشن کی خدمات سے سامعین کو روشناس کرائیں۔
فرمان حیدر نے تنظیم کی بنیاد، اس کے اغراض و مقاصد اور سرگرمیوں پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ:
"امروہہ فاؤنڈیشن 2011 میں انسانی ہمدردی، علم و ادب کے فروغ اور نوجوان نسل کی تعمیر کے مقصد سے قائم ہوئی۔ یہ صرف ایک تنظیم نہیں، بلکہ وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی بن کر ابھرتا ہے۔”
انہوں نے فخرِ امروہہ ایوارڈ، "Ideal of Youth Award” اور "کنیزِ جنابِ فاطمہ ایوارڈ” جیسے اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ فاؤنڈیشن صرف تقریبات تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کی زمینی ضروریات میں بھی اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔
اس کے بعد جنوبی ہند کے معروف شاعر عزیز بلگامی کو مدعو کیا گیا۔ انہوں نے فوزیہ اختر ردا کی شاعری کو سہل ممتنع، روحانیت، بندگی اور داخلی نور کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے کہا:
” مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ فوزیہ اختر ردا سہل ممتنع کی ملکہ ہیں۔ پوری کتاب میں اس کے نمونے بھرے پڑے ہیں ۔ یہی اُن کے ایک باکمال شاعرہ ہونے کی دلیل ہے- میری نظر میں ردا ایک خدا پرست شاعرہ ہیں۔ وہ اپنے رب کی بندگی کو روشنی سے استعارہ فرماتی ہیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ کسی بندے کے لئے ممکن نہیں کہ وہ روشنی سے دور رہ سکے، بندگی اگر روشنی ہے تو اُسے بہر صورت رب کی بندگی کرنی ہوگی، کتنا خوبصورت شعر کہہ کر وہ اپنی زندگی اور شاعری کا رخ متعین فرما رہی ہیں :
خود کو نہ روک پائے تری بندگی سے ہم
کیسے بھلا یوں دور رہیں روشنی سے ہم
زمانے کی نظریں کسی پر اسی وقت مرکوز ہوتی ہیں، جب وہ اپنی کامیابی کی منزل کے قریب پہنچ جاتا ہے یا اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر زمانے
کی نظریں ہم پر پڑنے لگی ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ ہماری کامیابی کی منزل قریب تر ہے۔ یہ ایک حکیمانہ شعر ہے جو بہت متاثر کرتا ہے:
اپنی منزل کے ہوں قریب بہت
اب نظر میں ہوں میں زمانے کی
اس کے بعد رفیعہ نوشین کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنا مدلل اور فکری مقالہ بعنوان "نسائی شعور، ادبی جدوجہد اور اردو کی بیٹیوں کا نوحہ” پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ
"فوزیہ کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی سادگی میں پرکاری اور اظہار میں تاثیر ہے۔ وہ تشبیہات، استعاروں اور علامتوں کو محض برائے نمائش استعمال نہیں کرتیں بلکہ ان کا استعمال معنویت کی گہرائی پیدا کرتا ہے۔ ان کی ہر غزل ایک کیفیت، ایک لمحہ، ایک جہت میں قاری کو لے جاتی ہے، جہاں جذبے، شعور اور سوالات ایک ساتھ سانس لیتے ہیں- ان کا لہجہ کبھی محبت کا پُرسکون جٓھرنا ہوتا ہے، تو کبھی داخلی احتجاج کی گونج۔ وہ محبت، تنہائی، جدائی، بےوفائی، اور جذباتی استحصال جیسے موضوعات کو نہایت نرم مگر نوکیلے اسلوب میں پیش کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ عورت نظر آتی ہے جو صرف محبوبہ نہیں، بلکہ بیٹی، ماں، بیوی، دوست، مظلوم، باغی اور دانشور بھی ہے۔ ان کے اشعار میں، عشق میں عدم مساوات کا دکھ ہے، ذہنی کشمکش اور داخلی کرب کی بازگشت ہے-
فوزیہ کہتی ہیں:
پہلے کبھی کبھار ہی کہتی تھی شعر میں
میرا یہ کام اب سے تو روزانہ ہو گیا
اور واقعی، ان کے قلم کی یہی روزمرہ کی روانی ہمیں "روپک” کی صورت میں ایک بھرپور اور فکری شاعری کا خزانہ عطا کر گئ ہے-
روپک” دراصل فوزیہ کے وجود اور وجدان کی کتھا ہے، جس میں نہ صرف اردو شعری روایت سے جُڑا ہوا احساس ہے بلکہ عہدِ حاضر کی عورت کا سچ، اس کی شکستگی، خودداری، اور عزم کا نوحہ بھی ہے۔
فوزیہ اختر ردا کی پہچان ان کی غزل گوئی ہے، جس میں نرمی، نزاکت، شعور اور احتجاج کی خوبصورت آمیزش ہے۔ لیکن ان کا مجموعہ روپک پڑھتے ہوئے ایک نظم نے مجھے رُک جانے اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہ نظم ہے: "وہ ایک شاعرہ جو تھی”۔
یہ نظم محض ایک شاعرہ کی کہانی نہیں، بلکہ اردو ادب میں عورت کی تخلیقی موجودگی، اس کی جدوجہد، اور اس پر مسلط منافقانہ نظام کا نوحہ ہے-
فوزیہ کے اشعار نظم کی روحانی کلید ہیں، جہاں شاعرہ تخلیق، شناخت، اور عزت نفس کے درمیان جھولتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں قاری کو احساس ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ صرف نظم کا ہی نہیں، ہمارے سماج اور ادبی نظام کا بھی ہے۔
یہ نظم اردو شاعری کے ادبی ایوانوں پر فردِ جرم ہے۔
یہ صرف احتجاج نہیں، ایک آئینہ ہے جس میں اگر ہم سنجیدگی سے جھانکیں، تو اپنا ادبی ضمیر شرمندہ نظر آئے گا۔
فوزیہ نے غیر روایتی لہجے میں، سادہ الفاظ سے، بڑے بڑے پردے چاک کر دیے ہیں۔
انہوں نے فوزیہ کی شاعری کو صرف جمالیاتی تجربہ نہیں بلکہ فکری صداقت، نسائی شعور اور داخلی احتجاج کا مرکب قرار دیا-
فرانس میں مقیم معروف ادیبہ و شاعرہ ممتاز ملک نے اپنے تاثرات میں فوزیہ کے لہجے کی وقار، تخلیقی نرمی، اور ادب پسندی کو سراہا:
انہوں نے کہا کہ فوزیہ اختر ردا کی شاعری کے مختلف لہجے ہیں – کہیں وہ نسائی لہجے میں بات کرتی ہیں۔ کہیں وہ درد دل رکھنے والے ایک ایسی انسان کے طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ جو دوسروں کی تکلیفوں پر تڑپتا ہے اور بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، اور جب کچھ نہیں کر پاتا تو بے بسی سے ہاتھ ملتا ہے- فوزیہ بہت با ادب ہیں اور بہت ہی باوقار انداز میں اپنے کام کو آگے لے کر بڑھ رہی ہیں۔ ان کے کام میں اوچھا پن نہیں ہے۔ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اگے بڑھنے کی جلدی دکھائی نہیں دیتی ۔ اس لیے ان کی کام میں نفاست ہے، سکون دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے ان کا شعر بطور حوالہ پیش کیا:
"نہیں ہے اصل میں منظر وہ ایسا
ہمیں جیسا دکھایا جا رہا ہے” –
راجستھان سے تعلق رکھنے والے ایم آئی ظاہر ممتاز اردو شاعر، ادیب و صحافی ۔
نے "سپتک سے روپک تک۔۔۔ پانی میں ٹھہرے ہوئے عکس کی شاعرہ” کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے فوزیہ کی شاعری کو کلاسیکی اثرات، مشرقی اقدار، اور رومانوی لطافت کا حسین امتزاج قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ :
"فوزیہ اختر ردا پر قدیم یا جدید کسی بھی شاعر کا کوئ رنگ نہیں ہے- وہ انقلابی، بے باک اور انفرادی شاعری کی مثال ہیں- ان کی شاعری کلاسیکی رنگوں سے مزین ہے- یہ نہ صرف عشقیہ افسانوی خیالات سے آراستہ شاعری ہے بلکہ مشرقی روایت کی ایسی شاعری ہے جس میں محبوب کے روایتی کردار بھی ہیں- یہ کردار آج کے معاشرے کی ترجمانی کرتے ہیں- ان کی شاعری اخلاقی قدروں کے ساتھ جدیدیت کی بھی عمدہ مثال ہے- فوزیہ اختر ردا کی شاعری نازک، رومانوی، جمالیاتی احساسات اور جواں جذبوں کا شاہکار ہے- فوزیہ اختر ردا رُوپک کے ذریعہ صدیوں سے قرنوں کا سفر کرتی محسوس ہوتی ہیں”-
استاد شاعر جناب حلیم صابر نے بطور صدرِ اجلاس اپنے گہرے مشاہداتی اور فنی انداز میں فوزیہ ردا کی شاعری پر روشنی ڈالی:
ان کے مقالے کا عنوان تھا:
” فوزیہ اختر ردا کی شاعری میں فکر و فن کی قوس قزح”
انہوں نے فوزیہ اختر ردا کے اشعار کو رنگِ تغزل سے آراستہ پایا –
اور بطور مثال مندرجہ ذیل اشعار پیش کئے
میری ہر سانس میں تری دستک
دستکوں کا شمار کون کرے
کیسی الجھن میں پڑ گئے ہیں ردا
یہ سلجھتی ہوئ جو الجھن ہے
زندگی کی الجھن اور وہ بھی سلجھتی ہوئ کا استعمال فوزیہ نے خوب کیا ہے، بالکل نئ ترکیب ہے- فوزیہ جب مشاہدات کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں تو ان کے گلوئے فکر پر ایسے اشعار نمودار ہوتے ہیں جن میں ان کی حساس طبیعت کا عکس نظر آتا ہے جو الفاظ و معانی سے آراستہ ہوتا ہے- کبھی التجا بن کر کبھی آرزو کی صورت اور کبھی دعائے دل ثابت ہوتا ہے-
یہ شعر دیکھیں:
جس کی خاطر ہے کیا میں نے سفر صدیوں کا
کیا مرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گا
فوزیہ اختر ردا کی غزلوں کے اشعار میں اگرچہ زمانے کے وقوع پذیر واقعات و سانحات کی ترجمانی بھی ہے لیکن ان کے لہجے میں گھن گرج اور لطافت کو مجروح کرنے والی آواز کے بجائے دھیمی اور شعریت سے پُر الفاظ سنائ دیتی ہے جو بار بار سماعت نہیں ہوتے یعنی نسوانی آواز ان کے احساسات کو اجاگر کرنے میں معاون ہوتی ہے جو ان کے حسنِ تکلم اور خوش کلامی کی دلیل ہے- ان اشعار میں وہ اپنے شعور کی آزمائش کرتی نظر آتی ہیں:
مرے پاؤں سے اس نے کھینچی زمیں
سفر سے مرے رہگذر لے گیا
جو کچھ دل میں بتایا جا رہا ہے
اشاروں سے چھپایا جا رہا ہے
آخر میں فوزیہ اختر ردا نے اپنی کتاب کی تخلیقی کہانی بیان کی۔ انہوں نے کہا:
فوزیہ اختر ردا نے کہا کہ لکھنا ان کے لئے بے حد ضروری ہے- اگر کچھ دنوں کے لئے وہ لکھنا چھوڑ دیں تو ان کی ٹینشن بڑھ جاتی ہے- ان کی ہر تخلیق ان کے لئے خوشی و سکون کے لمحات مہیا کرواتی ہے- فوزیہ نے سماج میں اردو ادب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کتابوں کے مطالعہ کی گھٹتی روش پر افسوس کا اظہار کیا- لیکن وہ پُر امید ہیں کہ اس دور کی کتابیں قارئین کے شعور کو بیدار کرنے میں کارگر ثابت ہونگیں، ساتھ ہی نئ نسل میں اردو ادب کی طرف رجحان بڑھے گا- فوزیہ اختر ردا نے مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی سیکریٹری محترمہ نزہت زینب صاحبہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے شعری مجموعے "رُوپک” کی اشاعت کے لئے مالی تعاون فراہم کیا اور کتاب کی اشاعت کو آسان بنایا-
انہوں نے تمام شرکاء، فاؤنڈیشن، اور قارئین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
"روپک کے مختلف پہلو آج جس طرح کھلے، وہ میرے لیے باعثِ فخر بھی ہے اور ایک نئی ذمہ داری کا آغاز بھی۔”
یہ آن لائن مذاکرہ صرف ایک شعری مجموعے پر اظہارِ خیال نہیں تھا، بلکہ اردو زبان و ادب کی بین الاقوامی حیثیت، نسائی تخلیقی فکر، اور فکری تبادلے کی شاندار مثال بن کر ابھرا۔ "روپک” کے توسط سے اردو شاعری کی نئی سمتیں اور لہجے سامنے آئے، اور فوزیہ اختر ردا ایک ایسے تخلیقی چراغ کے طور پر سامنے آئیں، جو جذبوں، سوالوں اور روشنیوں کے درمیان پوری شدت سے جلتا ہے۔
Comments are closed.