صدر ٹرمپ: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چونکانے والے بیانات کے لیے مشہور ہیں ۔ انہوں نے حال میں امریکی ٹی وی چینل "فوکس نیوز” پر یہ کہہ کر ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا کہ :’’ اگر ایران نیک نیتی کا مظاہرہ کرے تو امریکہ اس پر عائد پابندیاں ختم کر سکتا ہے‘‘۔ ٹرمپ کے اس جملے کو سن کر بے ساختہ ایرانی فوجی ترجمان کا یہ بیان یاد آگیا ’’جواری ٹرمپ نے یہ جنگ شروع کی ہے مگراس کا خاتمہ ہم کریں گے‘‘۔ یعنی جنگ کا آغاز تو فریقِ مخالف نے کردیا ہے مگر اختتام ہماری مرضی سے اپنی شرائط پر ہوگا۔ جنگ کے بعد دشمن ممالک پر پابندیاں لگائی یا سخت کی جاتی ہیں مگر اس کے برعکس ٹرمپ کا پابندی ختم کرنے کا خیال بجائے خود شکست کا اعتراف ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ "ایران کے پاس امریکی حملوں سے پہلے یورینیم منتقل کرنے کا وقت ہی نہیں تھا”۔ ان کی اس بات کو درست مان لیا جائے دو سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلاتو یہ کہ اگر یورینیم وہاں موجود تھا تو ا بمباری کے بعد اس کی تابکاری پھیلی کیوں نہیں ؟ اور اگر نہیں پھیلی تو اس کا مطلب ہے وہ حملے ایرانی تنصیبات کو تباہ برباد کرنے میں ناکام ہو گئے؟ اسی شکست کا اثر ہے کہ اب ٹرمپ جنگ کے بجائے امن اور پابندیاں لگانے کی جگہ اٹھانے کا راگ الاپ رہے ہیں۔

امریکی عالمی تجزیہ کاربھی اب صدر ٹرمپ کی تردید کر رہے ہیں ۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے باوجود بھی اس میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت برقرار ہے۔ان کے مطابق اگرچہ امریکی حملوں سے ایران کا یورینیئم افزودہ کرنے کا عمل متاثر ہوا ہے مگر اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ پینٹاگون نے دعویٰ کیا کہ ایران کی 3 بڑی ایٹمی تنصیبات پر 125 جنگی طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں نے حملہ کیا گیا ۔ تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں B-2 بمبار طیارے استعمال کرکے نطنز اور فردو کے جوہری پلانٹس پر 14 عدد GBU-57 ”بنکر بسٹر“ بم گرائے گئے مگر فردو کمپلیکس جس پہاڑ کے اندر 80 سے 90 میٹر تک کی گہرائی میں واقع ہےاس کی سیٹیلائٹ تصاویر میں 3 مقامات پرپہاڑ پر شگاف دیکھے گئے۔ایران نے اسے بالائی سطح کا نقصان بتا کر اندر سب محفوظ کچھ ہونے کا دعویٰ کردیا۔

آزاد ماہرین نے بھی حملے کے بعد ایران کے جوہری مقامات کی سیٹلائٹ کی تصاویر کا تجزیہ کر نے کے بعد تصدیق کی کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری منصوبے کے کچھ حصوں کو خفیہ رکھا ہوا ہے، اور جوہری سرگرمیاں مختلف مقامات پر پھیل چکی ہیں، اس لیےان کی تباہی کا عمل مشکل ہے۔ فی الحال امریکی صدر اور روس میں خوب چھن رہی ہے۔ وہ ناٹو اجلاس میں اپنے نئے دوست روس کی خاطر سارے یوروپی ممالک سے لڑگئے اس لیے انہیں کم از کم روسی قومی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین اور دیمتری میدویدیف کی تنقید پر توجہ دینی چاہیے۔ موصوف نے کہا کہ ’ٹرمپ، جو امن کے دعوے کے ساتھ آئے تھے، انہوں نے امریکا کو ایک نئی جنگ میں جھونک دیا ہے۔‘میدویدیف نے صاف کہا کہ امریکی حملے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام رہے۔ ان کے مطابق، ’جوہری فیول سائیکل کے بنیادی ڈھانچے کو یا تو کوئی نقصان نہیں پہنچا یا صرف معمولی نقصان ہوا۔ افزودگی اور ممکنہ ہتھیار سازی جاری رہے گی۔‘ اسی کے ساتھ میدویدیف کا یہ انکشاف امریکہ و اسرائیل کے ہوش اڑانے والا ہے کہ ’کئی ممالک ایران کو براہ راست اپنے جوہری وارہیڈز فراہم کرنے کو تیار ہیں۔‘ ۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ امریکہ نے حملہ کرکے ایرانی جو ہری پروگرام کو بلا واسطہ تقویت پہنچا دی ہے۔

جنگ سے ہٹ کرمیدویدیف کے سیاسی تجزیہ پر امریکی سفاتکاروں کو توجہ دینی چاہیے ۔ انہوں نے کہا امریکی حملوں کے باوجود ایران کا سیاسی نظام نہ صرف محفوظ رہا بلکہ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ وہ بولے ’ ایسے ایرانی عوام بھی جو پہلے اپنی روحانی قیادت کےمخالف یا لاتعلق تھےاب کےان کے گرد جمع ہو رہے ہیں ۔‘ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اسرائیل اور امریکہ کی دھوکہ دھڑی کو بے نقاب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ’ہم سفارتکاری کے درمیان میں تھےیعنی امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری تھے کہ اسرائیل نے سب کچھ سبوتاژ کر دیا۔‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکی حملے سے صرف دو روز قبل جنیوا میں یورپی ثالثوں کے ساتھ مذاکرات ہورہےتھے لیکن پھر دوسری بار امریکہ نے ہر چیز تباہ کرنے کا فیصلہ کیا، ایران نے نہیں۔ امریکہ نے سفارتکاری سے دھوکہ کیا ہے۔‘عراقچی نے ٹرمپ انتظامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے خود کو مستقبل کے کسی بھی امن عمل کےلیے نااہل ثابت کر دیا ہے۔ ٹرمپ کی بابت وہ بولے کہ ’انہوں نے دکھا دیا کہ وہ سفارتکاری کے آدمی نہیں ہیں ، وہ صرف دھمکی اور طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔‘

امریکی صدر کے فکر و نظر میں واقع ہونے والی تبدیلی کو ان حربی و سفارتی تناظر میں دیکھنا چاہیے ؟ 13 جون سے امریکہ اور ایران کے درمیان 12 روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے دوران جب امریکہ نے مداخلت کرتے ہوئے ایران کی تین جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر فضائی حملے کردیئے تو ایران نے سرینڈرکرنے کے بجائے ڈٹ کر جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔ایرانی فوجی یونٹ خاتم الانبیاء کے ترجمان نے امریکہ کے حملوں کو ’مرتی ہوئی صیہونی حکومت کو زندہ کرنے کی کوشش‘ قرار دے کر اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کردیئے۔اسرائیل کے شہر صفاد، تل ابیب،اشکلون، اشدود اور بیسان پر راکٹ داغے گئے جس کے سبب جنوبی اسرائیل میں بجلی کی بند ہوگئی ۔ اس کے علاوہ پاسداران انقلاب کے ترجمان ابراہیم ذوالفقاری نے امریکہ پر ایرانی سرزمین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اس کیخلاف طاقتور،ٹارگٹڈ آپریشنز استعمال کرنے کی دھمکی دے دی ۔ ایران کے فوجی سربراہ عبدالرحیم موسوی نے کہا کہ ایران کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔

امریکی حملے کے جواب میں ایران نے قطر اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بناکر خطے میں امریکہ کو عدم تحفظ کا شکار کردیا جس نے ٹرمپ کوجنگ بندی پر مجبورکیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا نےاسے ایران کی اسرائیل و امریکہ پر فتح قرار دیا۔ اپنی شرائط پر جنگ ختم کرنا اسی کو کہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان حملوں میں اس بار کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن پچھلے سال جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تب بھی اس کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا مگر اس بار اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ اگلی مرتبہ امریکہ کے ساتھ بھی وہی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ "ایران اس وقت جوہری منصوبے پر واپس جانے کا سوچ بھی نہیں رہا، وہ بہت تھکا ہوا ہے”۔امریکی صدر کا اب یہ کہنا بھی بے معنیٰ ہے کہ ” یورینیم افزودگی” ایک خطرناک اصطلاح ہے اور ایران کو اسے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ وہ بیچارے کس تصوراتی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ ابھی حال میں ایرانی پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کے نیوکلیر ادارہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا بل منظور کیا ہے۔

مجلس کے اجلاس میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے پر جملہ 223 نمائندوں میں سے221 نے تائید میں ووٹ ڈالا۔ ایک رکن نے مخالفت کی اور دوسرا غیرحاضر تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اب ایران نے جوہری اسلحہ کےحصول کی جانب قدم بڑھا دیا ہے اور اس کا جواز خود امریکہ نے حملہ کرکے فراہم کیاہے ۔ اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حملہ سے نیوکلیر تحدید ِ اسلحہ معاہدہ(این پی ٹی)کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ایران کو پرامن جوہری پروگرام جاری رکھنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ قبل ازیں ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے اقوام متحدہ کیجوہری ایجنسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد آئی اے ای اے اپنی بین الاقوامی ساکھ کھوچکی ہے۔ ایران نے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کی ‘دھمکیوں’ کے حوالے سے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی تنقیدوں کو بھی مسترد کر دیا ہے ۔

ان یوروپی ممالک نے تہران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ IAEA کے عملے کی حفاظت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے سے مکمل تعاون کرے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا  تھاکہ حالیہ اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد مغرب کی توقعات غیر حقیقی ہیں۔ وہ بولے ” چند دن قبل ایران کی پُر امن جوہری تنصیبات پر حملے کرنے کے بعد وہ ہم سے IAEA کے معائنہ کاروں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟”بقائی کے مطابق "ایسے میں کہ جب اقوام متحدہ کا جوہری نگران ادارہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت تک کرنے میں ناکام رہا ہے اسےایران سے NPT کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے ” ۔ اس منہ توڑ جواب سے ظاہر ہوتا ہے ’جھکتی ہے دنیا جھکانے والاچاہیے‘۔ سچ یہی ہے کہ ایران نے امریکہ کا داوں اسی پر الٹ دیا اسی لیے ہر روز صدر ٹرمپ بہکی بہکی متضاد باتیں کررہے ہیں ۔ٹرمپ کے اوٹ پٹانگ بیانات پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا

کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

Comments are closed.