جشن آزادی منائیں ہم مگر یہ یاد ہو …!

محمد عظیم فیض آبادی
دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163428
یہ اگست کا مہینہ ہے اسی ماہ کی 15/ سن 1947 کو ہمارا ملک آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوا تھا برسوں کی متحدہ محنت کے بعد انگریزاس ملک کو اہل وطن کے حوالے کرنے کرنے پر آمادہ ہوا غلامی کی ذلت بھری زندگی سے آزادی ملی
کسی بھی قوم قبیلہ خاندان یا کسی بھی شہر وملک کے لئے آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی اس لئے حریت وآزادی کا یہ دن ہر ہر فرد کے لئے خوشی ومسرت کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ 75 سالوں سےملک کا چپہ چپہ گوشہ گوشہ ہر 15/اگست کو خوشی کے شادیانے گاتا اور اپنے مخصوص وخوشنما جھنڈ ے ترنگے کو ملک کے گلی کوچوں میں لہرا کر اس خوشی کو دوبالا کرتا ہے کیا بچہ کیا جوان کیا مرد کیا عورت کیا امیر کیا غریب کیا ہندو کیا مسلمان کیا سکھ کیا عیسائی ، جب ترنگا ہاتھ میں ہو اور اپنے ملک کی آزادی کے ترانے گنگنا رہا ہو تو پھر کچھ اور ہی سما ہوتا ہے اس دن کو پورا ملک ایک ہی رنگ وآہنگ میں نظر آتاہے اونچ نیچ امیر غریب ذات پات دھرم ومذہب کا سب فرق ختم ہوجاتا ہے اور یہ یوم ازادی اور اس کے جھنڈے کا رنگ ہمیں اتحاد واتفاق ، آپسی بھائی چارہ و پیار ومحبت اور گنگا جمنی تہذیب کا درس دیتا ہے
لیکن افسوس ہے کہ نفرت کے جس بیج کو بو کر انگریزوں نے برسوں اس ملک پر حکمرانی کی فصل کاٹی ہے آج ایک مخصوص طبقہ اسی نفرت کے بیج کی سوداگری بڑے پیمانے پر کر رہاہے
جس کا نہ ملک کی آزادی میں کوئی اہم کردار ہے نہ ہی اس نے کوئی جد وجھد کی جوصرف انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کرکے ویر بننے کا خواب دیکھتے رہے جو گوروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے کہ ہم آزادی کی لڑائی اور انگریزوں کی مخالفت سے دست برداری کا وعدہ کرتے ہیں ہماری جان بخشی جائے اور بخشی بھی گئی آج کوہی لوگ مسلمانوں کو حب الوطنی کا سرٹیفکٹ بانٹ رہے ہیں آج وہی لوگ ملک کا سب سے ہمددر وخیر خواہ ثابت کرنے کے لئے تاریخ کی تبدیلی کا سہارا لے کر حقائق پر پردہ ڈال رہے ہیں جس نے انگریزوں کی پالیسی ہی کو ہی حکومت کا اصل محور قرار دیا جو آج علی الاعلان ایک طبقے کوہراساں کرنے اسے زدو کوب کرنے اور اسے دہشت میں مبتلا کرنے میں 75 سالوں سے اپنی توانائیاں صرف کررہاہے اگرچہ اس کے پاس ابھی تک وہ سیاسی قوت نہیں تھی کہ وہ کھل کر سماج میں زہر گھولے اور آزادی کی تاریخ اور اس کے صدقے میں حاصل ہونے والی بیش بہا نعمت کی داستانوں کو تبدیل کرسکے اور جنگ زادی میں اپنی چاپلوسی ، معافی انگریزوں کی مخبری اور حکومت کے لئے ملک کے بٹوارے کی پالیسی کو آزادی اور اپنی قربانی کا نام دے سکے آج جب چند سالوں سے سیاسی طاقت حاصل ہوئی تو افریت کا جن بوتل سے باہر آگیا اب ہر طرف انارکی پھیلا کر خوف ودہشت کا ماحول بناکر مابلنچنگ وقتل غارت کے ذریعہ ملک کے امن وآمان سے کھیلواڑ کرکے جنگ آزادی میں ہراول دستے کا فریضہ انجام دینے والی ،ایک زمانے تک تنے تنہا انگریزوں کے مقابل رہنے والی قوم کو ہراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی اور افسوس تو یہ ہے کہ جان بوجھ کر مجرم کو چھوٹ دی جاتی ہےاکیلے انگریزوں کے دانت کھٹے کردینے والے نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کا تو نام تک لینا گوارا نہیں جن کے نام تک سے انگریز کانپ تے تھے جن کی وفات پر خود انگریزوں کا دلیری کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان تھا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے کیوں کہ انھیں بھی معلوم تھا کہ اب کوئی اور بہادر اس جوانمردی کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں جٹا پائے گا اس وقت شاید سنگھ یا اس کے ہمنوا لوگوں کا کہیں وجود بھی نہ رہا ہو آج پورے ملک میں نہ مسلمان کا جان مال محفوط ہے نہ اس کی عزت وآبرؤ نہ ہی زندگی کا چین وسکون حاصل ہے اور ایک ٹولی ہمیشہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے کے لئے بے تاب رہتی ہے ابھی حال ہی میں دلی کے جنتر منتر پر جو زہریلے نعرے لگے ہیں "ہندوستان میں رہنا ہوگا جے شری رام کہنا ہوگا ”
اور ” ملے جب کاٹے جائیں گے تو رام رام چلائیں گے ” وہ ملک کی آزادی پر بدنما داغ ہیں یہی نہیں ابھی کان پور میں ایک غریب مسلمان کوجس بے دردی سے پیٹ پیٹ جی شری رام کے نعرے لگوائے گئے اور اس کی معصوم بچی اس کے ساتھ لپٹ کراس کی جان کی حفاظت کی بھیک مانگتی رہی کیا اسکے دل میں آزادی کا کوئی تصور ہوسکتا ہے اخلاق ، حافظ جنید ،پہلوخان اور افرازل الحق اس اس کے اہل خاندان کو بھی کیا آزادی کا معنی کوئی بتا سکتا ہے ؟
دہلی کی ایک ریلی میں گولی "مارو سالوں کو ” کے نعرے کے بعد جو فساد ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں خاندان اجڑ گئے کیا وہ آزادی کے اس موقع پرخوشی مسرت کے اظہار پر اپنے آپ کو آمادہ کر سکتے ہیں …؟
نوٹ بندی کی لائنوں میں کھڑے کھڑے اپنی جان گنوادینے والے اور لاکڈاؤن میں ہزاروں ملیوں کا پیدل سفر کرکے گھر پہنچنے والا اور اسی سفر میں زندگی بچانے کے بجائے زندگی گنوادینے والے، اور یتیم ہونےوالے بچے اور بیوہ ہونے والی خواتین کو بھی کوئی آزادی کا مفہوم اور اس کی خوشی سمجھا سکتاہے بے..؟ روز گاری کی مار جھیل ریے اور بے روزگاری سے خودکشی کرنے والے اور بھکمری کے شکار لوگوں کو 15/ اگست کی آزادی کی پُر بہار فضاؤں سے کچھ لینا دینا ہوسکتا ہے …؟
جن گھرانوں کے نوجوان ناکردہ گناہوں کی سزا جیلوں میں کاٹ رہے ہیں یا حکومت کی غلط پالیسیوں کی صرف مخالف کرنے پر NSA اور UAPA جیسی سخت قانون کے تحت گرفتار ہیں جو صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے ہے کیا ان کے گھروں میں 15/ اگست کے ترانے گنگنائیں گے ..؟
کسانوں کو تباہ کردینے والے قانون کے احتجاج میں روٹی پیدا کرنے والا کسان سردی گرمی بارش کی صعوبتیں جھیلنے اور ہزاروں کسانوں کے زندگی کے ہاتھ دھونے کے باوجود کیا آزادی کا جشن صحیح لگتا ہے
میرا خیال ہے کہ اس قوم وملک کو صرف سیاسی آزادی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی صرف اس سے مقصود حاصل ہوگا بلکہ اس قوم وملک کو غربت وبے روزگاری ،مہگائی وبھوکھمری ،
ناقص نظام تعلیم ،ذات پات، اور انچ نیچ کے فرق سے آزادی ،عدلیہ کی آزادی ،کسی قوم ومذہب کی توہین ودل آزاری سے آزادی ، اظہار رائے کی آزادی ہر قوم کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی اور تاریخی مقامات وعبادت گاہوں کی حفاظت وخودمختاری کی ضرورت ہے ، بد قسمتی سے ہم آج بھی جس سے محروم ہیں ،
انگریزوں سے ملک کی آزادی کا جو صحیح اور حقیقی مقصد تھا اگر ہم اس سے محروم ہوں تو یہ ظاہری اور دنیا کو دیکھانے والے آزادی بےمعنی اور مجاہدین آزادی کی روحوں کے ساتھ مزاق ہے اور یہ آزادی نہیں آزادی کا دھونگ ہے اور بس
جشـن آزادی منائیں ہـم مگر یہ یـاد ہو
ملک کےہرفرد کا ہر سانس بھی آزادہـو
Comments are closed.