ہندوستان میں اقلیتوں پہ مظالم کم ہوں گے, تو افغانیوں پہ بات ہو !

احساس نایاب ( شیموگہ ، کرناٹک )
جنید، نجیب ، تبریز، افرازل ، آصف اور 8 سالہ ننھا عظیم ان میں سے کوئی بھی افغانی شہری نہیں تھا نہ ہی ان کی ماں بہنوں کا تعلق افغانستان سے ہے بلکہ یہ بدنصیب ہندوستانی شہری ہیں ان کے آباواجداد ہندوستانی تھے اور ہیں باوجود ان کے ساتھ ہندوستان جو ظلم و زیادتی کی گئی وہ انسانیت کو شرمسار کردے ۔۔۔۔۔ ان کے علاوہ بھی اگر بات کی جائے تو جموکمشیر ننھی پری، حیدرآباد کی ڈاکٹر ، یوپی کے اُناؤ ، ہاتھرس اور ملک کے دیگر کئی علاقوں میں جنسی زیادتی کا شکار کرکے بےرحمی سے قتل کی جانے والی یہ تمام بچیان بھی ہندوستانی ہیں اور یہ تمام ریاستیں، علاقے بھی ہندوستان کا حصہ ہیں باوجود یہان اقلیتی طبقہ پہ ظلم و جبر انتہا پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے نہ سرکار نہ ہی قانوں ۔۔۔۔۔
ابھی حال ہی کی بات جائے تو سوشیل میڈیا پہ ایک مظلوم بچی اور اُس کے زخمی بھائی بہنوں کی ویڈیو تیزی سے وائرل ہورہی ہے،
ویڈیو میں اپنی روداد سنانے والی بھارت کی اس بےبس بےسہارا مظلوم بیٹی کے ساتھ راجیش، راکیش، ننکوا، پردھان اور دیگر نے اجتماعی عصمت دری کی کوشش کی، گھر پہ موجود عورتوں اور بچوں کی بےرحمی سے پٹائی کی اور الٹا لڑکی کے باپ کو ہی جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور آج کیمرہ کے آگے وہ انصاف مانگ رہی ہے اپنے باپ اور بھائی کے لئے در در کی تھوکریں کھارہی ہے ۔۔۔۔۔۔
لیکن افسوس یہاں نہ کوئی اس کو سننے والا ہے، نہ ہی اس کے لئے آواز اٹھانے والا ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ آج بھارت کی میں اسٹریم میڈیا گودی میڈیا کے ہاتھ افغانستان نامی کھلونا مل چکا ہے جس سے وہ ملک کی عوام کو ورغلاسکے ، اپنے مسائل اور بنیادی مدعوں سے بھٹکاسکے ۔۔۔۔۔
جبکہ ہندوستانی عوام کو اس افغانستان ، پاکستان ، طالبان یا فلاں فلان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے
بلکہ آج عوام اپنے بنیادی مسائل کی وجہ سے پریشان حال ہے ۔۔۔۔۔
روز بروز بڑھتی مہنگائی، اسکول کالجس یونیورسٹی بند کئے جانے کی وجہ سے بچوں پہ پڑ رہے منفی اثرات، اُن کی صحت اور اُن کے مستقبل کو لے کر بھارت کے مان باپ پریشان ہیں ۔۔۔۔۔۔
، نوجوانوں کی بےروزگاری ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے ، ہندوستانی بیٹیوں کی حفاظت ہمارے لئے بہت بڑا چیلینج ہے، ۔۔۔۔۔۔
ملک میں بڑھتی غریبی، بھُکمری، گرتی ہوئ معیشت اور جرائم میں اضامہ، نوجوانوں کی بےراہ روی ملک کے مستقبل کے لئے بیحد خطرناک ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے لئے وقت ضائع کئے بنا ہندوستانی حکومت کی توجہ ان مدعوں کی جانب لانا بیحد ضروری ہے اور یہ ذمہ داری میڈیا کی ہے کہ وہ اپنے ملک کے مسائل پہ پہلے بات کرے ، اپنی عوام کو ملنے والی بنیادی سہولیات پہ حکومت سے سوال کرے، ملک کے اقلیت اور کمزور طبقے پہ ہورہے مظالم پہ آواز اٹھائے ۔۔۔۔۔ نہ کہ بےبنیادی مدعون پہ تیل چھڑکنے آگ لگانے کا کام کرے ۔۔۔۔۔۔۔
آج ہر فرد کو سمجھنا ہوگا کہ
ایک کامیاب اور خوشحال ملک کے لئے کیا ضروری ہے ؟
عوام کو بلاتفریق مذہبی رسومات اور تہوار منانے کی آزادی ، کھانے پینے ، بول چال ، رہن سہن کی آزادی ، ہر شعبہ میں اپنی قابلیت کو ثابت کرنے کی آزادی ۔۔۔۔۔
ہندوستان کی عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہاں کس کو آزادی دی گئی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔
بلکہ ہمیں ہماری آزادی چاہئیے جو 75 سال گذر جانے کے باوجود ہمیں نہیں ملی، ہماری بچیان خواتین بغیر کسی ڈر خوف کے گھومنے پھرنے کی آزادی چاہتی ہیں، اعلی تعلیم حاصل کرنے کی آزادی چاہتی ہیں ، من چاہے لڑکے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی آزادی چاہتی ہین ۔۔۔۔۔ وہ آزادی چاہتی ہین دقیانوسی رسم و رواج سے ۔۔۔۔۔
نہ کہ افغان مین کیا ہوا پاکستان نے کیا کیا ہمین ان باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔۔۔
آج جو گودی میڈیا افغانی خواتین کے لیے پریشان ہے افسوس اُسے ہندوستان کی بیٹیوں کا درد کبھی نظر نہیں آیا ۔۔۔۔۔
ارے عام جنتا جانتی بھی نہیں کہ دنیا کے نقشہ پہ افغانستان ہے کہاں ؟ ان کے آگے افغانستان کا رونا رونے سے کیا ہندوستان کے مسائل کم ہوجائیں گے ؟ ……..
یہاں بیٹھ کر افغانستان میں ہوائی جہاز پہ لٹک کر مرنے والوں کی خبر میڈیا بتارہی ہے لیکن ہندوستانی عوام لوکل ٹرینوں میں جس طرح سے ٹھونسی جاتی ہین، جس کی وجہ سے آئے دن حادثات پیش آتے ہین اور کئی لوگ جان بحق ہوتے ہیں ، ان مرنے والے ہندوستانی مسافروں کی خبریں آخر کیوں نظر انداز کی جاتی ہیں ؟
، آج بھی کئی دیہاتوں میں لوگ بسوں کے اوپر نیچے لٹکتے ہوئے سفر کرنے پہ مجبور ہیں اُن کی تکلیف تو کبھی گودی میڈیا کو نظر نہیں آئی ؟
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 7 سالوں کے دوران ایک لاکھ پچیہتر ہزار لڑکیوں کی عصمت دری کے معاملات سامنے آئے ہیں اس کے علاوہ جہز اور گھریلو تشدد اور اندھ وشواس کے چلتے ہزاروں لاکھوں خواتین قتل کی جاتی ہیں لیکن بھارت کی ان بیٹیوں پہ رونے والا ان کے درد پہ ہمدردی کا مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
جبکہ افغانی خواتین اور بچوں کے درد سے یہ بلک رہے ہیں ۔۔۔۔۔
اور یہاں ہمارے کتنے ہی مسائل سر اٹھائے چیخ رہے ہیں باوجود ہمیں اوروں کا رونا رونے سے فرصت نہیں ہے ۔۔۔۔۔
ہمیں پہلے اپنے گھر میں شانتی اور خوشحالی چاہئیے ، پھر پڑوس کے گھر کی تانگ جھانک کریں گے ۔۔۔۔
جس دن ہمارے اپنے مسائل ختم ہوں گے ، جس دن ہمارے نوجوانوں کو گائے اور جئے شری رام کے نام پہ قتل کرنا بند کیا جائے گا ، ۔۔۔۔۔
جس دن دلتوں کے ساتھ بھید بھاؤ ختم ہوگا ، جس دن ہماری عدالتوں میں انصاف ہوگا ، جس دن ہمین ہمارے بنیادی حقوق دئے جائیں گے ، اُس دن ہم دوسروں پہ آنسو بہائیں گے ۔۔۔۔
جس دن ہمارے بچے اور بچیوں کو تعلیم ، روزگار، پیٹ بھر کھانا، بہتر علاج اور مکمل تحفظ ملے گا اُس دن ہم افغانیوں، پاکستانیوں اور دیگر ممالک کے بارے میں سوچیں گے ۔۔۔۔۔
فی الحال ملک کے موجودہ حالات کے مدنظر ہندوستانی میڈیا چینلس اور ہماری حکمران جماعت کو چاہئیے کہ وہ ِبھی پہلے اپنی عوام کی فکر کریں پھر دوسروں کے لئے ماتم کریں یا اُن کے خوابگاہوں کی رکھوالی کریں ۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی افغانستان اور افغانیوں کے بارے میں سوچنے کے لئے اُن کے حکمران موجود ہیں، ہم ہندوستانیوں کو زیادہ پریشان ہونے اور واویلا مچانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی عوام اور اُن کے مسائل پہ توجہ دینا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.