خود را فضیحت دیگراں را نصیحت 

 

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

تشبیہ و تمثیل ہر زبان میں تعبیر و تفہیم اور اظہار و بیان کا ایک موثر اور خوبصورت ذریعہ رہا ہے ،نیز ہر قسم کی مادی تعلیم و تربیت کی تکمیل تشبیہ و تمثیل سے ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی زبان اور لٹریچر خواہ وہ انسانی ہو یا آسمانی اس سے خالی نہ رہ سکا؛ کیونکہ ایسا ممکن نہیں تھا۔

مذہبی صحائف اور الہامی کتابوں میں جیسا کہ بتایا گیا اس طریقہِ اظہار کا کثرت سے استعمال ہوا ہے، جن حضرات نے بائبل یا اس کا ترجمہ دیکھا ہے ان کو خوب اندازہ ہوگا کہ بائبل میں تفہیم و تعبیر کا یہ اسلوب بہ کثرت استعمال ہوا ہے ۔ قرآن مجید میں بھی بہت سی باتیں متعدد مقامات پر مثال کے پیرائے میں کہی گئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوں کہ کار نبوت انجام دینا تھا، اس لئے آپ کو انسانی نفسیات کو سمجھنے اور مشکل سے مشکل بات کو مخاطب کی ذھنی سطح پر اتر کر سمجھانے کی خاص صلاحیت ودیعت کی گئی تھی، اسی کا مظہر حدیث میں ذکر کردہ مثالیں ہیں ۔ بعض اہل توفیق نے قرآن و حدیث کی ان تمثیلات و تشبیہات کو جمع بھی کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ قرآن مجید اور احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ذکر کردہ ان تشبیہات و استعارات اور تمثیلات کا ہم مطالعہ کریں اور اس کی گہرائی و گیرائی میں جاکر اپنے لئے درس حیات اور سامان عبرت تلاش کریں نیز قرآن مجید اور کلام نبوی کے اعجاز سے امت کو واقف کرائیں۔

ذیل میں ہم ایک حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ذکر کر رہے ہیں جو تمثیلی حدیث ہے اور جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واعظ بے عمل کو اس چراغ سے تشبیہ دی ہے جو اوروں کو تو روشنی دے اور اپنے آپ کو جلاتا رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مثل العالم الذی یعلم الناس الخیر و ینسی نفسه کمثل السراج یضیئی للناس و یحرق نفسه۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی ۲/ ۱۶۶ عن جندب عبد اللہ الازدری)

اس عالم کی مثال جو لوگوں کو خیر اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور خود کو فراموش کر جاتا ہے چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو روشنی پہونچاتا ہے اور خود کو جلاتا رہتا ہے۔

دین کا علم و فہم اور شریعت سے واقفیت بہت بڑی نعمت ہے ،یہ خدا کی طرف سے بہترین اور قیمتی انعام ہے ۔ جس کے ساتھ اللہ تعالی خیر اور بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے اسی کو دین کی سمجھ اور فہم بھی عطا کرتا ہے ،یاد رکھیے! علم نور ہے روشنی اور ہدایت ہے معرفت اور حکمت ہے، اس عظیم الشان نعمت کی حمد اور اس کا شکر یہ ہے کہ وہ خود کو اور لوگوں کو اس روشنی اور نور ومعرفت سے نفع پہنچائے ۔ علم سے لوگوں میں سب سے زیادہ نفع حاصل کرنے والا اور اس سے فائدہ اٹھانے والا وہ ہے جو علم سیکھے اس پر پہلے خود عمل کرے اور لوگوں میں اس کو عام کرے ،وہ دین کا داعی ،مبلغ اور رہنما بن جائے اور اللہ کے بندوں کے لئے اور پوری انسانیت کے لئے ایک روش چراغ کا کام دے ۔

جو اہل علم ،واعظ اور مقرر لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں نیکی کا درس دیتے ہیں اور تقوی و طہارت کی تلقین کرتے ہیں اور خود اس سلسلہ میں کوتاہی کرتے ہیں ، واعظ بے عمل کی مثال بنتے ہیں اور اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتے یعنی ۰۰خود را فضیحت دیگراں نصیحت ۰۰ تو ایسے لوگوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا، آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی،اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا اپنی چکی پر گردش کیا کرتا ہے ،جہنم میں ڈالے جانے والے اس کے قریب جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے اے فلاں! تمہاری کیا درگت بنی ،کیا تم ہمیں اچھے کام کرنے کے لئے نہیں کہتے تھے اور کیا تم ہمیں برے کاموں سے نہیں روکتے تھے اور غلط راہ چلنے سے منع نہیں کیا کرتے تھے، وہ شخص کہے گا ،جی ہاں ،میں تو تمہیں اچھے کاموں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا ۔ برے کاموں سے تمہیں روکتا اور منع کرتا تھا؛ لیکن میں خود کیا کرتا تھا۔ ( بخاری شریف کتاب بدء الخلق باب صفة النار و انھا مخلوقة)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچی سے کاٹے جا رہے ہیں تو ان کے متعلق حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے وہ واعظین اور مقررین و خطباء ہیں جو ایسی باتیں کہا کرتے تھے جس پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ ( مسند احمد ۳/ ۱۲۰ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہم سب کو عالم باعمل بنائے خود فراموش عالم نا بنائے کہ کہیں ہماری مثال اس چراغ کی سی نہ ہوجائے جو لوگوں کو روشنی پہونچاتا ہے اور خود کو جلاتا رہتا ہے۔

Comments are closed.