"قائداعظم محمد علی جناح”         

 

رمشا ظفر

دنیا میں عظیم انسان روز بروز پیدا نہیں ہوتے بلکہ عظیم لوگوں کی پیدائش کے لیے تاریخ کو برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ فطرت کا قانون ہے کہ جب ہر طرف ظلم کے پہرے ہوتے ہیں اور لوگ کسی نجات دہندہ کے لیے اپنی آنکھوں کے در وا کیے ہوتے ہیں تو ایسے میں رحمت الہی جوش میں آتی ہے اور ایک ایسا عظیم انسان جنم لیتا ہے کہ جس میں تمام تر قائدانہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح بھی انھی عظیم انسانوں میں سے ایک ہیں۔آپ کے والد کا نام پونجا جناح تھا اور ان کا اصل وطن تو راج کوٹ تھا لیکن کاروباری معاملات کی وجہ سے کراچی منتقل ہو گئے۔ان کا شمار کراچی کے مشہور تاجروں میں ہوتا تھا۔ پونجا جناح چمڑے کی تجارت کرتے تھے۔25دسمبر 1876کو ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام محم علی رکھا گیا۔کسی کو اس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ یہ بچہ ایک دن مسلمانوں کا عظیم رہنما بنے گا اور ان کو غلامی کے شکنجے سے نجات دلائے گا۔

محمد علی جناح جب چھ برس کے ہوئے تو آپ کی تعلیم کے لیے گھر پر ہی معلم رکھا گیا،جو آپ کو آپ کی مادری زبان گجراتی زبان میں تعلیم دیتا تھا۔دس برس کی عمر میں آپ کو سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کرادیا گیا، جہاں سے آپ نے 1892 میں میٹرک پاس کیا۔آپ بہت محنت اور لگن سے پڑھائی کرتے تھے۔آپ بہت ہی کم گو تھے لیکن آپ میں قائدانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ کے والد تو چایتے تھے کہ محمد علی جناح ان کے ساتھ مل کر کاروبار کریں مگر پونجا جناح کے ایک انگریز دوست نے مشورہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو بیرسٹری کے لیے انگلستان بھیج دیں۔چناں چہ آپ کو 1893 میں انگلستان بھیج دیا گیا۔جب آپ انگلستان کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ایک عورت جس کا تعلق آپ ہی کے خاندان سے تھا، وہ رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ:

"تم نہ روو، میں انگلستان سے بڑا آدمی بن کر آوں گا۔”

انگلستان میں آپ کے لیے یہ مسئلہ تھا کہ کس ادارے میں داخلہ لیا جائے۔آخر کار یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اور آپ نے ایک مشہور درس گاہ لنکنز ان میں داخلہ لے لیا اور اپنی تعلیم شروع کی۔

چناں چہ آپ نے دن رات محنت کی اور آخر کار آپ کی محنت رنگ لائی ور اپ نے بیرسٹری کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔آپ کو شروع سے ہی سیاست سے دلچسپی تھی۔آپ نے انگلستان میں پارلیمینٹ کے انتخابات میں ‘نوروجی’ کو کامیاب کرایا۔ آپ پارلیمینٹ میں جا کر عظیم سیاستدانوں کی تقاریر سنا کرتے تھے۔ان تمام چیزوں سے آپ کی شخصیت عمدہ سے عمدہ تر ہو رہی تھی۔

آپ کی شادی انگلستان جانے سے پہلے ہی کر دی گئی تھی۔ انگلستان کے قیام کے دوران آپ کے گھر کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ آپ کے والد کا کاروبار تباہ ہو چکا تھا۔آپ کی والدہ اور بیوی اس جہان فانی سے کوچ کر چکی تھیں۔

قائداعظم 1896 میں واپس آئے۔آپ نے کراچی میں پریکٹس کا آغاز کیا۔آپ نے پہلا مقدمہ اپنے والد کا لڑا جو آپ نے اپنی بصیرت سے جیت لیا۔کراچی میں آپ کی پریکٹس زیادہ نہ چلی۔آپ بمبئی چلے گئے، وہاں آپ کا شمار چوٹی کے وکیلوں میں ہونے لگا۔آپ نے بمبئی میں بطور مجسٹریٹ چھ ماہ فرائض انجام دیے۔آپ ایک صوبائی قانون دان،جوینٹ اولی نے پندرہ سو روپے ماہوار پر بطور جج کام کرنے کی پیش کش کی مگر آپ نے وہ پیش کش یہ کہہ کر رد کر دی کہ:

"میں جلد ہی اس قابل ہو جاوں گا کہ ایک دن میں پندرہ سو روپے کما سکوں۔”

یہ آپ کی بڑ نہ تھی بلکہ آپ نے یہ کر دکھایا۔اب آپ نے برصغیر کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔1885 میں کانگرس قائم ہوئی جو کہ ہندووں اور مسلمانوں کی جماعت ہونے کا دعوی کرتی تھی۔1906میں آپ نے کانگرس میں شمولیت اختیار کی۔آپ ہندووں اور مسلمانوں کو الگ الگ اقوام تصور کرتے تھے مگر اس کے باوجود بھی آپ نے ان دونوں کے اتحاد کی کوششیں کیں۔آپ نے بھرپور کوششیں کیں کہ ہندو اور مسلمان آپ میں دوستانہ تعلقات قائم کر لیں مگر کانگرس کے متعصبانہ رویے نے یہ نہ ہونے دیا۔اس لیے آپ کانگرس سے متنفر ہو گئے۔1905 میں بنگال کی تقسیم کا اعلان ہوا۔اس سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا۔ ہندووں اور گانگرس کو یہ بات بالکل نا پسند تھی اور انہوں نے پورے برصغیر میں فسادات پھیلا دیے۔ان فسادات کے پیش نظر برطانیہ نے 1911 میں اس تقسیم کو ختم کر دیا۔اس واقعے سے قائداعظم کو کانگرس کی اصلیت کا علم ہوا۔۔

1906میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا قیام ہوا،جس کا نام آل انڈیا مسلم لیگ تھا۔علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر کے اصرار پر ائداعظم نے1913 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔اس طرح آپ بیک وقت مسلم لیگ اور کانگرس کے رکن تھے۔اس طرح ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کرنا مزید آسان ہو گیا۔اس سلسلے کی کڑی ‘میثاق لکھنو’ ہے جو کہ 1916 میں ہوا۔اس معاہدے میں ہندووں نے پہلی مرتبہ مسلمانوں کو الگ قوم تصور کیا۔ان تمام خدمات کی وج سے آپ کو "ہندو مسلم اتحاد کا سفیر” کہا جانے لگا۔آپ کی عظمت کا اعتراف ہندو بھی کرتے تھے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہندووں نے بمبئی میں "جناح ہال” تعمیر کرایا۔

1928 میں نہرورپورٹ پیش کی گئی۔اس رپورٹ نے ہندووں کی اصلیت کو واضح کر دیا۔اس نے میثاق لکھنو کی دھجیاں اڑا دیں۔مسلمانوں کے سامنے ہندووں کامتعصبانہ رویہ عیاں ہو گیا۔

قائداعظم 1910 میں ہی کانگرس چھوڑ چکے تھے۔ جب نہرورپورٹ پیش کی گئی تواس وقت آپ انگلستان میں تھے۔آپ فورا واپس آئے اور برصغیر میں کئی جگہ جلسے منعقد کرائے۔آپ نے 1929 میں اپنے چودہ نکات پیش کیے۔ان نکات میں آپ نے برصغیر میں مختلف اصلاحات لانے اور مسلمانوں کے حقوق بازیاب کرانے کی کوشش کی۔آپ نے سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرنے کی تجویز پیش کی۔اس کے علاوہ آپ نے بہت سی اور اصلاحات پیش کیں۔آپ کے چودہ نکات نے برصغیر کے لیے دستوری ڈھانچہ مہیا کیا۔آپ نے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کا بیڑا سنبھال لیا۔

آپ دو قومی نظریہ کے زبردست حامی تھے۔آپ نے دوقومی نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا:

"ہندو اور مسلمان دو الگ اقوام ہیں۔دونوں کے عقائد،رزمیہ کہانیاں،ہیروز ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔لہذا دونوں قوموں کو ایک لڑی میں پرونے کا مقصد برصغیر کی تباہی ہے۔”

1931،1932،1933 میں ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں سے چند میں قائداعظم نے بھی شرکت کی مگر آپ کو مطلوبہ کامیابی نہ مل سکی۔ان کانفرنسوں کی ناکامی کی اہم وجہ گاندھی کا شاطرانہ رویہ تھا۔گول میز کانفرنسوں کی ناکامی کے بعد آپ مایوس ہو گئےاور آپ اگلستان میں ہی رک گئے۔

علامہ اقبال جانتے تھے کہ قائداعظم ہی وہ شخصیت ہیں جو مسلمانوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔لہذا آپ نے قائداعظم پر زور دیا کہ آپ واپس آکرمسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالیں۔علامہ اقبال ک اصرار پر قائد اعظم نے 1934 میں مسلم لیگ کی باگ ڈورسنبھالی۔ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے بعد آپ نے آزادی کی جدوجہد کو مزید ہوا دی۔آپ نے برصغیر میں مختلف جگہوں پر جلسے منعقد کروائے۔مسلمانوں کی آزادی کی تحریک پر ہندو بہت تلملائے مگر آپ کی بصیرت کے سامنے نہ ٹک سکے۔قائداعظم مسلمانوں کے لیے شبنم کی مانند تھےجب کہ آپ ہندووں اور انگریزوں کے لیے اک طوفان کی مانند تھے۔

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

23مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں قراردادپاکستان منظور ہوئی۔مسلمانوں کو آزادی کی کرن نظر آنے لگی اور برصغیر میں آزادی کی جدوجہد تیز سے تیز ہوتی چلی گئی۔ہندووں نے اس جدوجہد کو روکنے کی سر توڑ کوشش کی مگر یہ تحریک دب نہ سکی کیوں کہ آزادی کی جدوجہد میں اللہ تعالی کی مدد شامل ہو چکی تھی۔قائداعظم نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا تھا۔

آپ اس بات کو بخوبی سمجھ چکے تھے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں اور ان کو ایک لڑی میں پرویا نہیں جا سکتا۔اس لیے ضروری ہے کہ ایک الگ اسلامی ریاست قائم کی جائے جس میں مسلمان اپنی مذہبی روایات کے مطابق زندگیاں گزار سکیں۔ہندووں نے بھرپور کوشش کی کہ وہ پاکستان کو وجود میں آنے سے روکیں لیکن قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور بے لوث قیادت نے ہندووں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔قائداعظم محمد علی جناح کسی کے سامنے جھکنے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ مستقل مزاج اور ثابت قدم تھے اور ان کی تمام تر کوششیں ذاتی مفاد سے بالاتر تھٰیں۔آپ نے مسلم قوم کو اس وقت یکجا کیا جب وہ منتشر اور مشکل حالات کا شکار تھی۔وہ حقیقی معنوں میں مرد میدان تھے۔وہ کسی کے دباو میں آنے والے نہیں تھے۔انھوں نے اپنی بے پایاں کوششوں سے علامہ اقبال کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔

پوری قوم کی نظریں قائداعظم پر لگی ہوئی تھیں۔قائداعظم نے بھی پاکستان بنانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔چناں چہ3جون 1947کو برطانوی حکومت نے برصغیر کی تقسیم کا اعلان کر دیا۔آخر کار قائداعظم کی جدوجہد رنگ لائی اور14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔یہ رمضان المبارک کی ایک مبارک رات تھی۔تمام مسلمانوں نے آزادی کی سانس لی۔

آپ کو بچپن سے ہی بڑا آدمی بننے کا شوق تھا۔شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوکہ ایک اسلامی ریاست کو تشکیل دے کر ان کو قائد اعظم کا خطاب مل جائے گا۔ایک دفعہ آپ اپنے ایک موکل کے مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے تو مجسٹریٹ نے ان سے چند سوالات کیے تو آپ نے تمام سوالات کے جوابات بڑی بےباکی اور دلائل سے دیے۔ان کا یہ انداز مجسٹریٹ کو پسند نہ آیا۔مجسٹریٹ نے کہا:

"محمد علی جناح آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ آپ ایک تیسرے درجے کے مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں۔”

محمد علی جناح میں نے جواب میں کہا:

"جناب عالی! میں اپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ بھی ایک تیسرے درجے کے وکیل سے مخاطب نہیں ہیں۔”

جب پاکستان بن گیا تو اس نو زائیدہ مملکت کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا اور قائداعظم نے یہ کام بہت احسن طریقے سے انجام دیا۔انھوں نے ہندوستان سے آئے ہوئے لٹے پٹے مہاجرین کے لیے رہائش،خوراک اور علاج کا بندوبست بڑی خوبی سے کیا۔آپ بہت زیرک اور دور اندیش تھے۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ساری زندگی انگریزون اور ہندووں کی غلامی میں نہ گزاریں۔وہ مسلمانوں کو آزادی اور زندگی کے ہر میدان میں کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔

پاکستان کے قیام کے بعدآپ کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بنایا گی۔ آپ نے ملکی مسائل کو احسن طریقے سے سلجھایا، جس سے پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہو گیا۔آپ کو موذی مرض ٹی بی نے بہت کمزور کر دیا تھا۔ایک پارسی ڈاکٹرسے آپ علاج کروا رہے تھے۔اس نے آپ کو بتایا کہ ان کے پپھپھڑے مکمل طور پر دق کا شکار ہو چکے ہیں۔آپ نے اس سے کہا کہ آئندہ اس بیماری کا ذکر نہ کیجیے گا اور نہ کسی کو میرے ایکسرے دکھایے گا۔آپ ملک کی بہتری کے لیے ہمہ تن کوششیں کرتے رہے۔ جب ان کا جسم اور دماغ تھکن سے چور ہوتا تو اس وقت بھی اہم فائلوں کے مطالعے میں مصروف رہتے۔

قائداعظم محمد علی جناح بچپن سے ہی اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھآنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے۔انہوں نے لنکنزان کالج میں صرف اس وجہ سے داخلہ لیا تھا کہ اس کالج کی آئیڈیل شخصیات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک شامل تھا۔انہوں نے اپنے خطابات میں چودہ سے زائد مرتبہ خلفائے راشدین کی نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ اسے پاکستان میں نافذ کرنے کے عزم کا اظہار بھی فرمایا۔ایک موقع پر کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ:

"اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسلام سے نکال دیا جائے تو پھر اسلام کے پاس کیا رہ جائے گا؟”

اس کے علاوہ انہوں نے کئی ایسے سیمینار میں شرکت کی اور بیان بھی فرمایا،جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان اقدس کے موضوع پر منعقد کیے گئےتھے۔قائداعظم نے رتن بائی کے ساتھ شادی کے موقع پر اس کے مسلمان ہونے کی شرط لگائی تھی۔ قائداعظم رتن بائی کو جمعیت علمائے پاکستان کے راہنما مولانا شاہ احمد نورانی کے حقیقی تایاجان،مولانا نذیر احمد صدیقی کے پاس لے گئے، جنھوں نے رتن بائی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اور قائداعظم کے ساتھ نکاح پڑھایا۔رتن بائی سے ان کی ایک بیٹی تینا جناح تھی جس کا 2017 میں انتقال ہوا۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کے ہاتھوں پہلا جھنڈا لہرانے کو ترجیح دی۔

آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں وصیت فرمائی کہ:

"میرا جنازہ جید عالم دین علامہ شبیر عثمانی پڑھائیں۔”

آپ نے پاکستان کی ترقی کے لیے سخت محنت کی جس کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہو گئی اور مسلمانوں کے اس لیڈر اور محسن کو11 ستمبر 1948 کو اپنے خالق حقیقی کی طرف سے بلاوا آگیا اور وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

ان کی وفات پر ہر پاکستانی سوگوار تھا۔ان کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ ملک کے جید عالم مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ان کی ناز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور انھیں کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

قائداعظم نے اپنے ملک کے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ اس ملک کی دل و جان سے حفاظت کریں اور اس کی ترقی اور بلندی کے لیے کوشاں رہیں۔

Comments are closed.