ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند اور پھلت کاسفر ( قسط3)

مفتی محمداشرف قاسمی

(مہدپور،اُجین،ایم پی)

خادم الاسلام ہاپوڑ میں داخلہ کی کارروائی

شام کو مغرب کے بعد ہم لوگ بذریعہ بس علیگڑھ سے دوبارہ ہاپوڑ آگئے۔
یہاں حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات ہوگئی، اولاً انھوں نے داخلہ سے منع کردیا۔ لیکن ہم نے بتایا کہ آپ کے مدرسہ کے فلاں مدرس نے بتایا تھا کہ داخلہ ہوگیا ہے۔ اس لیے اتنی دور سے ہم سامان وغیرہ لاد کر یہاں آئے ہیں۔
نیز اپنے تعارف کے لیے میں نے اپنے تین رسالے موصوف کو پیش کیا،پھرمہتمم صاحب نے صبح (شبنہ کو) کارروائی کی امید دلائی۔
صبح نمازفجر کے بعد ہم لوگ سوگئے،اورجب دروس شروع ہوئے، اس وقت ہماری نیند کھلی۔
پیرئیڈ ختم ہونے کے بعد آفس میں مہتمم صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے درخواست فارم برائے داخلہ پردستخط کرکے دفتر تعلیمات میں ہمیں بھیجا،ہم وہاں پہونچے وہاں سے کسی دوسرے مدرس کے پاس بچے کو امتحان کے لیے بھیجا گیا۔
امتحان کے بعدداخلہ فارم ملا۔ اور داخلہ کی کارروائی مکمل ہوئی۔
یہاں تک کی کارروائی کے بعد طبیعت مطمئن ہوئی۔
ہم یہاں کسی بھی شخص کو نہیں پہچانتے تھے، اس لیے یہاں تک کی کارروائی کےلیے شاید سرکاری آفس کی طرح ہمیں اِدھراُدھر دوڑناپڑا۔
اس کے بعد مفتی محمدارشد فاروقی کے ذریعہ بتائے گئے مفتی محمد مقصود صاحب سے ملاقات کے لیے میں نے واچمین سے معلوم کیا، توواچمین نے بتایا کہ:”وہ سامنے سبق پڑھا رہے ہیں۔”
ہم جاکر موصوف کی درسگاہ میں بیٹھ گئے، درس سے فراغت کے بعد علیک سلیک ہوا۔ اور پھر میں نے مفتی محمدارشد فاروقی صاحب سے موصوف کی فون پر بات کرائی۔ دونوں رفقاء نے خوش مزاجی سے ہاہم گفتگو کی۔ اور شاید مفتی محمد ارشد فاروقی صاحب نے میرا مناسب تعارف کرادیا، جس کی وجہ سے موصوف نے کافی توجہ فرمائی۔ اور ہمیں چائےنوشی کےلیے کہا۔ میں نے جواباعرض کیا کہ:”اگر آپ کے دروس یا نظام میں خلل نہ ہوتومیں آپ کی چائے پینا چاہتا ہوں۔”
جواب دیا کہ:”نہیں!میرے کسی نظام میں کوئی خلل نہیں ہوگا”۔ پھر ایک صاف ستھرے بڑے روم میں لے گئے جہاں ایک حصے میں ڈبل بیڈ پلنگ اور ایک ایل کی شکل میں صوفہ لگا ہوا سامنے خوبصورت مستطیل میز تھا۔
صوفے پر اپنے بغل میں ہم لوگوں کو بیٹھایا، بعد میں دوسرے مہمان و زائرین بھی حاضر ہوئے جو فرشی قالین پر بیٹھے۔
ایک عمردراز بزرگ عالم بھی5سے 10منٹ کے لیے حاضر ہوئے۔جن کے بارے میں مفتی صاحب نے بتایا کہ:” ان کو کئی بزرگوں سے اجازت حاصل ہے.”
تمام حاضرین و زائرین کو کھجوریں پیش ہوئیں اورپھر چائے۔ دوسرے مہمانوں سے فراغت کے بعد ہم لوگوں سے بڑی ہمدردانہ ومشفقانہ باتیں کیں۔ بچے کی رہائش و معاونت کے لیے ایک دوسرے طالب علم کو تاکید کی۔
نیزبچے کو کچھ نصیحتیں کیں۔ جن میں ایک بات یہ بھی تھی کہ یہاں بڑا فون رکھنے کی ممانعت ہے، چھوٹا فون رکھ سکتے ہیں۔
طلباء مدارس کے لیے بڑے فون پرپابندی کومناسب فیصلہ قرار دیتے ہوئےبطور مزاح میں نے کہا کہ:” یہ
موبائل میں میری تحریروں وفتاواجات کی ترتیب وپروف ریڈنگ کرتا ہے۔ میرا کام رُک جائے گا۔” تو جواب دیاکہ:”یہ سب کام فراغت کے بعد کرلیں گے۔ ابھی مناسب نہیں ہے۔”
یہاں طبیعت بہت خوش ہوئی۔ میرٹھ سے دیوبند کے لیے چار بجے ہماری ٹرین تھی۔ موصوف نے میرٹھ میں مفتی محمد ثاقب صاحب کو فون کرکے اطلاع دی کہ:دو مہمان میرٹھ سے دیوبند جارہے ہیں،انھیں وہاں کھانے سے فارغ کرکے ٹرین پر بیٹھا دینا”۔پھر سلام و دعا کے بعد ہم لوگ بذریعہ بس میرٹھ روانہ ہوگئے۔
میرٹھ پہونچنے میں تاخیر ہوگئی، ٹرین چھوٹنے کا اندیشہ تھا، اس لیے مفتی محمد ثاقب صاحب نے کھانا پیک کرادیا، اور بالکل مختصر ملاقات کے بعد فورا بذریعہ رکشہ اسٹیشن کارُخ کیا۔ خیریت یہ رہی کہ ٹرین پندرہ/بیس منٹ مؤخر ہوگئی۔ ورنہ یقیناًچھوٹ جاتی۔
ہم لوگ عصر سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں پہونچ گیے۔

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.