ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند اور پھلت کاسفر( قسط 4)

مفتی محمداشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

*حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی خدمت میں حاضری*

13/اگست کو تقریباً ساڑھے تین بجے میرٹھ میں مفتی محمد ثاقب صاحب کی مسجد میں انفرادی طور پرظہر کی نماز ادا کرکے ہم بذریعہ ٹرین دیوبند نکلے اور قُبیل عصر دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں پہونچ گئے۔
ڈاکٹرمحمد اسرائیل صاحب قاسمی کو اپنی سند نکلوانی تھی، غسل وغیرہ میں مصروف ہونے کی صورت میں آفس بند ہوجانےکے اندیشہ سے وضو کرکے ہم دفترِ تعلیمات میں حاضر ہوئے، وہاں سے مسجد رشید میں گئے ، اور پروگرام یہ بنا کہ بعد عصرحضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم ( مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی زیارت و مولاقات کےلیے آپ کی مجلس میں ہم حاضرہوں۔
دیوبند ریلوے اسٹیشن سے میں نے اپنے مشفق ومکرم حضرت مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی فیض آبادی(مبلغ دارالعلوم دیوبند) کوفون لگا تھا، لیکن موصوف کی طرف سے فون ریسیو نہیں ہوسکاتھا۔ عصر کی نماز کے بعد حضرت والا کا فون آیا۔ تو میں نے اپنی آمد اور بر وقت مہتمم صاحب کی زیارت کے ارادہ کو بتلایا۔ مولانا بولے:”فوراً مسجد قدیم میں آجاؤ! چلو میں حضرت مہتمم صاحب سے تمہاری ملاقات کراتا ہوں۔”مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بہتر انداز میں حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات ہوگی۔
حضرت مہتمم صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے فوراً مہمان خانہ میں جاکر میں اپنے تین رسالے (1)
اسلامک بینکنگ ( یہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کابیان ہے، جسے بندہ نے مرتب کرکے مجدد الف ثانی اکیڈمی مہدپور، اُجین سے شائع کرایا ہے)۔
(2)فتنۂ ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں۔
(3) غیربرادری میں شادی کو فروغ دیاجائے۔
لے کر مسجد قدیم میں حاضر ہوگیا۔ وہاں حضرت مولانا ارشد صاحب قاسمی کے صاحبزادے مفتی محمد اسجد قاسمی (جوکہ مراد آباد کےکسی مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں)،مفتی محمد اسلام صاحب قاسمی پرتاب گڑھی ( آپ بھیونڈی میں خدمات انجام دیتے ہیں، اور کئی سالوں تک مرادآباد میں ایک مدرسہ کے ناظم رہے ہیں۔) نیز کچھ دوسرے لوگوں نے بڑے پُرتپاک انداز میں بندہ سے معانقہ ومصافحہ کیا۔ مفتی محمد اسجد صاحب نے کہا کہ سوشل میڈیا پر آپ کی تحریریں دیکھتا رہتا ہوں۔ ماشاء اللہ۔
ہم پانچ چھ لوگ حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کی خدمت میں روانہ ہوگئے۔ باب قاسم کے اوپر دارالافتاء کے بغل والے روم میں حضرت کی مجلس لگتی ہے۔
وہاں پوراروم پہلےہی حاضرین سے مملوء تھا۔ کسی طرح جگہ ملی۔ کسی کے ملفوظات پڑھ کرسنائےجارہے تھے۔ ملفوظات کی ریڈنگ کا سلسلہ جب مکمل ہوا تو حضرت مہتمم صاحب نے کہا کہ کوئی مہمان ہیں؟
مجھے امید نہیں تھی کہ علماء کی کہکشاں کے درمیان حضرت والا سے اتنے اہتمام سے میری ملاقات ہوگی، سفر کی تکان اور ریفرش ہونے کا موقع نہ مل سکنے کی وجہ سے میری وضع ولباس کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ اس موقع پر مجھے احسان دانش کی وہ کیفیت یاد آگئی جواقبال کے یہاں حاضری کے موقع پر انھوں نے اپنے بارے میں بیان کیا ہے۔ اپنی سُبکی وخفت کی پردہ پوشی کے لیے میں نے ڈاکٹر محمد اسرائیل صاحب قاسمی کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا ، لیکن کچھ نگاہیں بندہ پرٹکی ہوئی تھیں۔آخر میں میں بھی کھڑا ہوگیا۔ توکچھ پھسپھساہٹ سنائی پڑی کہ: یہ مفتی اشرف ہیں”.
پھر میرے اور سامنے موجودشرکاء مجلس نے مجھے حضرت مہتمم صاحب کے گدے تک پہونچادیا۔حضرت والا سے سلام مصافحہ کے بعد میں نے اپنے تینوں رسالے حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے بول بول کر تینوں کے نام پڑھے اور نیچے میرے نام کے ساتھ جیسے لفظ اُجین پر نظر ڈالی تو ہماری ایک ڈیڑھ سال قبل کی ایک تحریر کا حوالہ دے کر فرمایا "اچھا آپ وہی مفتی اشرف ہیں،اُجین سے؟” میں تذبذب میں پڑگیا،پھرجس تحریر کے حوالے سے حضرت والانے مجھے پہچانا، اس کے تعلق سے میں نےمختصراًاپنی بات حضرت کی خدمت میں رکھی۔
میرے رسالوں کے سلسلے میں فرمایا کہ: "مختصر رسالے پڑھنے کارواج زیادہ ہے، اس لیے اس طرح رسائل شائع کرانے کی ضرورت ہے”، رسالوں کو اندر کھول کر دیکھا تو فرمایاکہ:”سلسلۂ مطبوعات بھی لکھنا چاہئے، تاکہ جملہ مطبوعہ رسالوں کی تعداد معلوم کرنے میں سہولت ہو”۔
میری طرف سے حضرت مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے کہا کہ:”حضرت ان کی کتابوں کی طباعت کا مستقل کوئی نظام بن جائے، اسی لیے یہاں آئے ہیں، میں کچھ مطابع سے بات کروں گا۔ اور اب ان شاء اللہ سلسلۂ مطبوعات لکھنے کا اہتمام بھی ہوگا”۔
"اسلامک بیکنگ” کےسلسلہ میں مہتمم صاحب نے فرمایا کہ:
"اپنے طور پر مستقل غیرسودی کاروبار شروع کرنے کے بجائے پہلے سے اس میدان میں کام کرنے والوں کے تجربات کو سامنے رکھ کر اقدام کرنا چاہئے۔ ورنہ نتائج بہتر نہیں حاصل ہوتے ہیں۔ خود میں نے اس قسم کا معاملہ شروع کیا تھا، اور مالیات کی ذمہ داری دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔نقصان ہوا تو میں نے اپنی جیب سے 5/لاکھ روپیہ اداکیا، چونکہ مالیات اپنے ہاتھ میں نہیں تھی، اس لیے تہمت سے محفوظ رہا، لیکن نقصان ہوا، اور اسلامی بینک کی بدنامی بھی ہوئی”۔
آخر میں حضرت مہتمم صاحب نے میری علمی ترقی اورخوبی وکمال کے لیے دعائیں دیں۔میں اور میرے کرمافرماں آپ کی دعاؤں پردل ہی دل میں آمین کہتے رہے۔
حضرت کی یہ دعائیں میری دنیا وآخرت کی صلاح وفلاح کےلیے شہہ کلید ہیں۔
حضرت مہتمم صاحب دام ظلہ العالی سے اس قدر ایمان افروز وپرسکون ماحول میں ملاقات کی ذرہ برابر بھی مجھے امید نہیں تھی۔ خیال تھا کہ حضرت کے دربار میں کہیں پیچھے بیٹھ کرحضرت کی زیارت کرلوں گا۔
اس عمدہ واحسںن ملاقات میں میرے مشفق ومکرم حضرت مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی فیض آبادی دامت برکاتہم کی خصوصی توجہ رہی۔

جاری۔۔۔

Comments are closed.