ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند اور پھلت کاسفر( قسط 5)

مفتی محمد اشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

*دیوبند کی گلیوں میں

نماز مغرب کے بعد غسل وغیرہ کرکے اپنی کتابوں کی طباعت کے سلسلے میں بات کرنے کے لیے حضرت مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی دامت برکاتہم کی معیت میں بازارک طرف نکلے،تواولاً مہمان خانہ کے نیچے بیسڈ مینٹ میں یہاں کی مشہور جلیبی سے ہماری میزبانی ہوئی۔ اور پھرجیسا کہ اُردوداں دیندار طبقے کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ اُردو کتب کی یہاں ایشاء کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں کتب خانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ہم لوگ کتب نعیمیہ اور کتب خانہ حسینیہ میں حاضر ہوئے۔ (حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی علیہ الرحمہ کے اہلِ خانہ
کتب خانہ حسینیہ کے مالک ہیں)
عشاء تک کا وقت ان دوکتب خانوں میں صرف ہوگیا۔ عشاء کی نماز ادا کرنے بعد کھانےوغیرہ سے فارغ ہوکر سونے کا پروگرام بنایا گیا۔
عصرسے قبل ایک ہال میں رہنے کےلیے ہمارے بیگ رکھوائے گئے تھے،اُس وقت ڈاکٹر محمد اسرائیل صاحب قاسمی نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر ہمیں سپریٹ روم مل جاتا تو بہتر تھا۔سپریٹ روم میں لکھنے و پڑھنے میں سہولت کی پیش نظر میری بھی یہی خواہش تھی، لیکن میں ملازمین سے اس سلسلے میں کچھ نہیں بول سکا۔ مہمان خانہ کے ملازم نے حضرت مہتمم صاحب کے پاس چائے پیش کرتے وقت اور حضرت مولانامحمد ارشدصاحب فیض آبادی کی معیت میں ہمیں دیکھنے کے بعد خود ہی پلنگ والے دو سِٹا حجرے میں ہمیں منتقل کردیا۔ عشاء کے بعد ہم لوگ سکون سے وہاں سوگئے۔
مالوہ کی بہ نسبت وہاں گرمی زیادہ تھی،نیز کھانے پینے میں بداحتیاطی ہوئی تھی۔ اس لیے تکان کے باوجود رات میں تھوڑی دیر کے بعد میری نیند کھل گئی،اور پوری رات نہیں سوسکا۔ اذانِ فجر کے بعد اپنے حجرہ ہی میں سنتِ فجر ادا کرکے مسجدِ چھتہ میں فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے ہم نکلے تو وہاں مسجد میں نمازیوں کی تعدادبہت کم دیکھ کر خیال ہوا کہ اس مسجد میں شاید تاخیر سے جماعت ہوگی، اس لیے ہم مسجدِ قدیم میں آ گئے۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں سحری کا وقت ختم ہوتے ہی اذانِ فجر ہوجاتی ہے اور جماعت اسفار میں اداکی جاتی ہے۔اس لیے اذان اورجماعت کے درمیان کافی وقفہ رہتا ہے۔ آنکھیں بند کرکے ہم مسجد قدیم کے صحن میں بیٹھے رہے، اور پھر باجماعت نماز ادا کرنے کے بعدبھی مسجد میں رُ کے رہے،اوراشراق کی نماز مسجد قدیم میں ادا کرنے کے بعد مزار قاسمی کی طرف فاتحہ خوانی کے لیے روانہ ہوئے، ارادہ یہ تھاکہ یہاں سے واپس ہوکر میں ایک گھنٹہ تک نیند نکالوں گا۔ اور پھر لکھنے پڑھنے میں مصروف ہوجاؤں گا۔
لیکن مزار قاسمی سے واپسی کے بعد حضرت مولانامحمد ارشد صاحب قاسمی کے صاحبزادے مفتی محمد اسجد صاحب قاسمی، اور مفتی محمد اسلم صاحب قاسمی پرتابگڑھی( بھونڈی) نے ہمارے حجرہ میں حاضر ہوکر ہمیں اپنی ملاقات کی سعادت بخشی۔ چائے وناشتے کاانتظام کرایا۔ مختلف موضوعات کے علاوہ دینی نہج پر کوچنگ سینٹرس اوراسکولس کی اہمیت وافادیت اور ان کے قیام کے موضوع پر بندہ نے اپنا گھسا پٹا لیکن بہت اہم سبق ان لوگوں کو مکرر و سہ کررسنایا۔ اسکولس کے قیام مین دشواری اور کوچنگ سینٹرس کے قیام کی سہولیات کے بارے میں گفتگو کی۔ دونوں حضرات خاص طور سے مفتی محمد اسلم صاحب قاسمی کوچنگ سینٹر کے قیام کے لیے پوری طرح تیارہوگئے۔ ان حضرات سے بامقصد وبے مقصد موضوعات پر تقریبا9/بجے تک گفتگو ہوتی رہی۔ اور دبی آواز میں میں رات میں اپنی بے خوابی کا بھی میں تذکرہ کرتا رہا۔ اسی اثنا حضرت مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی بھی تشریف لے آئے اور دیوبند کی مشہور تہڑی منگوائی، تہڑی سے فراغت کے بعد پھر حضرت والا کی نصائح ثمینہ سے ہم تقریباً گیارہ بجے تک مستفید ہوتے رہے۔ اورتقریباساڑھے دس بجے حضرت مولانا حافظ وقاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ ( یہ نابینا تھے۔لیکن جید الاستعداد عالم،اربع عشر کے ماہرقاری، اور کتب خانہ نعمانیہ کے مالک تھے۔ بچپن میں سورداس کے دویے اور زندگی پڑھ کر سورداس کی قابلیت کانقش میرے ذہن میں بیٹھ گیا تھا۔ سورداس یعنی نابینا کی شاعری ودوہا نگاری پرمیں بہت تعجب تھا، لیکن جب میں نے فیض آباد میں حضرت قاری صاحب کی زیارت کی، تو سورداس کی عظمت میرے دل ودماغ سے نکل گئی، پھر حضرت قاری محمد اسماعیل صاحب مدظلہ العالی[ریاض العلوم، گورینی، جونپور]کے پاس امام القراء علامہ شاطبیؒ کا قصیدہ لامیہ اور قصیدہ رائیہ وغیرہ پڑھنے کے بعد سورداس کی عظمت دل سے بالکل نکل گئی۔ مرحوم) کے صاحبزادے حافظ محمد بھی تشریف لے آئے۔(جوکہ اِس وقت ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں)انھوں نے بھی میری کافی ہمت افزائی کی۔ مہمان خانہ کے انچارج صاحب نے بھی ہمارے ساتھ بڑی محبت شفقت کامعاملہ فرمایا۔ ہمیں 10/بجے کے بعد کتب خانہ نعیمیہ جاکر کچھ کتابیں پیک کرانی تھیں،حضرت مولانا محمد ارشد صاحب کواس کاعلم تھا، اس لیے11/بجے کے بعد ہم لوگوں کو وہاں روانہ کردیا۔ بازار میں پہونچنے کے بعد معلوم ہوا کہ 15/اگست کی وجہ سے پورا بازار بالکل ہے۔ میں نے 15/اگست سے متعلق اپنے ملک کی خبریں دیکھنے وسننے کے لیے موبائل آن کیا تو پتہ چلا کہ میرے سم کا ٹاپ اپ ختم ہوچکاہے، اس لیے نہ کہیں فون لگ سکتا ہے اور نہ نیٹ سے استفادہ کرسکتاہوں،کوئی دُکان بھی کھلی نہیں نظر آرہی تھی، جہاں سے اپنا موبائل ریچارج کر اسکوں، کتب خانہ پر پہونچنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بھی بند ہے۔ لیکن عقبی دراوزہ کھلا ہے ہم عقبی دروازے سے کتب خانہ میں داخل ہوئے، اورکتابیں پیک کرانے کے بعد جب مہمان خانہ واپس آئے تو ظہر کا وقت ہوچکا تھا۔ نماز ظہر سے فارغ ہوتے ہی مہمان خانہ کے ملازم نے کھانے کا دسترخوان لگادیا، کھانے سے فراغت کے بعد آرام کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ڈاکٹر محمد اسرائیل صاحب قاسمی تو فوراً سوگئے۔ اور میں بھی دراز ہوگیا۔ لیکن تھوڑی دیر لیٹنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ نیند نہیں آرہی ہے، اس بے خوابی کو غنیمت سمجھ کر اندر سےدروازہ بند کر لیا اور پھر یکسوئی کےساتھ مولانا محمد نوشاد صاحب قاسمی کے مقالات کے لیے کلماتِ تشجیع لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ دو ڈھائی بجے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو معلوم ہوا کہ حضرت مولانامحمد ارشد صاحب قاسمی ہیں۔اس وقت حجرہ میں حضرت کی آمدپر طبیعت کافی خوش ہوئی،لیکن ڈاکٹر صاحب کی خواب استراحت اور اپنے مضمون نویسی کی مصروفیت کے بارے میں بتلایا تو بڑی شفقت کے ساتھ مجھے بھی آرام کرنے کی نصیحت فرماکر واپس ہوگئے۔اور پھر دروازہ بند کرکے میں کلماتِ تشجیع لکھنے میں مصروف ہو گیا، تین بجے کے بعد حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مدظلہ(مہتمم:دارالعلوم وقف،دیوبند) اور مفتی محمدارشد صاحب فاروقی سے ملاقات کی ترتیب تھی۔ لیکن میری تحریر مکمل ہونے کے بعد میں بھی موبائل میں ساڑھے تین بجے کی بل لگا کرسوگیا۔

جاری۔۔۔ ۔۔

Comments are closed.