جنت میں رشتے دار بھی ساتھ ہوں گے!!

محمد صابر حسین ندوی
رشتوں کی ڈور بہت باریک ہوتی ہے، مگر یہی باریک ڈور پورے خاندان، معاشرہ اور اجتماعی زندگی کی جان ہوتی ہے، اگر رشتے کی یہ ڈور توڑ دی جائے تو پھر ایسا ہی ہے جیسے کہ تسبیح کے دانے بکھر جائیں، ہر فرد تنہا ہوجاتا ہے، کسی درخت سے کٹی شاخ کے مثل بن جاتا ہے، وہ سوکھ کر اپنا وجود کھونے لگتا ہے، رشتوں کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں اس کا خوب تذکرہ کیا گیا، اسے تعارف، میل ملاپ، شناسائی اور محبت و انسیت کا مرکز بتایا گیا ہے، اللہ تعالی گویا خاندان اور معاشرے کو بنا کر دنیا کو ایک جسم بنا دیا ہے؛ جس میں کسی ایک حصہ کو اگر کوئی تکلیف محسوس ہو تو دوسرا حصہ بھی اس کا ہوبہو احساس کرے، اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ قرآن مجید نے اہل ایمان رشتے داروں کو ایک جگہ جمع کرنے کی بشارت سنائی ہے، وہ جنت جہاں صرف اللہ تعالی کی مرضی، خوشنودی کے اسباب ہوں گے، جس میں انسان کیلئے راحت رسانی، اطمینان قلبی اور سکون کے عوامل کو چُن چُن کر رکھ دیا جائے گا، نعمتیں ہوں گی اور آسائشیں ہوں گی، ان آسائشوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان کے رشتے دار بھی شریک ہوں گے، ایک آیت میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕ کُلُّ امْرِیًٔۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ (طور:٢١) "اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلتی رہی ، ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ کردیں گے ، اورہم ان کے اعمال میں سے ذرا بھی کمی نہیں کریں گے ، ہر آدمی اپنے کئے ہوئے عمل کے بدلے گروی ہے۔” استاذ گرامی قدر فقیہ عصر اس آیت کے ذیل میں رقمطراز ہیں: انسان کو اس بات سے بھی خوشی ہوتی ہے کہ اس کے بچے اور اس کے خاندان کے لوگ اس کے ساتھ رہیں ؛ لیکن جنت میں داخل ہونے کے لئے مسلمان ہونا بھی ضروری ہے ؛ اس لئے مسلمانوں کے غیر مسلم رشتہ داروں کو تو جنت میں جگہ نہیں ملے گی ؛ مگر جو مسلمان رشتہ دار ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے ساتھ کردیں گے ، یہاں تک کہ اگر ان کے عمل کچھ کم بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ عدل کا معاملہ کرنے کے بجائے فضل کا معاملہ کرتے ہوئے انھیں جنت میں داخل کردیں گے ، اور ایسا بھی نہ ہوگا کہ ان کے اعمال کی کمی ان نیک لوگوں کے عمل سے پوری کی جائے ، جن کے ساتھ ان کے رہنے کا انتظام کیا جائے گا ؛ بلکہ ان کے عمل میں کمی کئے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انھیں اونچا مقام عطا فرمادیں گے ؛ البتہ ایمان نہ لانے والے لوگ جنت میں اس لئے داخل نہ کئے جاسکیں گے کہ اس معاملہ میں ہر شخص کے ساتھ اسی کے عمل کے لحاظ سے معاملہ کیا جائے گا ، ایک کا ایمان دوسرے کے کام میں نہیں آئے گا ، اس مضمون کی وضاحت حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جنت میں مومنوں کے خاندان کو درجہ کی ترقی دے کر ان کےساتھ پہنچادیں گے ، چاہے خود ان کا عمل اس لائق نہ ہو ؛ تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں : ’ إن اللّٰه لیرفع ذریۃ المؤمن معہ فی درجتہ فی الجنۃ‘ ۔ (مستدرک حاکم ، کتاب التفسیر ، باب تفسیر سورۃ الطور : ۳۷۴۴)
مگر رہ رہ کر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہی وہ رشتے دار ہیں جو اپنے خون کو ہی بے چین کرنے پر تلے رہتے ہیں، شب و روز کی دشمنی، جھگڑے، لڑائیاں اور قصے جزو لاینفک ہیں، بعضوں کی سازشیں اس قدر عروج پر ہوتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو قتل تک کر بیٹھتے ہیں، اگر وہ قتل نہ کرسکیں تو ان کی زندگی ایسی کر دیتے ہیں کہ وہ جینا بھول جایے، زندگی کی راحت اور انسانیت کے معنی اسے سمجھ نہ آئے، بالخصوص زمین جائیداد کا مسئلہ ہو تو وہ ایک دوسرے کا خون پینے اور بوٹی بوٹی نوچ ڈالنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، ملنا جلنا یقیناً ہوتا ہے؛ لیکن وہ سب صرف رسمی اور معاشرتی دباؤ کا چربہ ہوتا ہے، پیٹھ پیچھے ایک پوری ٹولی کام کرتی ہے، جو خاندان کا امن و سکون چھین کر مرغ بسمل بنا دینے کے درپے ہوتی ہے، شاید کچھ ہی خاندان ہوں گے جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ باہم شیر و شکر ہیں، ہندوستان میں بعض اہل بیت سے متعلق خاندان کے تعلق سے یہی سنا اور سمجھا جاتا تھا، مگر عرصہ ہوا کہ یہ سب قصہ پارینہ بن گئیں، اب تو راز کھلتے ہی جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سازشوں کی ایسی پرت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی، یہ ہر خاندان کی داستان ہے، پھر بھی قرآن مجید میں جنت الفردوس کے اندر انہیں جمع کرنے کی بات کہی گئی ہے، یہ عجیب کشمکش ہے کہ جہاں روح کو سکون ملتا ہو وہاں بھی رشتے دار نظر آجائیں تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب خود قرآن مجید سے مل جاتا ہے، ایک آیت میں اللہ تعالی نے اصولی طور پر بات کہہ دی ہے؛ کہ جنت میں بھیجنے سے پہلے سبھوں کے دل سے کجی، درشتی اور نفرت نکال دی جائے گی، ان کے دل پاک و صاف اور آئینہ سے زیادہ شفاف کر دئے جائیں گے، ارشاد باری تعالی ہے: وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ (اعراف:٤٣) "نیز ان کے دلوں میں ( ایک دوسرے سے ) جو کدورت ہوگی ، اسے بھی ہم نکال دیں گے” فقیہ العصر لکھتے ہیں: چند لوگ اکٹھے ہوں اور ساری راحتیں میسر ہوں ؛ مگر ایک دوسرے سے دل صاف نہ ہوں تو دل میں ایک چبھن باقی رہتی ہے ، جو راحت و مسرت کے احساس کو مجروح کرتی ہے ، جنت والوں کو اللہ تعالیٰ اس تکلیف سے بچانے کے لئے دل کی کدورتیں بھی صاف کردیں گے ؛ تاکہ خوشی و مسرت کے ان لمحات میں کوئی بدمزگی باقی نہ رہے ، حضرت زبیر اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ایک جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مد مقابل تھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اور زبیر و طلحہ بھی ان ہی لوگوں میں ہوں گے ، جن کی باہمی کدورتیں قیامت کے دن ختم کردی جائیں گی ، ( تفسیر ابن کثیر : ۲؍۲۷۳) بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پل صراط کے آخری حصہ میں — دوزخ کو پار کرنے کے بعد — اہل جنت کو ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا ، اس کے بعد پاک و صاف دلوں کے ساتھ یہ حضرات جنت میں قدم رکھیں گے ۔ ( بخاری ، کتاب المظالم ، باب قصاص المظالم : ۲۴۴۰– دیکھئے: آسان تفسير قرآن مجید)
7987972043
Comments are closed.