عام آدمی اور انقلاب کی امید

(تحریر : ابرہیم خان)
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ایسا سن کر سماعتوں میں کہرام مچ جاتا ہے. سات عشروں پر محیط تاریخ میں بھیانک طوفان زیادہ ہیں اور قومی خوشی کے دن انتہائی کم ۔ ایک نوجوان آنکھیں نکال کر کل پوچھ رہا تھا ہم اصل میں ہیں کون ؟ ڈرامے ہم ترکوں کی دیکھتے ہیں ‘ مثالیں عربوں کی دیتے ہیں ‘ متأثر ہم یورپ سے ہیں اور بننا چاہتے ہیں حقیقی مسلمان ۔ میرے پاس دلاسہ دینے کا کوئی قوی جواز موجود نہیں تھا اور وجہ اس کی یہ تھی کہ تقسیم در تقسیم انسانوں میں یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون کیا ہے ؟
بابائے قوم نے محنت شدید کی، مگر زندگی نے وفا نہیں کی، ورنہ امید واثق ہے کچھ بڑا ضرور کر دکھاتے ۔ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمینٹ کی مسلسل چفقلش نے عام آدمی کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، یہ عام آدمی اصل میں خود بھی بے تحاشا ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوچکا ہے ۔ عام آدمی سیارہ زمین پر ایک نئی مخلوق نہیں ۔ یہ وہی ہے جو قوموں کی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے لکھتا ہے ، یہ طاقتور بھی بےپناہ ہے، مگر اندر کی طاقتوں کا اندازہ لگانے کی یا تو جرأت نہیں رکھتا یا اہلیت نہیں، یہاں بھی بدقسمتی سے عشرے گزرگئے، لیکن رونا وہی پرانا ہے ، رونا کیا ہے؟ ذرا اندازہ تو لگائیے ۔ ” یہ انقلاب برپا کیوں نہیں ہوتا ” ؟۔ عام سا چےگویرا جب خود کو تول دیتا ہے تو اٹھ کر ایک پوری اجتماعیت کو بدل دیتا ہے ۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انقلاب خود دروازے پر آکر دستک تو نہیں دیتا، اس کے لیے خون پسینے کی قربانی ضروری ہوتی ہے ، اس عام آدمی کی وجہ سے کشتی بھنور کی طرف مسلسل سفر میں ہے اور اگر کوئی رکاوٹ بشکل اصلاح سامنے نہ آئی تو ہچکولے کھاتی کشتی گردآب کے ظالم لہروں کی نذر ہو ہی جائے گی ۔
یہ اجتماعی اعمال کی سزا ہی تو ہے کہ ابھی تک اندھی تقلید کی روش ختم نہیں ہورہی ۔ اندھی تقلید سچ کا سب سے بڑا دشمن ہے اور یہ عام آدمی ہی ہے جو جھوٹ کا کاروبار عروج پر پہنچا رہا ہے ،سمجھ میں اگر فلاسفی نہیں آرہی تو دم توڑتے معیشت کا حال ملاحظہ کیجئیے ـ
عقل اگر کام کرنے سے قاصر ہے تو معاشرتی زندگی میں استحصال کا گرم بازار دیکھئیے ۔ سمجھنا مشکل نہیں ہے، ہم بند کمرے میں خود اپنے گریبانوں کے اندر جھانک کر اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہم خود کتنے ذمہ دار ہیں ۔ عام آدمی قومی ‘ سماجی ‘ سیاسی اور معاشی زندگی کو داؤپر لگانے کا خود ہی ذمہ دار ہے ۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں شہر اقتدار کے اندر جب محافل سجتے ہیں تو عام آدمی کا کھل عام مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ یہ وہی عام آدمی ہے جس کی چوکھٹ پر سالہا سال کسی بڑے اور خاص آدمی کے قدم نہیں پڑتے سوائے الیکشن کے دنوں میں ۔ خود کو پانچ سال کے لیے بھوکا پیاسا رکھنے کے بعد اس عام آدمی کی روح مسرت کی ساتویں آسمان پر رقص کناں ہوجاتی ہے، جب اس کو مسلسل نظر انداز کرنے والا خاص آدمی صرف ایک بار ملنے آجاتا ہے ۔ کایا کیسے پلٹ سکتی ہے جب عام آدمی احساس سے ہی عاری ہے ۔
اس عام آدمی کے ذہن پر کوششوں کی انوسٹمنٹ ہوتی ہے یہ ،مگر سمجھنے سے قاصر ہے ۔ہماری تاریخ گواہ ہے بھوکے پیاسے لوگوں نے ہمیشہ نام نہاد انقلابیوں کے لئے اپنا خون صرف اس لئے بہایا کہ قربانی کے بکروں میں نام شامل ہو اور نتیجہ نکلا تو کیا ؟ لیڈر تو برآمد نہیں ہوا، البتہ قربانی کے بکرے لاکھوں کروڑوں میں ہیں۔
ان قربانی کے بکروں کے پاس اب طویل سفر کے بعد صرف شکایتوں کے انبار ہیں، المیہ مگر یہ ہے کہ سننے والا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ بنجر زمینوں سے فصل کی امید رکھنے والے کو پاگل نہ سمجھنا پاگل پن ہے ۔ یہی حقیقت ہے دو عام آدمی جب مملکت خداداد پاکستان میں مل بیٹھتے ہیں تو لگتا یوں ہے جیسے کسی پاگل خانے سے بھاگے ہوئے دو پاگل ہی ہوں ۔ نظریات کے ٹھیک ہونے میں جہد مسلسل کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، یہاں مگر جہد مسلسل سے عاری ایک بڑی اجتماعیت ہر گزرتے دن کے ساتھ سانحوں کی منتظر رہتی ہے۔
کایا پلٹنے میں دیر نہیں لگتی، بس عام آدمی میں احساس اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ کھبی کھبی حیرت ہوتی ہے کہ اس عام آدمی نے کس راحت کا سہارا لیا ہوا ہے، جو اتنا پرسکون ہے ۔ یہ خود سارا دن اپنی طرح کے دوسرے بے شعور لوگوں کے جم غفیر میں زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے اور جب گھر آتا ہے تو نہ ختم ہونے والی محرومی ،بے بسی اور بھوک و پیاس کا سامنا کرتا ہے ۔ اس عام آدمی کو ڈھونڈ نکال کر سمجھانا ہوگا ورنہ تاریخ کے کوڑے دان میں رہنا مقدر بن جائے گا۔ عام آدمی جیا بہت کم ہے اور اس کا ذمہ دار بھی یہ خود ہے ۔ سیاست دانوں کے جلسوں میں رونق اس وقت دیدنی ہوتی ہے جس وقت یہ مستقبل کا لائحہ عمل سامنے رکھتے ہیں اور نیچے موجود عام آدمی چیخ چیخ کر تالیاں بجاتا ہے، لیکن واپسی کے وقت جیب میں اتنے پیسے موجود نہیں ہوتے کہ گھر پہنچنا ممکن ہوجائے ۔
ووٹ بھی عام آدمی ہی دیتا ہے، لیکن جس وقت ووٹ ڈالتا ہے اس وقت گلی کے ایک پائپ کا مفاد ذہن میں ہوتا ہے ۔ یہ عام آدمی ووٹ کے بعد ایک دندناتا بھیڑیا بن جاتا ہے ۔ اس کے پاس صرف آہیں ہوتی ہیں اور ان آہوں میں یہ بس یہی آواز لگاتا ہے، انقلاب ضرور آئے گا اور انقلاب کی شدید ضرورت ہے۔۔۔!
Comments are closed.