مسجد اور بچے

محمد انور حسین، اودگیر
ہمارے معاشرہ میں خوبصورت، عالیشان اور مختلف سہولتوں سے آراستہ مسجدیں بنانے کا رواج بھی زوروں پر ہے ۔اب تو مسجدوں میں کھانا پکانے کے لیے کچن روم ‘ گیس اور چولہے کا نظم بھی عام ہوتا جارہاہے ۔لیکن مسجد میں بچوں کا مقام آج بھی توجہ کا طالب ہے
مسجدیں اور اس کی میناریں بچوں کو ہمیشہ لبھاتی رہتی ہیں ۔بچے جب چلنا پھرنا اور اسکول جانا شروع کردیتے ہیں تو مسجد کا رخ بھی کرتے ہیں ۔محلے کے دوستوں، والدین اور بھائیو ں کے ساتھ مسجد جانے لگتے ہیں ۔
لیکن مسجد کے تجربات بہت خوشگوار نہیں ہوتے ۔مسجد میں ان کا سامنا ایک ایسے ترش مزاج بزرگ سے ہوتا ہے جو ہر آنے والے بچے کو اس طرح گھورتے ہیں جیسے وہ کوئی چور اچکا آیا ہو ۔بچے مسجد میں داخل ہوتے ہی ان کو کسی کونے کی جگہ بتادی جاتی ہے اور سختی کے ساتھ تاکید کی جاتی ہے کہ اسی مخصوص جگہ پر ہی نماز پڑھیں ۔ بچے نماز تو کیا پڑتے ان کی شرارتیں اس بزرگ کے ارد گرد مرکوز ہوجاتی ہیں ۔بچوں کی شرارتوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا ۔۔بزرگ کا غصہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے شرارت کی شدت بھی بڑھتی جاتی ہے ۔
بزرگ کا سارا خشوع شرارتوں پر مرکوز ہوتا ہے وہ دل ہی دل میں امام صاحب کے سلام پھیرنے کا انتطار کرتے رہتے ہیں ۔ سلام پھیرتے ہی بزرگ تیزی سے آکر یا تو ایک دو کو رسید کردیتے ہیں یا غصہ میں مسجد کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوے تیسرے درجہ کی گالی دیتے دیتے صرف دوسرے درجہ کی گالی پر اکتفا کرلیتے ہیں ۔اس پورے ڈراونی ڈرامے کا اثر معصوم اور سنجیدہ قسم کے بچوں پر زیادہ ہوتا ہے ۔وہ مسجد کو جانے کے نام سے سہم جاتے ہیں ۔۔
اس کے علاوہ ہر کوئی بچوں کو پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کرتا ہے ۔جب بچے وضو کرتے رہتے ہیں تو بعض حضرات ان کو آدھے وضو سے اٹھادیتے ہیں انھیں اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ بچے کہ نازک دل پر کیا اثر ہواہوگا ۔بچہ اپنی بھرائی ہوئی آنکھیں چھپاتے ہوئے کڑوے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔دھیرے دھیرے بچوں کے دل سے نمازیوں سے الفت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔
ایک دو بار کے تلخ تجربات کے بعد ایک اچھی خاصی تعداد مسجد سے دور ہونے لگتی ہے ۔جو بچے ہمت کرکے مسجد آنے لگتے ہیں وہ بھی روزانہ کی بے عزتی سے تنگ آجاتے ہیں ۔
بچوں کے لیے مسجد کے ممبر تک کی رسائی تقریباً نا ممکن ہے ۔کوئی بچہ اگر وہاں تک پہنچنے کی کوشش کر بھی لے تو اس کی خیر نہیں ہوتی ۔
ماں باپ بھی بچوں کو نماز اور مسجد کی طرف متوجہ نہیں کرتے ۔جیسے جیسے بچوں میں شعور آتا جاتا ہے مسجد سے بیزاری پیدا ہوتی ہے اور اگر کبھی مسجد آنا ہو تو وہی کونے میں کھڑے ہوکر واپس چلے جاتے ہیں ۔
جمعہ اور رمضان کے دنوں میں بچوں کے ساتھ بے عزتی کے واقعات میں اضافہ ہوجاتاہے ۔
بچوں کے ساتھ مسجدوں میں اس طرح کے برتاؤ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری ملت بچوں کے مستقبل کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہے۔مکاتب کے نام پر جو تعلیم کا نظم جارہی ہے وہاں بھی چھڑی کے خوف کے سایہ میں کچھ چیزوں کو رٹا دینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
قربان جائیے تاجدار مدینہ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم پر کہ آپ سجدے کی حالت میں ہوتے اور آپ کے نواسے آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے ۔۔کیا یہ منظر آج کسی مسجد میں نظر آسکتا ہے ۔۔
دوران نماز کسی ماں کی گود سے بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز مختصر فرمادیتے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے میں کسی یتیم بچے کو دیکھتے تو شفقت اور محبت سے اسے تیار کرتے اور مسجد لے جاتے ۔۔
ہونا تو یہی چاہیے کہ مسجد میں جب کوئی بچہ پہلی بار آے تو سارے نمازی اس کا استقبال کرے، کچھ انعام دے، امام صاحب کو چاہئے کہ وہ ممبر سے اعلان کرے کہ آج ہماری مسجد میں ایک ننھا نمازی آیا ہے جو روز آیا کرے گا ۔مسجد کے بزرگوں کو چاہیے کہ ان بچوں کے ساتھ شفقت اور بزرگانہ وقار کے ساتھ بات کریں ۔
بچوں کو ایک جگہ بٹھا کر مسجد کے آداب اور احترام سکھاے جاییں ۔کوئی بچہ اگر کوئی چھوٹی سورت یا حدیث یاد کرلے تو اس کو ممبر پر کھڑا کرکے سنا جاے ۔ مسجد میں بچوں کے لیے چھوٹے اور خوبصورت دکھنے والے قران پاک کہ نسخہ جات رکھے جاییں، کچھ اسلامی کتابیں بھی رکھی جاییں ۔پندرہ دن یا مہینہ میں مختلف صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے کچھ مقابلے رکھے جاییں ۔ بزرگ حضرات کسی مناسب وقت میں پیغمبروں اور صحابہ کے قصہ سنانے کی محفلیں سجاییں ۔محلے کے نمازی وقتاََ فوقتاً بچوں کے لیے چاکلیٹ یا مٹھایاں لایا کریں ۔۔۔یہ تو کچھ تجاویز ہیں آپ ارادہ کرلیں تو اور بہت بہتر طریقے اپنا سکتے ہیں ۔
ہماری خواتین تو پہلے ہی مسجدوں سے محروم ہیں ان کے لیے بھی گنجائش نکالنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اس پہلے بچوں کو مسجدوں سے جوڑنے کی سنجیدہ کوشش ضروری ہے ۔تاکہ آنے والی نسلوں کو نماز کی تاکید کرنے ضرورت نہ رہے بلکہ اسلام کی سربلندی کا عزم رکھنے والے نوجوانوں کی ایک شاندار نسل پروان چڑھے ۔۔۔۔
Comments are closed.