جمعیت علماء ہند کی شاخیں اور گردواروں کا نظام

 

ارسلان نعمانی

ہم نے بھارت میں سکھوں کے کئی مذہبی مقامات کا دورہ کیا ہے، اُنہوں نے اپنے لوگوں کے لیے جو نظام و سسٹم تیار کیے ہیں، وہ نظامِ سکھ نہیں؛ بل کہ بعینہ نظامِ اسلام ہے، یہی وجہ ہے کہ اُن لوگوں میں بچوں سے لیکر بوڑھوں تک مانگنے والا نظر نہیں آتا، ہاں اگر نا کے برابر نظر آبھی جائے تو اس کا اعتبار نہیں،
نظر نہ آنے کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ہر شہر میں یہ لوگ ایک یا دو سینٹر قائم کر دیتے ہیں، یا ایک گرودوارہ، وہاں غریبوں کے لیے کھانا بنایا جاتا ہے، جن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا، وہ وہاں جاکر کھا لیتا ہے، پورے گردوارے کا صرف ایک ہی سرپرست ہوتا ہے جو کار کنان کو گردوارے کی دیکھ بھال کے لیے لگا دیتا ہے، اور شہر میں اُن کی گھومنے پھرنے کے ذمے داری رہتی ہے، مقصد گھومنے کا یہ رہتا ہے کہ بائ چانس کوئی غریب سکھ مانگتا ہوا نظر آئے تو اُن کو اپنے یہاں لاکر کھانا کھلائے،نیز شہروں میں مسلمانوں کے بھی کئی فنڈنگ سینٹرز اور فاؤنڈیشن ہوتے ہیں،
وہاں پیسے جمع ہوتے ہیں، اور ہر سینٹر میں پانچ لوگ مقرر ہوتے ہیں،1* صدر، 2* نائب صدر، 3* سیکریٹری،4* جنرل سیکریٹری،5* خزانچی؛ لیکن غریبوں کا حق مارا جاتا ہے،
خیر ان چھوٹے چھوٹے سینٹرز اور فاؤنڈیشن کو چھوڑیے، ہم بات کرتے ہیں غم خوار تنظیم جمعیت علماء ہند کی، ان کی تقریباً بھارت کے ہر شہر اور قصبوں میں شاخیں ہیں، ہر شاخ میں ذکر کردہ پانچ ذمے دار حضرات( صدر جمعیت علماء فلاں شہر، نائب صدر فلاں شہر ،وغیرہ وغیرہ) رہتے ہیں، ان کا کام خدمتِ خلق کا ہوتا ہے؛ لیکن سینٹر کے آس پاس یا شہر کے کسی چوراہے پر بھلے ہی کھانا مانگنے والے ہوں، ان کی طرف کوئی توجہ نہیں رہتی؛ کیوں کہ اس تعلق سے ان کے پاس کوئی نظام ہی نہیں ہوتا، تو انتظام کون کروائے گا؟ اور جب شہر میں یہ چرچا ہوتا ہے کہ جمعیت والے یہاں پروگرام میں آرہے ہیں، پھر اس وقت سبھی متحرک ہو جاتے ہیں،
بے پناہ روپے کا انتظام ہو جاتا ہے،
چیئرمین اور سرمایہ دار حضرات کی جانب سے خوب روپے ملتے ہیں؛ تاکہ پروگرام میں کوئی کمی واقع نہ رہے، کہیں دور مت جائیے، دیوبند میں مولانا محمود مدنی صاحب کے گھر کے پاس، کافی تعداد میں بچے، اور اُن کی مائیں گندے کپڑوں میں ملبوس، بیچارے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں؛ کیوں کہ انہیں دو وقت کی روٹی چاہیے بس، چاہے کھانے میں روٹی ملے یا چاول، گوشت ملے یا دال، کوئی فرق نہیں پڑتا، اُن کی مدد ہم ہی لوگ اپنی حیثیت کے بقدر کرتے ہیں،
آپ کو کیا لگتا ہے کہ دیوبند میں ذکر کردہ یہ پانچوں مجاہدین ملت نہیں رہتے ہوں گے، جن کی داڑھی بھی نہیں ہے وہ جمعیت کی طرف سے صدر اور جنرل سیکریٹری مقرر کیے ہوئے رہتے ہیں، سینٹرز اور فاؤنڈیشن کی ذمے داری اُن کو ملی ہوئی رہتی ہے، اس میں کچھ غلط نہیں ہے کہ ذمے داری خواہ داڑھی یا غیر داڑھی والا سنبھالے، بس محنت اور ایمانداری سے کام کرے، یہ اصل ہے،
واضح رہے ہم پورے دیوبند اور پورے ملک کی بات نہیں کر رہے ہیں، صرف ایک مخصوص مقام کی بات کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے گھروں کے پاس روتے بلکتے غریب و یتیم بچوں اور ماؤں کے لیے نظام نہیں بنا سکتے تو پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے نظام بناتے ہوئے خود کو بہترین رہبر ثابت کر سکتے ہیں؟
نیز یہ بھی غور و فکر ضروری ہے کہ سکھوں نے پورے ملک کے غریب و یتیم سکھ بچوں اور ماؤں کے لیے منظم نظام قائم کر کے رکھ دیا، اور ہم ۱۵, دن تک پورے دیوبند والوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کی قدرت کے باوجود صرف اپنے گھروں کے پاس نظام نہیں بنا پائیں، آخر کچھ تو لاپرواہی ہے؟ اگر خدمتِ خلق ہی مقصود ہے تو پھر ان غریبوں کا خیال رکھنا کون سا مشکل ہے؟ روپے کی بھی کمی نہیں ہیں، جب سکھ لوگ ایک سینٹر سے اتنا کام کر سکتے ہیں تو کیا ایک شہر میں جمعیت کے اتنے کار کنان( صدر، نائب صدر، سیکریٹری، جنرل سیکریٹری، خزانچی) کے لیے نظام بنانا مشکل ہے؟ پھر مسلمانوں کو لیکر کس بات کا رونا روتے ہیں؟ کس غربت اور تنزلی کی بات کرتے ہیں؟ تو دفاع کرنے والوں اب ہے آپ کے پاس کوئی جواب؟ ہے تو دیجیے، دنیا بھی بے قرار ہے سننے کے لیے، اور ہم بھی مستفید ہو سکیں آپ کے اقوالِ زریں سے، یا اب بھی یہی کہو گے جو بابا آدم کے زمانے سے ذہن میں ہے کہ آپ ہی قائد بن جاؤ، اہلِ جمعیت علماء سے سوالات کرنے والوں کو یہ کہہ دینا کہ آپ نے اب تک کیا ہی کیا ہے؟ کسی کو بھی چپ کرانے کے لیے ایسا سوال کرنا ضروری ہے غالب, چلیے ہم صرف بولنے والے ٹھہریں؛ لیکن جو کرنے والے ہیں( اہلِ جمعیت علماء ہند) اتنی باتیں جاننے کے بعد موجودہ اہلِ جمعیت کے تعلق سے کوئی نصائح اور رائے ہو تو فرمائیں، اگر نہیں تو حق کا ساتھ دیجیے اور غلط کو غلط کہیے اور صحیح کو صحیح کہیے، تبھی تو یہ لوگ قوم کے روپے کو اہمیت دیتے ہوئے صحیح جگہ پر خرچ کریں گے؟
ورنہ جیسے اب چل رہا ہے ویسے ہی سب چلتا رہے گا!

Comments are closed.