آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
اعضاء کا ہبہ
سوال:- کیا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی جان بچانے کے لئے اپنا عضو اسے ہبہ کرسکتا ہے؟ ( محمد خالد، معظم جاہی)
جواب :- اُصولی طور پر ایک انسان کے لئے دوسرے انسانی اجزاء جسم کو استعمال کرنا احترام انسانیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ؛ لیکن شریعت میں حالت اختیار اور حالت مجبوری کے احکام الگ الگ ہیں ، مجبوری کی حالت میں بعض ایسی باتوں کی گنجائش ہوتی ہے ، جو عام حالات میں نہیں ہوتی ؛ اس لئے موجودہ دور کے علماء کی اکثریت نے کچھ شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے ، وہ شرطیں یہ ہیں :
(۱) عضو ہبہ کرنے والے شخص کی عضو دینے کی وجہ سے ہلاکت یا شدید مضرت کا اندیشہ نہ ہو ۔
(۲) جس شخص کو عضو دیا جارہا ہے ، اس کی وجہ سے اس کی جان کے بچ جانے کا غالب گمان ہو اور اس کے بغیر اس کی ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو ۔
(۳) عضو کے دینے اور لینے کا عمل پوری طرح رضامندی کے ساتھ ہو ۔
(۴) خرید و فروخت کا معاملہ نہ ہو ، یعنی عضو ہبہ کرنے والا اس عضو کی قیمت وصول نہ کرے ، قیمت لینا جائز نہیں ؛ کیوںکہ انسانی اجزاء کی خرید و فروخت ناجائز ہے اور یہ انسان کی کھلی ہوئی اہانت ہے کہ اس کے اجزاء کو سامانِ خرید و فروخت بنالیاجائے ۔
اسقاطِ حمل
سوال:- بہت سی دفعہ عورت کو حمل قرار پاجاتا ہے ؛ لیکن طبی نقطۂ نظر سے یا کسی اور وجہ سے اس کو ساقط کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، یہ کس مدت تک جائز ہے ؟ میرے پاس ابھی ایک کیس آیا ہے جس میں حمل پر چھ ماہ عرصہ گذر چکا ہے ؛ لیکن یہ حمل زنا کا تھا ، اس لئے لڑکی اور اس کے والدین حمل ساقط کرانا چاہتے ہیں ، کیا میں اس سلسلہ میں ان کی مدد کرسکتا ہوں ؟ اسی طرح ایک اور خاتون کا کیس ہے ، اس کے حمل پر بھی چھ ماہ سے کچھ کم عرصہ گزرچکا ہے ، میڈیکل رپورٹ یہ ہے کہ اس بچہ کا پچاس فیصد سے زیادہ دماغ نہیں بنا ہے ، اس لئے وہ پیدا ہوگا تو معذور پیدا ہوگا اورکم وقت میں مرجائے گا ، کیا ایسے حمل کو ساقط کرایا جاسکتا ہے ؟ ( فیروز اختر، نامپلی)
جواب :- جب تک حمل پر چار ماہ کا عرصہ نہیں گذرا ہو ، کسی طبی عذر کی وجہ سے حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے ، طبی عذر سے مراد یہ ہے کہ مولود کے بیماری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو ، یا عورت کی جان خطرہ میں ہو ، یا اس کے کسی سخت مضرت میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو ، یاکوئی اور شدید قسم کا عذر ہو ، ایسے ہی اعذار میں بعض اہل علم نے زنا کے حمل کو بھی شامل رکھا ہے ، خواہ زنا بالجبر ہو یا باہمی رضامندی سے گناہ کا ارتکاب ہوا ہو ، اس صورت میں بھی اسقاط حمل کی گنجائش ہے ، چار ماہ سے پہلے بھی کسی معقول عذر کے بغیر اسقاط حمل درست نہیں ؛ لیکن جب حمل پر سولہ ہفتے گذر جائیں تو اب اسقاط بالکل جائز نہیں ، خواہ زنا کا حمل ہو ، یا زیر حمل بچہ ناقص الخلقت ہو ؛ کیوںکہ اب وہ زندہ وجود ہے اور کسی زندہ شخص کو بیمار ہونے کی وجہ سے یا ولد ِزنا ہونے کی وجہ سے قتل کردیا جائے ، نہ اسلام میں اس کی گنجائش ہے اور نہ انسانی نقطۂ نظر سے اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ، ناقص الخلقت بچہ کو پیدا ہونے دیا جائے ، جب تک زندگی مقدر ہے ، زندہ رہے گا ، والدین کو اس کی پرورش کا اجر حاصل ہوگا ، اسی طرح ولد الزنا کو پیدا ہونے دیا جائے ؛ البتہ زانی کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح کرے : ویکرہ الخ … أی مطلقا قبل التصور وبعدہ وجاز لعذر…کالمرضعۃ إذا ظہر بہا الحبل وانقطع لبنھا… قالوا : یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم مادام الحمل مضغۃ أو علقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدروا تلک المدۃ بمائۃ وعشرین یوما وجاز لأنہ لیس بآدمی۔ ( ردالمحتار : ۹؍۶۱۵)
خواتین اور تبلیغ دین
سوال:- الحمد للہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں ، جب مجھے فرصت ملتی ہے ، تب میری اولین ترجیح اورپسندیدہ کام یہ ہے کہ اللہ کا دین اللہ کے بندوں تک پہنچاؤں ، قرآن اور صحیح احادیث کے ذریعہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر انجام دے رہی ہوں ، خواتین سیکھنے اور عمل کرنے میں آگے آرہے ہیں ، یہ کام میں پچھلے تین سالوں سے انجام دے رہی ہوں ، ہمارے بستی میں ایک مسجد بنی ، جو صرف پانچ ماہ ہوئے ، وہاں کے ذمہ دار حافظ صاحب کہتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ کوئی خواتین کا اجتماع نہیں ہوگا ، صرف مرد حضرات سے ہی کوئی آکر ہر ماہ بیان کریں گے ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ کیا کسی کو دعوت دین سے روکا جاسکتا ہے ؟ (عزیز پاشاہ، ہمایوں نگر)
جواب:- نیکی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ مسلمان مردوں کی بھی ذمہ داری ہے اور مسلمان عورتوں کی بھی ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ ( التوبۃ : ۷۱)
خواتین کے لئے شرعی حدود یہ ہیں کہ اس کو عورتوں یا نابالغ بچوں ہی میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا چاہئے ، وہ مردوں میں دعوت و تبلیغ کا کام نہ کریں اور خواتین کے اجتماع میں بھی اس طرح بیان کریں کہ آواز غیر محرموں تک نہ پہنچے ، اور ان کا یہ کام کرنا اپنے والد اور شادی شدہ ہو تو اپنے شوہر کی اجازت سے ہو ، ان حدود کی رعایت کے ساتھ وہ خواتین کے اجتماع میں دینی باتیںکہہ سکتی ہیں ، امام صاحب کا غالباً یہی منشاء ہوگا کہ یہ کام بے احتیاطی کے ساتھ نہیں کیا جائے ، خواتین کے اجتماع سے اگر کوئی مرد خطاب کرے تو اس میں بھی ضروری ہے کہ عورتیں پس پردہ ہوں ، مرد مقرر کے ساتھ کوئی اور مرد بھی موجود ہو ، یا جو خواتین تقریر سن رہی ہوں ، ان میں خطاب کرنے والے کی بیوی یا کوئی محرم خاتون شامل ہو ، جیساکہ فقہاء نے اس صورت کا حکم لکھا ہے جب مرد امام ہو اور عورتیں مقتدی ہوں ، بہر حال عورت سے آواز کی حفاظت اور آواز کا ستر بھی مطلوب ہے : نغمۃ المرأۃ عورۃ وتعلمھا القرآن من المرأۃ أحب … فلا یحسن أن یسمعہا رجل ۔ ( ردالمحتار : ۲؍۷۸-۷۹)
قضاء میں اذان و اقامت
سوال:- کیا فرض نمازوں کی قضاء پڑھتے وقت اقامت کہنا ضروری ہے ؟ (عبدالقادر، سنتوش نگر)
جواب:- اذان و اقامت کہنا ضروری تو نہیں ہے ؛ لیکن بہتر ہے ، فتاویٰ عالمگیری میں اُصول نقل کیا گیا ہے کہ فرض نماز ادا ہو یا قضاء ، اور تنہا پڑھی جائے یا جماعت کے ساتھ ، اس کے لئے اذان و اقامت کہنا چاہئے : ومن فاتتہ صلوۃ فی وقتھا فقضاھا أذن لھا وأقام واحدا کان أو جماعۃ ھکذا فی المحیط ، والضابطۃ عند نا إن کل فرض أداء کان أو قضاء یؤذن لہ ویقام سواء اداہ منفردا او بجماعۃ ، ( فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۵۰) فقہ حنفی کی مشہور کتاب مراقی الفلاح میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے ۔ ( دیکھئے : مراقی الفلاح : ۱۰۸)
جہری نمازوں کی قضاء میں جہر یا سر؟
سوال:- کیا جہری نمازوں کی قضاء کرتے ہوئے بھی جہر کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے (محمد حذیفہ، شاہین نگر)
جواب:- جو جہری نماز چھوٹ گئی ہو ، اگر اس کو جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے تو امام کو زور سے قراء ت کرنی چاہئے اور اگر تنہا نماز ادا کرے ، تو اختیار ہے چاہے ، زور سے قراء ت کرے یا آہستہ : ومن قضی الفوائت إن قضاھا بجماعۃ فإن کانت الصلاۃ یجھر فیھا یجہر الامام فیھا بالقراء ۃ وإن قضاھا وحدہ یتخیر بین الجہر والمخافتۃ والجھر افضل ، ( فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۱۲۱) اگرچہ بعض فقہاء نے تنہا نماز پڑھنے والوں کے لئے جہری نماز کی قضاء میں بھی آہستہ پڑھنے کو واجب قرار دیا ہے ؛ لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کو اختیار ہے کہ چاہے زور سے پڑھے یا آہستہ : ویخافت المنفرد حتما أو وجوبا إن قضی الجھریۃ فی وقت المخافتۃ … لکن تعقبہ غیر واحد ورجحوا تخییرہ ۔ (الدر المختار مع ردالمحتار : ۲؍۲۵۱-۲۵۲)
سجدۂ شکر – مواقع اور احکام
سوال:- بعض حضرات شکرانے کے طور پر سجدہ کرتے ہیں ، کیا یہ عمل درست ہے ؟ سجدۂ شکر اگر درست ہے تو کس موقع پر یہ سجدہ کیا جائے ؟ کچھ لوگ نماز کے بعد ہی سجدہ میں چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ کررہا ہوں ۔ (معین الدین، حیات نگر)
جواب:- سجدۂ شکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوغزوۂ خندق کے موقع پر جب دشمن کے بھاگنے کی اطلاع ملی تو سجدہ شکر فرمایا ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جب توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا ، (بخاری، حدیث نمبر: ۴۱۵۶)تفسیر وحدیث اورسیرت کی کتابوں میں ان واقعات کا ذکر موجود ہے ، اسی سے یہ بھی معلوم ہواکہ یوں تو انسان پر ہر لمحہ اللہ کی رحمتیں اتر رہی ہیں ، ہر سانس جو ہم لیتے ہیں اور پانی کا ہر قطرہ جو ہم پیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ، اور ہم ان کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے ؛ لیکن سجدۂ شکر خوشی کے پیش آنے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے کے ایسے واقعات پر کرنا چاہئے ، جو عام معمول سے مختلف ہوں اور غیرمعمولی نوعیت کے حامل ہوں ، جن اوقات میں نفل نماز کا پڑھنا مکروہ ہے ، ان اوقات میں سجدۂ شکر ادا کرنا بھی مکروہ ہے ؛ کیوںکہ یہ بھی نماز ہی کا ایک جزو ہے : ویکرہ أن یسجد شکرًا بعد الصلاۃ في الوقت یکرہ فیہ النفل (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۱۳۶)
البتہ فرض نماز کے بعد عام لوگوں کے سامنے سجدہ شکر نہیں کرناچاہئے ؛ کیوںکہ اس سے عوام کو غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ شاید یہ بھی نماز کا جزو ہے ، یا فرض و واجب کے درجہ میں ہے اورایسا مباح عمل بھی مکروہ ہوتا ہے ، جس سے لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہوجائے اورشریعت میں اس عمل کا جو درجہ ہے ، لوگ اس کو اس سے زیادہ اہمیت دینے لگیں:
’’ وسجدۃ الشکر مستحبۃ وبہ یفتی ؛ لکنہا تکرہ بعد الصلاۃ ؛ لأن الجہلۃ یعتقدونہا سنۃ أو واجبۃ وکل مباح یؤدي إلیہ فمکروہ(درمختار مع الرد: ۲؍۵۹۸)
دعا کے لئے خارج صلاۃ سجدہ
سوال:- بہت سے لوگ رمضان المبارک میں وتر کی نماز کے بعد فوراً سجدہ میں جاکر دعاء کرتے ہیں ، بعض لوگ عام دنوںمیں ظہر ، مغرب ، عشاء کی سنت اور نفل نمازوں کے بعد سجدہ میں جاکر دعا کرتے ہیں ، کیا یہ طریقہ صحیح ہے ؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ؟ (مجتبیٰ حسین، مہدی پٹنم)
جواب:- جہاں تک وتر کے بعد یا دوسری نمازوں کے بعد سجدہ میں جاکر دعا کرنے کی بات ہے تو اس طرح کا سجدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، نماز سے باہر دو ہی سجدے ثابت ہیں ، سجدۂ تلاوت اور سجدۂ شکر ، سجدۂ تلاوت پر سب کا اتفاق ہے ، سجدۂ شکر کے بارے میں اختلاف ہے ؛ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ بھی ثابت ہے اور کسی خوشی کے موقع پر سجدۂ شکر کرنا مستحب ہے ، باقی صرف دعا کے لئے سجدہ کرنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ؛ اسی لئے فقہاء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے :أما إذا سجدہ بغیر سبب فلیس بقربۃ ولا مکروہ وما یفعل عقیب الصلوات مکروہ ؛ لأن الجہال یعتقدونہا سنۃ أو واجبۃ وکل مباح یؤدي إلیہ فمکروہ (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۱۳۶)
اگر سجدہ میں دعا کرنا چاہتاہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ دو رکعت نفل ادا کرے اور اس نماز کے سجدہ میں دعا کرلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفل نماز کے سجدوں میں دعا کرنا ثابت ہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.