قراءات سبعہ اور قراءات ثلاثہ الگ الگ کیوں؟

 

 

محمد حنیف ٹنکاروی

9737984123

 

 

إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرءوا ما تیسّر منہ‘‘

’’یہ قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے جو تمہارے لئے آسان ہو اس طریقے سے پڑھ لو“ (صحیح بخاری شریف مع القسطلانی ص٤٥٣ ج٧ بحوالہ علوم القرآن)

 

یہ حدیث معنی کے اعتبار سے متواتر ہے، چنانچہ مشہور محدث امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اس کے تواتر کی تصريح کی ہے، اور حدیث و قراءات کے معروف امام علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مستقل کتاب میں اس حدیث کے تمام طُرق جمع کئے ہیں، ان کے علاوہ متعدد محدثین نے اسی طرح نقل کیا ہے۔

مذکورہ بالا حدیث میں” احرف سبعہ” سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں تقریباً پینتیس اقوال بیان کئے جاتے ہیں ۔ (البرھان فی علوم القرآن ج١)

"سبعۃ أحرف ” کی تشریح میں جتنے اقوال کتب تفسیر و حدیث اور علوم قرآن میں بیان کئے جاتے ہیں ان میں راجح قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں ہیں۔

 

وہ سات قسمیں (نوعیتیں) یہ ہیں:

١. مفرد و جمع کا اختلاف

٢. تذکیر و تانیث کا اختلاف

٣. وجوہ اعراب کا اختلاف

٤. صرفی ہیئت کا اختلاف

٥. نحوی اختلاف

٦. لفظ کا ایسا اختلاف جس سے حروف بدل جاءیں ۔جیسے تعلمون اور یعلمون

٧. لہجوں کا اختلاف

 

یہی قول علامہ ابن قتیبہؒ، امام ابو الفضل رازیؒ، قاضی ابوبکر باقلانیؒ، اور محقق جزریؒ نے اختیار فرمایا ہے۔ (فتح الباری ص ٢٥ و ٢٦ ج ٩ اور اتقان)

امام جزری رحمۃاللہ علیہ کتاب "النشر” میں فرماتے ہیں کہ "میں اس حدیث کے بارے میں تیس ٣٠ سال سے زیادہ غور و فکر کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی تشریح کھول دی” جو اوپر ذکر کر دی گئی ۔

 

فی زماننا سبعہ قراءات اور مافوق السبعہ یعنی ثلاثہ قراءات پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ، کیونکہ یہی عشرہ اب تمام محققین کے نزدیک متواترہ ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” دس قراءات پر ائمہ کا اتفاق ہے اور ان دس میں سے ہر ایک کے دو دو راوی ہیں اس طور پر روایات کی تعداد بیس تک پہنچ گئی ہے” (رسالہ حدیث سبعۃ احرف اور علامہ ابن جریرطبری)

ملا علی قاریؒ نے دس قراءات کے بارے میں اپنے مشائخ سے ان قراءات کو نہ صرف نماز میں پڑھنے کو نقل کیا ہے، بلکہ ایک ہی نماز میں مختلف قراءات کو جمع کرنا معمولِ مشائخ ہونے کی بھی وضاحت فرمائی ہے۔ (حوالہ مذکورہ)

مندرجہ بالا کلام سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بَاتفاق علماء متواتر قراءتیں دس ہیں، البتہ اس بحث میں کچھ امکانی سوالات ہو سکتے ہیں، مندرجہ ذیل سطور میں وہ سوالات مع جوابات کو تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ آج کل سبعہ قراءات، شاطبیہ سے پڑھائی جاتی ہیں، شاطبیہ بنام "حرز الامانی ووجه التهاني” میں سات قراءات ہی کیوں ہیں؟ بقیہ قراءات ثلاثہ متواترہ کو، کیوں شامل نہیں کیا؟

جواب ۔ امام شاطبیؒ نے علامہ دانیؒ کی کتاب "التیسیر” کو نظم کیا ہے "التیسیر ” میں سات قراءتیں تھیں؛ اس لئے شاطبیہ میں بھی سات بیان کی گئیں ۔

ہاں یہ سوال علامہ دانیؒ پر ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی تصنیف "التیسیر "میں صرف سات ہی قراءات کیوں بیان کیں، جبکہ ما فوق السبعہ ثلاثہ بھی تو متواترہ ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ دانی رحمۃاللہ علیہ نے علامہ ابن مجاہد رحمۃاللہ علیہ کی کتاب "کتاب السبعۃ” کے مضمون کو مختصر و سہل اسلوب میں بیان کرکے ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام "التیسیر” رکھا، اب رہی بات یہ کہ علامہ ابن مجاہد نے کتاب السبعۃ میں سات قراءات ہی کو کیوں بیان کیا؟

 

اس کے تین جوابات پیش خدمت ہیں:

 

1. علامہ ابن مجاہد رحمۃاللہ علیہ نے محض اتفاقاً ان سات قراءتوں کو جمع کر دیا تھا ان کا منشا یہ ہرگز نہیں تھا کہ ان کے سوا اور دوسری قراءتیں غلط یا ناقابل قبول ہیں، علامہ ابن مجاہد کے اس عمل سے دوسری غلط فہمی یہ بھی پیدا ہوئی کہ بعض لوگ "سبعۃ احرف” کا مطلب یہ سمجھنے لگے کہ ان سے یہی سات قراءتیں مراد ہیں جنہیں ابن مجاہد نے جمع کیا ہے حالانکہ "سبعۃ احرف” کی صحیح تشریح وہ ہے جو اوپر گزر چکی ہے، چنانچہ جب یہ غلط فہمی پیدا ہوئی تو متعدد علماء ( مثلاً علامہ شذائی رح اور ابوبکر بن مہرانؒ) نے سات کے بجائے دس قراءتیں ایک کتاب میں جمع فرمائیں، چنانچہ قراءات عشرہ کی اصطلاح مشہور ہوگئی۔(النشر، علوم القرآن)

2. نیز ابن مجاہدؒ کی مراد کو بیان کرتے ہوئے اُن ہی کے معاصر امام ابو الفتح عثمان بن جنی اپنی کتاب ” المحتسب” میں فرماتے ہیں کہ ابن مجاہد رح کا مقصد یہ نہیں کہ ماورائے سبعہ غیر متواتر ہیں بلکہ یہ سات مشہور اور مروج ہیں اس لئے انہیں جمع کیا۔(فن تجوید و قراءت مکالمات کے آئینہ میں)

3. شیخ احمد بن فارس سلوم نے ابن مجاہدؒ کی سات ہی قرائتوں کے جمع کرنے کی تین وجوہ بیان کی ہیں ۔

(١) حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سات مصاحف تیار کروائے تھے جب ابن مجاہد رح نے قراءتوں کو جمع کرنا چاہا تو اسی سات عدد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کتاب میں سات ہی قراءتوں کو بیان کیا اس سے ہرگز دوسری قراءتوں کو خارج کرنا مقصود نہیں تھا۔

(٢) حدیث میں "سبعۃ أحرف” سے مراد تو کچھ اور ہے؛ لیکن تبرّک کے طور پر ابن مجاہدؒ نے اپنی کتاب میں سات ہی قراءتوں کو لیا تاکہ نفس حدیث میں سات کے عدد سے میری کتاب کی موافقت ہو جائے۔

(٣) اُس زمانہ میں سات ائمہ بہت مشہور تھے ان کی طرف نسبت کر کے لوگ قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے تھے، ان کی قراءتیں بہت رائج تھیں اس وجہ سے ابن مجاہد نے وہی مشہور سات قراءتوں کو اپنی "کتاب السبعۃ” میں شامل کیا۔( ملخص ازمقالہ…القراء السبعة وأسباب اقتصار المؤلفين عليهم…. شیخ دکتور احمد بن فارس سلوم… مولود٧٢ یا ١٩٧٦)

معلوم ہوا کہ سبعہ کے علاوہ دیگر قراءات کا غیر متواتر ہونا محض اس مغالطہ کی بنیاد پر ہوا جو ابن مجاہد کے منشا کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، ورنہ ابن مجاہدؒ کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے، اور چونکہ ابن مجاہد رح کی اس کتاب سے مغالطہ واقع ہوا ہے، اس لیے بعد کے لوگوں نے ابن مجاہد رح کے ان قراءات سبعہ کے بیان پر اکتفا کرنے کو نامناسب قرار دیا ہے۔

 

تمت بالخیر

 

————

مصادر و مراجع

١. مظاہر حق

٢. منجد المقرءین

٣. الواحة الخضراء في تاريخ القراءة والقراء

٤. شرح سبعہ

٥. عنایات رحمانی

٦. علوم القرآن

۷. تجوید و قراءات مکالمات کے آئینہ میں

٨. حدیث سبعۃ أحرف اور علامہ ابن جریر طبری (رسالہ)

٩. تاریخ علم قراءات

١٠. القراء السبعة وأسباب اقتصار المؤلفين عليهم (مقالہ)

١١. ذاتی ڈائری

Comments are closed.