سب کچھ new normal ہوگیا ہے۔

محمد صابر حسین ندوی
ان دنوں ایک عام اصطلاح سننے کو ملتی ہے، اخبار و رسائل اور خصوصاً انگریزی اخبارات میں اسے استعمال کیا جاتا ہے، — new normal – – اس کا مطلب جو اگرچہ غیر معمول بہ تھا، لوگ جس سے بدکتے تھے، عام طور پر جس سے پرہیز کرتے تھے اب وہی چیز ایک معمول بن گئی ہے، کل کس کیلئے دھکے کھاتے تھے، جس کو سننا اور سمجھنا نہیں چاہتے تھے اب اسی سے عشق کر بیٹھے اور ایسے کہ گویا ماضی بھی اسی کی رہین منت رہا ہو، خواہ وہ عام و خاص، اچھی یا بری ہو، کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دور میں اسے سب سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا، جب ماسک، سینیٹایزر، معاشرتی فاصلے اور آن لائن تعلیم جیسے مدعی سامنے تھے، مہاجرین کی تکلیف دہ تصویریں، مزدوروں کی بھٹکتی اور بچوں کی بلکتی صورتحال، حکومت کا اپنے ایجنڈے پر سرپٹ چلے جانا اور چناؤ کے دوران لوگوں کا گھٹ گھٹ کر مرجانا عام تھا، مگر اب یہ اصطلاح عموم اختیار کر چکی ہے، اسے صرف ایک وبائی دور کی یاد اور ضرورت سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ لوگوں کی ہر کسمپرسی اور لاچاری پر اسے فِٹ کیا جارہا ہے، پورے ہندوستان میں ایسی فضا بن چکی ہے بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ اب لوگوں کے درمیان کچھ بھی غیر معمولی نہیں رہ گیا ہے؛ بالخصوص موجودہ سرکار نے ایسی ذہنیت بنیادی ہے کہ لوگوں نے سوچنا سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے، انہیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ترقی و تخریب کی تعریف ہی بدل گئی ہے، اپنے پرائے اور ملک کی یکجہتی و اتحاد کے معنی ہی پلٹ گئے ہیں، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب چہار جانب نفرت، شدت اور غصے کی بھٹی جل رہی ہے، صبر، قوت برداشت، اپناییت اور مواسات کا مزاج کافور ہوگیا ہے، گویا گدھے کے سر سے سینگھ غائب ہوگئی ہو، ایسا محسوس ہوتا کہ ہندوستان ایک جنگل راج کی طرف بڑھ چکا ہے، جس میں قانون بنانے والے ہی قانون توڑیں، کمزور کو دبوچ لیا جائے، غریب و فقیر زندگی کو ترسیں اور طاقت ور، پاور والے لوگ زندگی کے تمام وسائل پر قابض ہوجائیں، کسی زمانے میں بہار، یوپی جیسے صوبوں کو اس کا طعنہ دیا جاتا تھا کہ وہاں سرکار کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، دستور برائے نام ہے اور قتل و غارت گری ایک معمول بن چکی ہے، جہاں دن دہاڑے لوٹ مار، عصمت دری، ڈاکہ زنی اور غنڈئی ہوتی ہے، پولس تماشہ دیکھتی ہے، قانون کے رکھوالے خود اپنی حفاظت سے قاصر ہوتے ہیں، معصوموں کو خون بہتا ہے اور وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ہیں، پھر سیاست دان اٹھتے ہیں اور اسے سیاست کا حصہ بنا کر متعدد جماعتوں نے سینکڑوں دفعہ عوام کو بیوقوف بنایا، انجام یہ ہوا کہ یہ صوبے اب بھی خوف و ہراس سے تعبیر ہیں۔
اب یہ ملکی سطح پر چل رہا ہے، رواں حکومت تمام جرائم، برائی اور اپنی ناکامی کو ایک عام خول میں پیش کر رہی ہے، وہ یہ باور کروا رہی ہے کہ سب کچھ نارمل ہے، ملک ترقی کی راہ پر بلیٹ ٹرین کی رفتار سے گامزن ہے، جس پر سونے میں سہاگن کا کام زرخرید میڈیا کا کارندے کر رہے ہیں، جوں ہی کوئی جملہ اور کوئی فقرہ سرکار کی جانب سے اچھالا جاتا ہے تو میڈیا اور اس کے نمائندے پورے زر و شور کے ساتھ اسے ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ضمیر مر چکا ہے، انہیں کسی چیز کا کوئی احساس ہی نہیں ہے، اپنی غلطیوں کو دوسروں پر ڈالنے اور بات بات پر اپنا دامن جھاڑ لینے، دستور کو اپنے موافق استعمال کرنے کی انہیں عادت ہوگئی ہے، ایک ایسی عادت جو مکروہ ہونے کے باوجود باکمال اور باحسن بن چکی ہے؛ بلکہ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو عادت ہوگئی ہے کہ وہ سرکار کو اسی طرح چلتا ہوا دیکھیں، گزشتہ زمانے میں جو بھی ہو اتنا تو کم از کم ضرور تھا کہ لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف بولتے تھے، احتجاجات ہوتے تھے، رام لیلا میدان، جنتر منتر پر سیاست دانوں اور لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا، مہنگائی کو لیکر اسمرتی ایرانی اور دیگر سیاست دان سڑکوں پر پیاز کی مالا پہنے ہوئے اور رسوئی گیس کی ٹنکی لیکر دندناتے پھرتے تھے، عوام بھی ان سے حوصلہ پا کر جوب ساتھ دیتی تھی، ٢٠١١ء میں انَّا ہزارے تحریک آج بھی سب کو یاد ہے، جس نے دہلی کی مرکزی اور صوبائی سرکار بدل دی، اور زعفرانیوں کیلئے ایک نئے افق کی راہ ہموار کردی، اب دیکھیے! آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی بار پیٹرول ایک سو دس روپے تک پہنچ گیا، ڈیژل سو روپے کے قریب، رسوئی گیس ہزار ہونے کو ہے، سرسوں تیل دو سو روپے، مہنگائی اب تک کی شرح میں سب سے زیادہ ہے، کرپشن کے نیے نیے رنگ دیکھنے کو مل رہے ہیں، بِٹ کوائن، رافیل اور پی ایم کیر فنڈ یہ سب معمولی ہیں، ان سے کہیں زیادہ بڑے گھوٹالے کئے گئے ہیں جن کا کوئی سراع نہیں، جس پرائیویٹایزیشن کے نام بھی جائز کیا گیا ہے، گویا ملک کو بھکاری بنا کر اس کے ہاتھوں میں پیالہ تھمانے اور ملک کی باگ ڈور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں سونپنے کی تیاری ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سماجی تانا بانا ٹوٹ کر بکھر چکا ہے، اتحاد و اتفاق خواب وخیال کی باتیں ہوگئیں، مسلمان دلت سے بدتر تھا اب وہ کہیں کا نہیں ہے، ظلم وجبر کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی کسی کو مار دیتا ہے؛ اتنا سب کچھ ہے لیکن ایک آواز نہیں ہے، میڈیا بک چکی ہے، اپوزیشن میں سیاست دان کی رگوں کا خون ٹھنڈا ہوچکا ہے، وہ اپوزیشن میں بیٹھ کرانتظار کر رہے ہیں کہ بَس کسی طرح لوگ پریشان ہوجائیں اور حکومت کی کرسی اپنے آپ ہی ان ہاتھ لگ جائے، نہ کوئی تحریک چلے اور نہ کوئی انقلاب اٹھے، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو موجودہ جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی پژمردہ ہوجائے گی، ہندوستان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا، اور ہندوستانی زندگی کا احساس کئے بنا ہی زمین دوز ہوجائے گا، سو! جاگو، ملک وملت کی زبوں حالی پر ترس کھاؤ اور بیدار مغزی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سیاسی رخ کو موڑنے کی کوشش کرو!
[email protected]
7987972043
Comments are closed.