اور امت ایک جسم، ایک جان ہو گئی

 

 

محمد تعریف سلیم ندوی

جامعہ صدیقیہ عین العلوم، ہوڈل روڈ، نوح (میوات)

 

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں

تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے چین ہو جائے

علامہ اقبال

 

قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:

’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اخْوَۃٌ۔‘‘ (الحجرات:۱۰)

ترجمہ: ’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘

 

آقائے نامدار، انبیاء کے سردار سرورِ کونین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو ایک جسم سے تعبیر کیا ہے اور مثال پیش کرتے ہوئے یوں خوش اسلوبی سے بیاں کیا…،،حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا سب مسلمان ایک جسمِ واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دُکھے تو اس کا سارا جسم دُکھ محسوس کرتا ہے اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)

گویا آپ کی زبان سے وجود پذیر یہ مثال مسلمانانِ عالم کو باہمی دکھ درد میں غمگساری و ہمدردی اور تعزیت و تسلی کے لئے واضح پیغام ہے، دوسری جگہ آنحضور خوشیاں و راحتیں بانٹنے اور اتحاد و اتفاق میں سیسہ پلائی دیوار بن جانے کا پیارا پیغام اس دلنشیں انداز میں دیا کہ نظر آنے والے مؤمن کو دیکھ دل سرور و حبور کے جذبات سے سرشار ہو جائے

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہیے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

موجودہ وقت میں امریکہ کی افغانستان میں عبرت انگیز پسپائی و رسوائی اور ذلت و شکست کا جو سامنا ہے اور اہلِ ایمان کی ایمانی جرأت و ہمت اور فتح و کامرانی کی تاریخ جو رقم ہوئی ہے وہ ایمان افروز و سکون آور داستان ہے جو ہر سو سسکتی و بلکتی امت کی تباہی و بربادی کے ڈھیر سے ملنے والے لعل کی مانند ہے، جس نے امت کے سینوں کو روشن و مسرور کر دیا ہے۔

اس فرحت و انبساط کو چار دانگ عالم میں محسوس کیا گیا چونکہ ملت دشتِ لیلا میں سرخروئی سے ہمکنار ہوئی۔

 

کورونا کا دور امت وحدہ کے لئے ابتلاء و آزمائش کا رہا، جب تبلیغی جماعت میڈیائی نرغے اور ہرکاروں کے جھنڈ میں پھنسی تو جمعیت علماء ہند کی مرکزی قیادت سے علاقائی سطح تک کے امراء سرگرمِ عمل ہو گئے اور اس پر آشوب دور میں جاں توڑ کوششیں کی،ان دنوں مسلمانوں کو اچھوت سے بھی بدتر پیش کیا گیا اور ان کے وجود کو ہی باعثِ بار بنا دیا گیا، میڈیا نے نفرت و عدوات کی وہ فصل تیار کی، جس بابت ملک بھر میں منتشر آباد مسلم گھرانوں کو ان کے گھروں میں ہی محصور کیا گیا، اور تبلیغی جماعت کے سر کورونا وبا کا الزام مڈھ دیا گیا، لہٰذا ہر باشرع مسلمان نشانہ پر آ گیا۔

 

اسی دورانیہ میں مدارس اسلامیہ کے رحاب میں بھی گدھ کی نظریں گئیں، جس میں سرِ فہرست ام المدارس، آرزوؤں کے محل دارالعلوم دیوبند کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس عالی شان لائبریری پر گری، اور دیگر مدارس بھی زد میں آئے،ان مسائل کے حل میں موجودہ حکومت میں موجود مطعونِ زمانہ مولویان مشکور و ممنون قرار پائے چونکہ انہوں نے انتظامیہ و اربابِ مدارس کے درمیان باہمی مفاہمت کا کردار ادا کیا۔

 

اسی طرح کورنٹین کی گئی جماعات کے افراد کی دلداری و مہمان نوازی میں عوام الناس کا کردار ناقابلِ فراموش ہے، جس میں اسلامی اخوت کا عکس و پرتو صاف و شفاف نظر آتا ہے اور اس میں صرف ایمانی رشتہ ہی محرک رہا۔

 

اب پیر و مرشد داعئ اسلام حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم کے کاروانِ دعوت و عزیمت پر نکیل کسنے کا خاکہ بنایا اور خفیہ ادارے حرکت میں آئے، اس وقت امت کے غیر شرعی چہرہ مہرہ والے خداترس و نیک دل افراد نے اپنے اثر و رسوخ بجا استعمال کیا اور اس فتنہ کی سرکوبی میں رات دن ایک کئے ہوئے ہیں،حالانکہ دہلی سے عمر گوتم و مفتی جہانگیر قاسمی کی گرفتاری کے بعد ہریانہ میں حکومتی کارندے میوات کے ماحول کو بگاڑنے اور بے جا الزامات کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں مصروفِ عمل ہیں، ہندی اخبارات کی جھوٹ اور من گھڑت کہانیاں مضحکہ خیز بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی، جھوٹ کو ایسے پروس رہے ہیں جیسے مہمانوں کے لیے ان کی چاہت کی ڈشیں، جس میں سچائی و انصاف کا کوئی اتا پتا نہیں۔

 

اندور میں ایک غریب مسلم چوڑی فروش کو چند زہر آلود نیچ افراد نے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا تو اہلیانِ اندور سراپا احتجاج ہوئے جس میں مسلم شرفاء و غرباء شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے. چونکہ کسی بھی مسلم کو بے یار و مددگار، مظلومانہ حالت میں بلکتا ہوا نہیں چھوڑا جا سکتا.

اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوتِ اسلامیہ اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ، وَلَا یَحْقِرُہٗ۔ اَلتَّقْوٰی ھَاہُنَا وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ۔‘‘ (صحیح مسلم،ج:۲،ص: ۳۱۷، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ)

ترجمہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘

گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے، یعنی سب کا ایک رب، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ہے جو کہ دینِ اسلام ہے۔

 

یہ سب امت کے اتحاد و اتفاق کی حالیہ مثالیں ہیں.

ایسی کتنی مثالیں ہمارے ساتھ روز افزوں سامنے آتی ہیں، جن میں امت ہر ہر فرد کار آمد نظر آتا ہیں،اب چاہے وہ بظاہر دین دار ہو یا نہ ہو، باشرع ہو یا نہ ہو لیکن سینہ کے دھڑکتے دل میں ایمان کی چنگاری اگر لو پکڑے ہوئی ہے تو وہ اپنا اثر رکھتی ہے، یوں یہ ملت متحد ہو جاتی ہے. اسی لیے علامہ اقبال نے اسی مناسبت سے سب کو امت کی تعمیر و ترقی کا حصہ بتاتے ہوئے فکر کا عکس ظاہر کیا۔

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

Comments are closed.