ہاپوڑ،علی گڑھ، دیوبند، پھلت کاسفر ( قسط6)

مفتی محمد اشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

*حضرت مفتی محمدارشد فاروقی صاحب سے ملاقات
15اگست کو وقت مقررہ پربیدارہوکر چاربجے ہم لوگ حضرت مولانا محمدسفیان صاحب قاسمی( مہتمم دارالعوام وقف) کے دولت خانہ پر گئے، لیکن حضرت سے ملاقات نہیں ہوسکی، ہم لوگ سیدھا دارالعلوم [وقف]کے لیے نکل گئے، (دارالعلوم [قدیم]سے دارالعلوم[وقف] آج سے بیس سال قبل دور معلوم ہوتا تھا، دونوں کے درمیان کھیتوں وغیرہ کے فاصلے تھے۔ لیکن اب وقف تک مکات ودوکانوں کاسلسلہ ہے)دارالعلوم وقف میں پہونچنے کے بعد وہاں کاتعمیری نقشہ پوری طرح تبدیل نظر آیا، وہ شیڈ کے کئی مستطیل ہال جس میں دروس ہوتے تھے۔ شیڈ کا بنا ایک مستطیل ہال جس میں دورہ کی کتابیں پڑھائی جاتی تھی،کبھی بندہ کوشش کرکےتبرکاًحضرت مولانا انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے درس بخاری میں حاضری کی سعادت حاصل کرتا تھا، تو گرمی کے دنوں میں اوپر پڑے لوہے کے شیڈ سے کافی پریشانی محسوس ہوتی تھی۔ مجاہدوں اور قربانیوں کے ساتھ تعلیم وتعلم والی وہ ساری عمارتیں (اکواخِ فقیری) تاریخ کاحصہ بن چکیں ہیں ۔ اسی طرح بابِ ظاہر کی طرف سے وقف آتے ہوئے دارالعلوم وقف سے قبل تالاب کی طرح ایک گڈھے میں صرف مسجد کے پلرکھڑے تھے۔اب وہاں خوبصورت مسجد ہے جہاں روزانہ پانچ وقت نغماتِ توحید بلند ہوتے ہیں، اس مسجد سے دارالعلوم قدیم کی طرف سے نظر ڈالنے پر دارالعلوم کے کتب خانہ اور دارالحدیث والی نئی عمارت ایسی نظر آتی ہے جیسے کہ وہ وقف و قدیم دونوں کی تعمیرات کاحصہ ہو۔ دارالعلوم وقف پہونچنے پر معلوم ہوا کہ حضرت والایہاں بھی نہیں ہیں۔ کچھ دنوں قبل حضرت والا کی طرف سے بندہ کوبذریعہ ڈاک ایک قیمتی علمی تحفہ موصول ہوا تھا، اُس پراظہارِتشکر وامتنان کے مضمون پر مشتمل اپنے لیٹر پر ایک خط اوراپنےتین رسالے حضرت والا کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے واچمین کے حوالہ کرکے ہم مفتی محمد ارشد صاحب فاروقی سے ملنے چلے گیے۔
ہم لوگ موصوف کے مسکن کا راستہ نہیں سمجھ پارہے تھے، تو جناب والا نےروڈ پر کھڑے ہوکر ہمارا انتظار کیا۔
آپ کے پاس پہونچ کر آپ کے مطالعہ روم میں پڑی کرسیوں پر ہم بیٹھ گیے ۔ موصوف نے ہمارے ساتھ بہت ہی محبت واکرام کا معاملہ فرمایا۔ موصوف کا کشادہ ٹیبل دیکھ کر رشک آیا۔ میں نے کہا کہ اکیڈمیشنس کے
لیے کم از کم اتناکشادہ ٹیبل ہونا چاہئے۔
میں نے موصوف کو اپنے تین چھوٹے چھوٹے رسائل دیے۔
موصوف نے میری کتابوں کی بہتر طباعت کے سلسلے میں کچھ اہم رہنمائی فرمائی، اور پھر اپنی طرف سے مندرجہ ذیل پانچ وقیع کتب بطورِہدیہ بندہ کوعطافرمائیں۔
1.فقہ السنۃ۔
تین ضخیم جلدیں۔
تصنیف:
علامہ السید سابق۔
اُردوترجمہ وتحقیق:
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی۔
2.ڈاکٹر عبدالرحمن السُمیط۔
تالیف:
عبدالعزیزسعودالعوید۔
ترجمہ:
مفتی محمدارشد فاروقی۔
3.فجر کا انسانی زندگی پر اثر۔
تالیف:
عبدالحمید جاسم البلالی۔
ترجمہ:
مفتی محمدارشدفاروقی۔
4.تربیتی نظام میں تبدیلی کی ضرورت۔
تالیف:
ڈاکٹر عجیل جاسم النُشمی۔
ترجمہ:
مفتی محمدارشدفاروقی۔
5.کیف آگیں نگارشات۔
تالیف:
یوسف عبدالرحمن۔
ترجمہ:
مفتی محمدارشدفاروقی۔
مزید ایک ضخیم کتاب میرے سامنے بڑھاتے ہوئے فرمایاکہ: "اس کی ایک ہی کاپی میرے پاس بچی ہے ورنہ یہ کتاب بھی آپ کو ہدیہ کرتا”.
ثانیُ الذکر کتاب افریقہ کے صحراؤں میں دعوتی فتوحات کے منارے تعمیر کرنے والے ڈاکٹر عبدالرحمن السُمیط کی حیات و خدمات، قربانیوں ومجاہدات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دعوتی کام کرنے والوں کے حوصلوں کو دو آتشہ بنانے والی ہے۔ دعوتی مقصد سے مساجد، مکاتب، مدارس، اسکولس،کالز، یونیورسیٹیز، ہاسپٹلس اوررفاہی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو بطورِمراکزِ دعوت استعمال کی صورتوں کی معلومات کے علاوہ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ کی بستیوں،آبادیوں،صحراؤں میں داعیانِ اسلام کومعاندین اسلام کی شدید مخالفت، مسلم ناموں سے مرتد اقوام (قادیانی وغیرہ) کی سازشوں کے ساتھ ڈاکوؤں، قزاقوں، نیزشیر، ہاتھی، بھیڑ، ازدہے وغیرہ جیسے وحشی جانوروں کے خطرات. خوراک، پانی اور ادویہ کی قلت وفقدان کے باوجود ڈاکٹر عبدالرحمن السُمیط نے کتنے عظیم دعوتی کارنامے انجام دیئے ہیں ؟
ہندوستان میں چونکہ اُتنی مشکلات نہیں ہیں اس لیے اس کتاب کے مطالعہ سے افریقہ کی بہ نسبت یہاں دعوتی فتوحات کی زیادہ امید پیدا ہوگی۔ اورداعیانِ اسلام کو کئی دعوتی تجربات کاعلم حاصل ہوں گے۔
بنابریں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہنے کامجاز ہوں کہ علماء و طلباء،ائمۂ مساجد اوردعاۃ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرناچاہئے۔ کتاب بڑی سائز میں پنج رنگی تحریر و تصاویر کے ساتھ خوبصورت اوراق پرمجلد456صفحات کی ضخامت پر مشتمل ہے۔ قیمت 400روپیہ ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں،طلباء مدارس، علماء ودُعاۃ کی مالی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر صرف مضامین کو عام اوراق پراگر شائع کرایا دیا جائے توکافی لوگ بسہولت اس کتاب سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ البتہ جب تک اس طرح اس کی طباعت نہیں ہوتی ہے، اُس وقت تک کم از کم دعوتی اداروں و لائبریریوں کو چاہیے کہ خواہش مند حضرات کے مطالعہ کے لیے
یہ کتاب مہیا کرادیں۔ شاید کتاب کی اہمیت ہی کی پیش نظرحضرت مولانا ولی رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ کےعلاوہ کسی کا تأثر کتاب میں نہیں شامل کیاگیا۔
مذکورہ بالا کتب میرے حوالہ کرتے وقت موصوف نے کہاکہ "میرےترجمہ پر ناقدانہ نظرڈالیں۔”
اپنی بے مائگی کہ بنا پر موصوف کے اس جملے سے مجھے کافی خجالت وسبکی کااحساس ہوا۔

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.