ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند، پھلت کاسفر ( قسط 7)

مفتی محمداشرف قاسمی
مہدپور،اُجین،ایم پی
*حضرت مولانامحمدسلمان صاحب بجنوری نقشبندی دامت برکاتھم کی خدمت میں حاضری*
مفتی محمدارشدصاحب فاروقی کے پاس سے نکل کر معھدانور(اس مدرسہ کانام تبدیل ہوگیا ہے۔میں نیا نام نہیں معلوم کرسکا)کی مسجد میں ہم نے عصر کی نمازاداکی۔ پھر ڈاکٹرمحمد اسرائیل صاحب نے کہا کہ مجھے مولا سلمان بجنوری سے ملاقات کرنی ہے۔چونکہ امیرِسفر مجھ ہی کو بنارکھاتھا، اس لیے میں مولاناسلمان بجنوری نام سے کوئی عام عالم سمجھ کر ان کی بات پر خاص توجہ نہیں دےسکا۔ لیکن عصرکے بعد کچھ وقت بچ رہاتھا، اس لیے میں بھی اس ملاقات میں شریک ہوگیا۔
موصوف کی رہائش دیوبند عیدگاہ کے پاس عید گاہ کے شمال دائیں سمت میں ہے۔ میرے زمانۂ طالبعلمی میں "عیدگاہ” شہر سے باہرتھا۔ اس لیے میں صرف ایک بارامیرالہند حضرت مولانا سیداسعدمدنی نوراللہ مرقدہ کی اقتداء میں عیدالفطر کی نماز ادا کرنے لیے عیدگاہ اس میں آیا تھا۔ اس کے بعد اس طرف کبھی نہیں آسکا تھا۔ آج عیدگاہ کی چاروں طرف مکانات یا دوکانیں ہیں۔
مکان پر پہونچ کر حضرت کی زیارت کا موقع ملا۔ مجلس میں تھوڑی دیر
بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ آپ نقشبندیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ ریحانۃ العصر حضرت مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی دامت فیوضہم کے خلیفہ حضرت مولانامحمد سلمان بجنوری نقشبندی ہیں۔ چونکہ نقشبندیہ سلسلے کے بزرگوں سے ،خاص طور پر حضرت مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی دامت برکاتھم اور آپ کے خلفاء سے بندہ کو خصوصی عقیدت و محبت ہے۔
(اسی عقیدت و محبت کا اثر ہے کہ میں نے اس سفر میں اپنی عُسرت کے باوجود دیوبند کے کتب خانوں سے 42سو روپے کی جو کتب خریدیں،ان میں اصالۃ خطبات ذوالفقار مکمل نئی سیٹ سرِفہرست ہے)۔
یہاں حاضری سے قبل بالکل احساس نہیں تھا کہ میں اتنی بڑی نسبت کی حامل شخصیت کی مجلس میں حاضر ہونے جارہا ہوں۔ اپنی لاعلمی کی وجہ سے چونکہ ذہنی طور پر استفادہ و اکتساب کے لیے پہلے سے تیار نہیں تھا، اس لیے مجلس میں حاضری کے بعد اپنی محرومی کی ٹیسیں مجھے ہنوز محسوس ہورہی ہیں۔
حضرت والا کی گفتگو کا محور حضرت مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی دامت فیوضہم کے ملفوظات تھے۔ دوران گفتگو معصیات میں مبتلاء افراد کے لیے ایک انتہائی حوصلہ افزاء جملہ ارشاد فرمایا کہ:
*”جو انسان اپنے قصد وارادہ سے کسی گناہ کو چھوڑدے تواس کی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔”*
جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ عموما کسی کی دعائیں رد نہیں ہوتی ہیں بلکہ کسی نہ کسی صورت میں ہر کسی کی دعائیں ضرورقبول ہوتی ہیں۔لیکن یہ جملہ معاصی میں مبتلاء انسانوں کو ترکِ معصیت کے لیے کافی حوصلہ بخش ہے، اس لیے میں نے درخواست کی کہ: حضرت!اس جملہ کو دوبارہ ارشادفرمادیں”۔ آپ نے اس جملہ کودوبارہ سنایا۔
ڈاکٹر محمد اسرائیل صاحب قاسمی چونکہ حضرت والاسے بیعت ہیں اس لیے بعد میں ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ جو لوگ معاصی چھوڑے ہوئے ہیں، ان کے لیے ترکِ معاصی پر استقلال واستقامت کی صورت میں حضرت والاکی طرف سے اس جملہ کی مزید وضاحت ہو جاتی تو اچھا تھا۔
یہیں عیدگاہ کی دائیں شمال قبلہ والے کونے پر نئی تعمیرشدہ ایک مسجد میں ہم نےمغرب کی نمازادا کی ۔ مسجد کشادہ ہے، لیکن وضوخانہ تک نمازیوں سے صفیں پُرتھیں۔آج سے بیس سال قبل اس علاقہ میں خاموشی وسناٹوں کا پہرہ تھا۔
*پھلت کاسفر رد*
ہم لوگ حضرت کے یہاں سے نکل کر دوسرے دن کے سفر کا پروگرام بنانے میں مصروف ہوگئے۔ چونکہ پھلت جانے کے لیے دیوبند سے مظفرنگر کا ریزرویشن تھا۔ لیکن پھلت میں حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب مدظلہ العالی سے ملاقات کے لیے حضرت والا سے رابطہ نہیں ہوسکاتھا۔ اس لیے دیوبند میں موجودحضرت والا کےتربیت یافتہ ایک داعی حضرت سید محمد اسلم صاحب کاظمی الحسینی سے ملاقات کرکے پھلت میں ہماری حاضری اور حضرت مولانا کلیم صدیقی دامت برکاتہم سے ملاقات کی صورت دریافت کی۔ تو پتہ چلا کہ محترم عمر گوتم کی گرفتاری کے بعد ہی سے حضرت والا کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہو سکتا ہے۔ پھر موصوف نے دعوتی فتوحات پر ایمان افروز متعدد واقعات سناکر ہمارے اندر دعوتی جذبہ بیدارکرنے کی کوشش فرمائی۔ اور آخر میں معلوم کیا کہ کتاب "آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں” ہے؟
میں نے بتایا کہ کچھ سالوں قبل رفقاءِ دعوت کی طرف سے کئی ہزار کاپیاں شائع ہوئی تھیں۔ اس کے بعد گرونانک پر میرے مختصر رسالہ "حضرت گرونانک اور اسلام” کو گُرمیت (پنجابی)میں شائع کراکے پنجاب وغیرہ کے گرودواروں میں حاضر ہوکر تقسیم کامنصوبہ تھا۔ لیکن سی اے اےاحتجاجات، اور پھر کوو19/ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ بھی نہیں ہوسکا۔ فی الحال ” آپ کی امانت آپ کی سیوامیں”کی کاپیاں ہمارے پاس نہیں ہیں۔
موصوف نے مذکورہ کتابچہ کی آٹھ دس کاپیوں کے ساتھ امت کو دعوت پر آمادہ کرنے والے مضمون اورتربیتی ورکشاپ کے اعلان پر مشتمل ایک اشتہار”اطلاعاعرض ہے” کی کئی کاپیاں دیں۔ہم لوگ یہ تحفےلیکر مہمان خانہ میں آگئے، اور عشاء کی نماز یہیں مہمان خانہ میں ادا کرنے کے بعد رات کے کھانے سے فارغ ہوئے۔ چونکہ دوسرے دن صبح ایک دوسرے کرم فرما کی طرف سے ہماری دعوت تھی.اس لیے اس سفر میں دارالعلوم کی طرف سے ہمارے لیے یہ آخری کھانا تھا۔ابھی تک کے کھانوں میں کئی شکلوں میں سید الطعام، سبزیاں،بریانی، روٹی کے ساتھ یہاں کے مشہور کھانوں میں دارالعلوم کی دال، روٹی، دیوبند کی تہڑی، اورجلیبی سے ہم مستفید ہوچکے تھے۔
مغرب کے بعد ملاقاتوں کے لیے چلتے ہوئے کسی چھوٹی سی دکان میں عقبی دروازے سےداخل ہوکرمیں نے اپنا موبائل فون ریچارج کرایا۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.