ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند، پھلت کاسفر( قسط 8)

مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اُجین،ایم پی
*حضرت مولانامجیب اللہ صاحب گونڈوی دامت برکاتہم سے ملاقات کی کوشش*
عشاء کی نمازاور کھانے سے فراغت کے بعد ہم دونوں
حضرت مولانامجیب اللہ صاحب گونڈوی دامت برکاتہم سے ملاقات کے لیے افریقی منزل گئے، مہمان خانہ کا دروازہ کھٹکھٹاگیا۔ کچھ وقفے کے بعددروازہ سے
ایک جواں عمرصاحب کا ظہور ہوا، میں نے سمجھا کہ یہ بھائی فیضان اللہ ہیں۔ علیک سلیک کے بعد ہم کمرے میں داخل ہوگئے۔ خیر یہ ہوئی کہ میں نے مزاح وتفریح کے طور پر کوئی جملہ نہیں بولا۔ بلکہ میں نے محب اللہ اور شہید اللہ برادران کے بارے میں معلوم کیا،تو وہ صاحب بولے میں سمجھ گیاکہ آپ لوگوں کو غلط فہمی ہورہی ہے۔میرانام عمران ہے۔حضرت مولانامجیب اللہ صاحب گونڈوی دامت برکاتہم یہ مکان خالی کرکے فلاں جگہ (مکمل ایڈریس بتایا) چلے گئے ہیں۔
چونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اس لیے حضرت والا کے نئے مکان پر حاضر ہوکرہم ملاقات نہیں کرسکے۔ حضرت والا سے بندہ کو ہدایہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔ اس شرفِ تلمذ کے علاوہ خاندانی و علاقائی تعلق بھی ہے۔ اس سے قبل کے سفرمیں بھی قلتِ وقت کی بناپر ملاقات وزیارت نہیں کرسکا تھا۔ آئندہ دو ایک ماہ کے بعد جب دیوبند کی طرف بازگشت ہوگی ( ان شاء اللہ) تو شاید حضرت والا کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوجائے۔ان شاءاللہ۔
*15/اگست،یوم آزادی مبارک*
میرے موبائل کاچارج پیک ختم ہوجانے کی وجہ سے
پورے دن کالنگ اور نیٹ کا سلسلہ بندرہا۔ نمازِمغرب کے بعد میراموبائل ریچاج ہوچکاتھا۔اس لیے رات میں جب آرام کے لیے حجرے میں پہونچاتواپنے ملک میں منعقد ہونے والی 15/اگست کو یوم آزادی کی رنگا رنگ تقریبات اورخوشی ومسرت کے ماحول واثرات کو دیکھنےوسننے کے لیے نیٹ آن کیا۔ لیکن ہمارے ملک کی میڈیا کی آنکھوں پرشاید کوئی ایسا چشمہ لگا ہوا تھاکہ اس چشمہ سے اپنے ملک کی تقریباتِ مسرت و مناظرِخوشی بالکل نہیں دکھائی پڑ رہے تھے، بلکہ وہ دور کافی دور افغانستان کے حالات بڑے دردووکرب کے ساتھ مسلسل بیان کیے جارہے تھے۔ شاید زندگی میں پہلی مرتبہ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ دوسروں کی فتح و خوشی کی تکلیف میں مبتلاء ہوکر ہماری میڈیا اپنی خوشی کو مکمل طورپر بھلا بیٹھی تھی۔ گودی میڈیا کے درمیان جس طرح صف ماتم بچھی ہوئی تھی وہ قابلِ رحم تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کمزور سمجھ کر حملہ کرنےوالے مغروروظالم امریکہ کے بجائے ہماری میڈیا کےساتھ کوئی ناخوشگوار معاملہ ہوا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، کہ امریکہ جس نے ہمارے ملک کو فریب دے کر مدِمقابل سےڈیل اور اگریمنٹ کرلیا، اس کی رسوائی پر ہماری گودی میڈیا کیوں اس قدر رنج میں مبتلا ہوگئی؟کہ اپنے ملک مین بجنے والے 15/اگست کے شادیانے وترانے سُنناوسُنانابھول گئی؟
اس تاریخ کو جو ہماری میڈیا خبریں نشر کر رہی تھی، اس کوسن اور دیکھ کر فتح مکہ کی تصاویر ذہن میں گھوم رہی تھی ، تو کبھی دجلہ کو عبور کرکے ایرانیوں کے چھکے چھڑانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مقدس قافلے کی یاد تازہ ہوتی۔ کبھی حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ (جسے قرآن میں احسن القصص کہاگیا) سے آج کا واقعہ مربوط نظر آتا۔ یوسف کو کنویں میں ڈالا گیا لیکن بعد مین کنویں میں ڈالنے والوں نے انھیں تختِ سلطنت پر براجمان پایا۔ یہاں بھی کل جس کے ہاتھوں میں زنجیریں ڈال کرکال کوٹھری میں مظلومانہ سانسیں لینے کے لیے مجبور کیاگیاتھا۔ آج یوسف کی طرح وہ مظلوم وبہادر شخص بھی ایک ملک کی مسندِ صدارت پر متکمن ہوگیا۔
کمزور وبے سہارا سمجھ کر مسلمانوں پرچڑھ دوڑنے والے آج جس طرح بھاگ رہے ہیں، اُس سلسلے میں پیشین گوئی پر مشتمل ایک پوسٹ کو ذیل میں کاپی پیسٹ کرنا مناسب خیال کرتا ہوں:
”افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
خدائے پاک ہی زیادہ جانتاہے کہ افغانستان پر چڑھ آنے والا امریکہ اور اس کے حوالی موالی افغانستان سے ‘ملا’ کو دربدر کرکے افغانیوں کی غیرتِ دین کا علاج کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا خدائے قادرعلی الاطلاق کی توفیق سے ‘مُلا’ہی افغانستان اور اس کے اردگرد سے بھیڑیوں اورکتوں کو رگیددینے میں کامیاب رہتے ہیں۔’
یہ حضرت الاستاذ مولانا نورعالم خلیل امینی علیہ الرحمہ استاذ عربی ادب و مدیر ماہنامہ ‘الداعی’ دارالعلوم دیوبند کے اس مضمون کا اقتباس ہے، جو انہوں نے آج سے بیس سال پہلے 2001ء میں افغانستان میں امریکی حملے اور جنگ شروع کرنے کے بعد لکھا تھا۔
اور ماہنامہ’الداعی’ (عربی) نومبر/دسمبر2001ء، و ماہنامہ ‘دارالعلوم دیوبند’ دسمبر/جنوری/فروری 2001_2002ء اور دیگر کئی رسالوں اور ماہناموں میں شائع ہوا تھا۔
آج کے تناظر میں اس پیراگراف کو پڑھیے اور سوچیے کہ فراستِ ایمانی اور توکل علی اللہ کی بنیاد پر لکھے جانے والے یہ الفاظ کس طرح حرف بہ حرف صادق آئے اور کیسے گیدڑ اور کتے نکل کر بھاگے!
افغان طلبہ کی جرأت وہمت، شجاعت و استقامت، حمیتِ دینی، غیرتِ اسلامی اورجذبۂ آزادی کو سلام! یقینا ان مُلاؤں اور درویشوں کی فتوحات سے بڑے بڑے لال بھجکڑوں کی عقلیں حیران اور آنکھیں خیرہ ہوں گی اور ایمان کے متوالوں کے لیے قادر مطلق اللہ پر ایمان ویقین میں اضافہ ہواہوگا۔
[عکس ‘عالم اسلام کے خلاف موجودہ صلیبی و صہیونی جنگ’ص:91/تیسراایڈیشن]”
ماخوذ:محمد عدنان کشنجوی کے فیس بک سے۔
16/اگست2021ء
اس دن ہماری میڈیا اپنے ملک کی خوشی کو بھلاکر خواہ مخواہ سینہ کوبی میں مبتلاء ہوگئی۔ افسوس ۔۔۔۔
میں تو دوسروں کی خوشی کے غم میں اپنے ملک کے پندرہ اگست کو خراب نہیں کرسکتا ہوں، اس لیے ملک وعالم کےتمام لوگوں کو پندرہ اگست اور یوم آزادی کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
جاری۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.