ہاپوڑ، علی گڑھ، دیوبند، پھلت کاسفر ( آخری قسط9)

مفتی محمداشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

*مزارِانورپرحاضری اوراپنے مستقرکی طرف بازگشت*

ہم 16اگست2021ء کو چاشت کے بعد مزارانور پرفاتحہ خوانی واکتسابِ فیض کے لیے حاضری ہوئے۔
مزارِانورپہلے شہر سے باہر تھا، لیکن اس وقت مزار کی چاروں طرف قائم مکانات نے گھیرکر مزارِانورکو درونِ شہرکرلیاہے۔
یہاں فاتحہ خوانی کے بعد میں نے رفیقِ سفر ڈاکٹر محمداسرائیل صاحب قاسمی سے مزارِانور کی مختلف قبروں پر لگے کتبوں کی تصویر کشی کی خواہش ظاہر کی،تو موصوف نے کافی تصاویر اپنے موبائل میں محفوظ کرلیں۔
میرے سفرنامہ کی آخری قسط حوالہ قارئین کیے جانے کے دن یہ حصہ(مزارِانور کے کتبوں کے مضامین)میں نے ضبط کیاہے۔
مزارِانورکے جو کتبے تصاویر میں پڑھے جاسکے ہیں وہ تبرکاً ذیل میں پیش ہیں:
1.
"786
مرقد مبارک ومنور
حضرت رئیس الحکماء والمتکلمین،خاتم الفقہاء والمحدثین، شیخ الاسلام،
مولاناسیدانورشاہ کشمیری،
کہ 3/صفر1352ھ بوقت نصف شب ازدارالفنا بسوئے دارالبقاء رحلت فرمود”
2.
"786
مزار
اہلیہ حضرت مولانا محمد انورشاہ کشمیری
16/ربیع الاول 1387ھ بروزاتوار،
قاصدِاجل نے ہنگامۂ عالم سے جُداکیااورقبرمیں لاسُلایا۔اس طرح شفقت ورافت اور مہر ومحبت کاجلوہ صدرنگ آب تہ خاک پنہاہے،
ہوگیا آغوش مادر بھی جداآج اے نظر
اب ملے گی ایسی راحت پھر نہ دنیا میں کبھی ”
3.
"786
مزارحسرت
تہہ خاک قیامت کی نیند سونے والی
انظرشاہ استاذ دارالعلوم کی اہلیہ ہے، کہ بعمرپینتیس35سال 27/ربیع الثانی 1392ھ ،شب اتوارمیں،معمورۂ عالم سے اُٹھی اور اِس خرابہ میں ہمیشہ کے لیے آبسی،
چاندنی افسردہ، گل بے رنگ وبو، نغمے اداس
اِک تیرے جانے سے کیا بتلاؤں کیا کیا ہوگیا
طاب ثراہ”

4.
"ھوالباقی
مزارِمبارک
امام تفسیروحدیث،صاحبِ طرزخطیب وادیب فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظرشاہ مسعودی قدس سرہ،
شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم و دارالعلوم وقف دیوبند۔
ولادت14شعبان 1340ھ مطابق 26/جنوری 1625ء
چمک اٹھے نہ کیوں یہ خاک اس صحرا کے دامن پر
کہ برسی جب مسلسل رحمتِ رب میرے مرقدپر”
5.
"786
بہن اوربھائی کامرقد
یہ حضرت علامہ کشمیری کی بڑی صاحبزادی اور منجھلے صاحبزادے، بہن اوربھائی کی مخلصانہ اخوت کے ساتھ قیامت تک سوتے ہیں، بڑی صاحبزادی عابدہ خاتون ہیں، جن کی تاریخ وفات 11/رمضان المبارک 1357ھ اورصاحبزادے اکبر شاہ مرحوم المتوفی 29/شعبان 1359ھ ہیں،
گورستان میں پہلے بڑی بہن پہونچیں تو بھائی یہ کہتے ہوئے جاملا۔
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
یعنی گل کی ہم نفسِ بادِ صباہوجائے گی
اللھم نورمرقدھما”
حضرت مولاناازہرشاہ قیصر علیہ الرحمہ کے کتبہ کی تصویر موبائل میں صاف نہیں تھی، اس لیے اس کتبہ کونقل نہیں کرسکا۔
جس طرح ان تحریروں کا عکس ہمارے موبائل میں قید ہوگیااٌسی طرح یہاں مدفون عظیم ہستیوں کے عکس ونقش دل ودماغ میں جمائے ہوئے ہم مزارِ قاسمی پر فاتحہ خوانی واکتساب فیض کے لیے حاضر ہوئے۔
مزارقاسمی سے واپسی کے بعدحضرت مولانا عبدالستارصاحب قاسمی بھاگل پوری دامت برکاتہم نے بڑی محبت و شفقت کے ساتھ ناشتہ میں تہڑی، چائے سے ہماری میزبانی فرمائی۔ اوردوپہر میں کھانے کی دعوت دی۔ چونکہ پھلت کاسفر ردہوگیا تھا، اس لیے دیوبند وپھلت کی ٹرین چھوڑکرلگ بھگ بارہ بجے بذریعہ بس مظفرنگر(جہاں سے ہمیں چار بجے ٹرین پکڑنی تھی۔) سفر کانظام بنایا گیا۔
ہم لوگ گیارہ بجے دوپہرکاکھانا حضرت مولانا عبدالستارصاحب قاسمی کی میزبانی میں تناول کرکے بذریعہ بس سرزمین دیوبند کو الوداع کہہ کرتقریبا تین بجے مظفرنگر پہونچ گیے اوردہرہ دون باندرہ ٹرین 09020سے تقریبا چاربجے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
رفیق سفر ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ اس سفر کی روداد کو میں لکھوں،چنانچہ فرصت دیکھ کر ٹرین ہی میں سفر کی یہ مختصر روداد لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ٹرین میں ہم نے انفرادی طور پرعصر،مغرب او فجر کی نمازیں ان کے وقتوں پر ادا کیں۔ شب میں کئی مرتبہ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب نفلی نمازیں پڑھنے میں مصروف ہیں۔ میں نے نرمی سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کے سفر میں نفلی نماز کے بجائے ذکر واذکار، مطالعۂ کتب، مراقبہ وغیرہ میں مصروف ہوناچاہیے۔ بھیڑبھاڑ میں اس طرح نوافل نماز میں مصروف ہونے سے نماز کا استخفاف ہوتا ہے۔
مزارِانور کے کتبوں کے استثناء کے ساتھ اپنی منزل پرپہونچنے سے قبل 17اگست کی صبح سات بجے تک یہ تحریر مکمل کرلی۔

والحمد لله رب العالمین

محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:
شہرمہدپور،اُجین،(ایم پی)
[email protected]
آخری قسط مرسلہ:
18محرم الحرام 1443ھ مطابق27اگست2021ھ

Comments are closed.