حقائق اور غلط فہمیاں

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

آر ایس ایس کی طرف سے وقفہ وقفہ سے یہ بات سامنے آتی رہتی ہے، کہ ہندوستان کے سارے باشندے ہندو ہیں ,اور ان سب کی تہذیب ہندتو ہے ، سب ہندو دیو مالائی تہذیب کے پرستار ہیں، اس سلسلہ میں راقم کی ایک تحریر پہلے بھی آچکی ہے،کچھ باتیں رہ گئی تھیں ،آج اسی مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں، اور حقائق سامنے آئیں اور ہم جان سکیں کہ لفظ ہندو اور ہندوستانی کی حقیقت کیا ہے ؟،اور اس مذہب کی بنیاد اور اصل کیا ہے؟۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کے بعد نبوت ملی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےجب خدا کے حکم سے فریضہ رسالت ادا کرنا شروع کر دیا تو مشرکین مکہ سمجھے کہ یہ وقتی جوش و جذبہ ہے، یہ دین اور دعوت خود بخود مر جائےگی اور ختم ہوجائے گی، لیکن جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ دین اسلام تو دن بدن مضبوط ہوتا جارہا ہے اور اس دین کے متبعین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس کی خوشبو مسلسل پھیل رہی ہے، تو ان لوگوں نے دین حق کے چراغ کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اہل ایمان کو ہر طرح سے ستایا اور اس مذہب سے لوگوں کو نکالنے اور دور رہنےکی پوری کوشش کی، لیکن جب اس مہم میں وہ ناکام و نامراد ہوگئے تو انہوں نے صلح اور سمجوتہ کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہا ۔ سیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو فارمولے پیش کئے گئے، ایک فارمولہ یہ تھا ،کہ ہم سب لوگ جس میں آپ بھی شامل ہوں،ہماری دیوی دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کریں اور ایک دن یا ایک سال سب کے سب آپ کے خدا کی پوجا کرلیا کریں ۔دوسری صورت یہ ہے کہ روزانہ ہم دونوں مل کر آپ کے معبود کی بھی عبادت کریں اور ہمارے معبودوں کی بھی،اس طرح دونوں کے معبودوں کی پوجا ہوجائے اور جھگڑا ختم ہوجائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اس بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے، حکم اور فیصلہ کر انتظار کرنے لگے، اسی موقع پر سورہ کافرون نازل ہوئی ۔ جس میں یہ وضاحت آگئی کہ توحید اور شرک ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے یہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ مسلمان تمہاری دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کریں ،جن کو وہ عبادت کے کسی طرح لائق نہیں سمجھتے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس کے مقابلہ میں صلح کی ایک شکل اور راستہ نکالا کہ ہر آدمی کو اپنے مذہب پر قائم رہنے اور اپنے دین و عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کا اختیار ہو اور دوسرے کے عمل میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ ،،لکم دینکم ولی دین،،سے اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔
تقریبا اسی سے ملتا جلتا فارمولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اختیار کیا ۔ یہودیوں کے یہاں تین بڑے خاندان اور قبیلے تھے مدینہ کے آس پاس اکا دکا مشرکین بھی تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبیلوں کے ساتھ مل کر ایک معاہدہ کیا، جس کو میثاق مدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس معاہدہ اور پیکٹ میں درسایا گیا تھا اور یہ عہد کیا گیا تھا، اور تمام قبائل کے سرداروں سے دستخط لیا گیا تھا اور اس بات کی گارنٹی اور ضمانت لی گئی تھی کہ تمام لوگ بقاء باہم کے اصول پر زندگی گزاریں گے ۔ ہر مذھب کے ماننے والوں کو ان کے مذہب پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ اور اگر باہر سے آکر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو سب ملکر مدینہ کا دفاع کریں گے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ان اصطلاحات کا اسلام سے کوئی جوڑ نہیں ہے ،اسلام میں تو صاف صاف کہہ دیا گیا ہے ان الحکم الا للہ ۔ لیکن مجبوری میں جمہوریت اور سیکولرذم جیسی اصطلاحات کی تائید کی جاتی ہے جہاں اسلامی حکومت نہیں ہوتی۔
اس میں شک نہیں کہ ایک ایسا سماج اور ایک ایسی سوسائٹی جس میں مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں رنگوں اور نسلوں اور زبانوں کے لوگ رہتے ہیں وہاں اس سے بہتر اور قابل قبول کوئی اور راستہ اور فارمولہ نہیں ہوسکتا، وہاں اسی فارمولے پر عمل کرنا مجبوری ہوتی ہے ۔ ایسے ملکوں میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اصولوں اور فارمولوں کے مطابق اپنے مذہب اور شریعت کے مطابق عمل کریں اور دعوت وتبلیغ کے ذریعہ احیاء دین اور غلبئہ اسلام کی کوشش کرتے رہیں اور یہ کوشش صرف رسمی نہ ہو بلکہ پورے اخلاص جذبہ اور حوصلہ کے ساتھ اس کے لئے کام کرتے رہیں ۔
ملک عزیز ہندوستان میں بھی آزادی کے بعد جب یہاں کا آئین اور دستور بنانے کا کام شروع ہوا تو ان ہی اصولوں پر اس ملک کا ائین و دستور مرتب کیا گیا اور یہاں کا آئین ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ کے پھول موجود ہیں اور یہ تنوع اور رنگا رنگی ہی اس آئین کا اصل حسن ہے ۔ اسی سے ہندوستان کی دوسری جگہوں پر پہچان ہے ۔ اس آئین کے تحت اکثریت اور اقلیت کے تمام گروہوں کے وجود اور حیثیت کو تسلیم کیا ہے ۔انہیں مذھبی اور تہذیبی آزادی حاصل ہے ۔ نہ کسی مذھب کو کسی پر مسلط کیا جائے گا اور نہ تہذیب اور زبان کو ۔ ہندوستان میں تقریبا آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ۔ وہ حکومتیں شاہی انداز کی تھیں اگر وہ مسلمان حکمراں چاہتے تو پورے ملک میں ایک تہذیب اور ایک زبان نافذ کردیتے اور کوئی ان کو روک نہیں پاتا ۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی اپنایا اور ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ پر عمل کرنے کی آزادی دی، اپنی زبان بولنے لکھنے کی آزادی دی، اور مذھبی رواداری کا ایسا خیال رکھا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔(مستفاد از کتاب متاع فکر و نظر از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی)
لیکن افسوس کہ آزادی کے وقت اور اس پہلے بھی ایک قوم دشمن تحریک یہاں پنپتی رہی جس نے پس پردہ انگریزوں کی مدد کی ،اور جن کا مقصد یہ تھا کہ اس ملک کو آزادی کے بعد ہندو راشٹر بنانا ہے وہ جماعت ہمیشہ سرگرم رہی ،اور ملک کے مفاد کے خلاف کام کرتی رہی ۔ اس پر لگام نہیں کسا گیا اور اگر کبھی کسا بھی گیا تو وقتی طور پر، پھر اس کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور کوئی مضبوط شکنجہ نہیں کسا گیا ۔ کانگریس کی سرد مہری کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے اور خود اپنی زندگی کو ثابت کرنے کے لئے اس کو جان ٹوڑ محنت کرنی پڑ رہی ۔ آگ کھانے کا نتیجہ انگارے کی شکل میں نکل رہا ہے ۔ اس فاشسٹ تنظیم کا پورا تانا بانا اسرائیل سے جڑا ہوا ہے اور اسی اسرائیلی آقا کے فرمان کے مطابق مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے ہمیشہ برسرپیکار رہتی ہے ۔
سال گزشتہ بھی آر ایس ایس پرمکھ کا ایک بار بیان آیا ہے کہ سارے ہندوستانی ہندو ہیں اور ان سب کی تہذیب ایک ہے اور وہ ہندتو ہے۔
سب پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لفظ ہندو کی حقیقت کیا ہے ؟ معنوی اعتبار سے کیا یہ لفظ قابل احترام ہے؟ لفظ ہندو کے بارے میں اب تک کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی گئی ہے اور ہندو اصطلاح کی کوئ جامع تعریف نہیں ہوسکی ہے ۔ اس لفظ کے بارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ہندو کے اصل معنی غلام کے ہیں، آرین جب اس ملک میں آئے تو انہوں نے یہاں کے لوگوں کو غلام بنا لیا۔ اور بطور تحقیر ان کا نام ہندو رکھا،ایک خیال یہ بھی ہے کہ ہند کے معنی فارسی زبان میں تل کے ہوتے ہیں جو سیاہ ہوتا ہے ،اسی طرح ہندوئے چرخ اس سیارہ کو کہتے ہیں جو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے ۔ آرین ایران کی طرف سے آئے تھے ان کا رنگ وروپ کھلا ہوا اور گورا تھا اور اس خطہ کے مقامی لوگ کالے رنگ کے تھے ،اس لئے انہوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کو ہندو کا نام دے دیا ،غرض کہ یہ آریہ لوگوں کا دیا ہوا نام ہے ۔ اور اس میں تعظیم و احترام کے بجائے تحقیر و اہانت کا پہلو ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی نام کسی اور مفہوم و معنی کے ساتھ مشہور ہوجاتا ہے تو اصل پس منظر سے نگاہ اور توجہ ہٹ جاتی ہے، اور لوگ معروف و مشہور معنی کو لے لیتے ہیں اور اصل مفہوم اور مراد کو بھول جاتے ہیں ۔ اصل مفہوم اور معنی کے اعتبار سے دیکھا جائے لفظ ہندو سے کسی قوم یا ملک کے باشندوں کو موسوم کرنا عجیب سا لگتا ہے ۔ ( مستفاد از کتاب متاع فکر و نظر صفحہ ۳۶۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب فرد، سماج و معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت کرتا ہے ۔ ایک بامقصد اور نفع بخش زندگی گزارنے کا شعور بخشتا ہے ۔ دنیا اور آخرت کے لئے ایک باقاعدہ نظام اور مرتب لائحہ عمل پیش کرتا ہے ۔ صحیح و غلط، خیر و شر، نیک و بد کی تمیز اور شعور کو جلا بخشتا ہے اور بقول شخصے : مذہب ،انسان اور اس کے سماج کے لئے سمندری جہاز کے قطب نما کی مانند ہے۔ اگر مذھب کا وجود نہ ہوگا، تو انسان اس سمندری گرداب اور موج میں غوطہ کھاتا رہے گا، اور کبھی نجات کے ساحل پر نہیں پہنچے گا ۔
مذہب ہی کی وجہ سے تہذیبیں وجود میں آتی ہیں زبان و ادب علم و عمل یہ سب مذھب کے وجود سے پھلتے پھولتے ہیں ۔ آج دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے بقاء باہم کے اصول و قوانین طے کئے گئے ہیں، تہذیبی ٹکراؤ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بنا پر ایک تمدن کو دوسرے تمدن پر فوقیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مذھبی مقاصد اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے مذاہب سے خواہ قریب ہوں یا دور ہوں طرفین کو ایک دوسرے کی حیثیت کا بہر حال احترام کرنا ہوگا ۔ اس لئے علوم مذاہب کا مطالعہ وقت کی ایک ضرورت اور حقیقت بن چکا ہے ۔ اور یہ مطالعہ موجودہ دور کے حالات میں رواداری و سلامتی، افہام و تفہیم امن وشانتی کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئین و دستور کے مرتب کرنے والوں نے اس ملک کو بھارت کا نام دیا ، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملک کے ہر باشندے کو بھارتی کہنے کا جواز ہے ،لیکن ہر بھارتی کو ہندو کہا جائے اس کا جواز کیوں کر ہوسکتا ہے؟ مسلمانوں نے اس ملک کو *ہندوستان* کا نام دیا ،اس پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے ،مسلمان جب اس ملک میں آئے تو یہ پورا خطہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور راجواڑوں میں منقسم تھا ۔ مسلمانوں نے اس خطہ کو وسیع شکل دیا ۔اس کے زمینی حدود اور رقبہ کو وسیع کیا ۔ چونکہ یہاں کے زیادہ تر باشندے اپنے آپ کو ہندو کہتے تھے اس لئے مسلم حکمرانوں نے اس ملک کو ہندوستان کا نام دیا ۔ یہ مسلمانوں کی انصاف اور عدل پروری کی بات تھی کہ انہوں نے اپنے مذہب اور ثقافت سے موسوم کرنے کے بجائے یہاں کے اکثریتی طبقہ کا لحاظ رکھا ۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہاں کہ ہر باشندے کو ہندوستانی کہنا سب سے زیادہ بہتر ہوگا ۔ نہ کہ ہندو،انگلینڈ اور جرمنی میں قدیم میں سب ایک ہی نسل کے تھے ،اس لیے ان کی نسبت کا خیال اور لحاظ کرتے ہوئے انہیں انگریز اور جرمن کہا گیا ۔ لیکن ہندوستان کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ،یہاں کی نوعیت وہاں سے الگ ہے ،ہر رنگ نسل اور زبان کے لوگ یہاں آباد ہیں، اس لئے ان کو ایسے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے، جس کی نسبت مقام کی طرف ہو، نہ کہ مذھب یا رنگ و نسل اور زبان و کلچر کی طرف ۔ ( مستفاد از کتاب متاع فکر و نظر صفحہ ۳۶۱)
یہاں پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ *ہندوستان* کے آئین و دستور، ہندوستانی عدلیہ اور لوگوں کے موجودہ عرف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندو لفظ نہ کسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے، نہ علاقہ اور مذھب کی ،ان کی مذہبی کتابوں میں بھی مذہب کی حیثیت سے ہندولفظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ہندوستان کے قدیم دھرم کو *ویدک دھرم* کہا جاتا تھا ۔یعنی ایسا دھرم جس کی بنیاد ویدوں کی تعلیمات پر ہیں ،ویدوں کی تعلیم کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ویدک دھرم کی بنیاد عقیدئہ توحید پر تھی ۔ ویدوں میں ہزار تغیر اور تبدیلی کے بعد بھی توحید کی تعلیم اور پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کا آخری رشی منی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ ویدوں میں توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کا تذکرہ موجود ہے ۔ وید میں سیکڑوں اقتباسات موجود ہیں ، جس سے توحید و رسالت اور آخرت کی تعلیم کی تفصیلات ملتی ہیں ۔ صرف ایک دو اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔ پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں اس کو نقل کیا ہے ۔
وہ (خدا ) محیط ،پاک اور جسم سے خالی ہے ۔( یجروید )
میں خدا افضل ترین قوت و نعمت کا منبع ہوں ،سورج کی طرح تمام عالم کو منور کرتا ہوں ،نہ میں کبھی مغلوب ہوتا ہوں،اور نہ مرتا ہوں ،یہ تمام عالم جو نعمتوں کا مخزن ہے،اس کا خالق میں ہوں ،تم مجھے ہی اس دنیا کا خالق اور مبدا سمجھو،اے اہل علم ! تم نعمت و حشمت کے حصول کے لیے کوشاں رہ کر علم وغیرہ نعمتوں کے لئے مجھ سے ہی التجا کرو ۔ میری رفاقت سے کبھی رو گرداں نہ ہو ۔ ( رگ وید )
رگ وید ہی میں یہ بھی لکھا کہ جس سے کس قدر بصیرت مندانہ توحید کی تعلیم واضح ہوتی ہے؟
*اے بنی نوع انسان! میری حقیقی حمد و ثنا، راست گوئ ہے ۔ ایسی حمد کرنے والے انسان کو میں ازلی علوم وغیرہ عطا کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے عالم میں جو اشیاء موجود ہیں ان کا خالق اور قیوم میں ہوں ۔ اس لئے تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کی عبادت مت کرو ۔ اور نہ کسی کو میری جگہ معبود مانو اور جانو* ( اتھر وید)
ایک اور جگہ اللہ کی صفات کو یوں بیان کیا گیا ہے :
جسے آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ آنکھ جس کی قدرت سے دیکھنے کے قابل ہوتی ہے ۔ اسے ہی تم خدا سمجھو، آنکھ سے دکھلائی جانے والی جن چیزوں کو لوگ عبادت کرتے ہیں وہ خدا نہیں ہیں۔
(مضمون کا اگلا حصہ پھر کسی دن ملاحظہ کریں)

Comments are closed.