اسکول، کالجز کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے!

انتظار احمد وفا
کٹھیلا،مدھوبنی بہار
امارت شرعیہ اور جمعیۃ علماء ہند جیسی بڑی تنظیموں کو اس کام کے لئے آگے آنا ہوگا۔آج کل اچھے گھروں کی بہت ساری مسلم لڑکیاں ارتداد کی شکار ہو رہی ہیں۔ ارتداد کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک سب بڑی وجہ دینی تعلیم کا فقدان اور سیرت رسول،سیرت صحابہ وصحابیات سے ناواقفیت ہے۔
زیادہ تر امیر ترین گھروں کی لڑکیاں مدرسہ نہیں جا تی ہیں،چونکہ والدین ہی خود کو چھوٹا محسوس کرتے ہیں اپنی بچیوں کو مدرسہ میں پڑھانے میں۔ اوراسی لئے ان گھروں کی بچیوں کی مکمل تعلیم کانونٹ، اسکول اور کالجز میں ہی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان گھروں کی لڑکیاں دینی تعلیم اورسیرت کی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں اور بہت سار ےفتنوں کی شکار ہو جاتی ہیں ۔
میں اس لئے آج یہ مضمون لکھ رہا ہوں کیونکہ مجھے درد اور تکلیف ہوئی، میں اس وقت جہاں ہوں وہاں ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی جو استاذہیں۔ اور اتنا کما لیتے ہیں کہ زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔لیکن انکی شادی 3 سال پہلے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے ہوئی تھی، یہ صاحب اپنے طور سے بہت کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کی ضروریات پوری کر سکیں اور اسکو خوش رکھ سکیں جو کہ ہر وفادار شوہر چاہتا ہے ۔
لیکن انکی بد قسمتی کہیں کہ انکی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی کو دینا کے وہ سارے عیش و آرام چاہیے جو کروڑوں کمانے والے لوگوں کے یہاں ہوتاہے ۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ کہتی ہیں کہ اگر تم میری ساری خواہش پوری نہیں کرپائے تو میں تمہیں چھوڑ دوں گی، جس کی وجہ سے یہ صاحب بہت پریشان رہتے ہیں، اسکے چھوڑ جانے کی وجہ سے اپنی عزت جانے کا ڈر انکو ہمیشہ ستاتا رہتا ہے، راتوں کی نیند حرام اور زندگی کا سکون غارت ہوگیا ہے سب کچھ رہتے ہوئے بھی ۔
آخر ایسا کیوں؟؟
وجہ صاف ہے۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو دینی واخلاقی تعلیم نہیں دی گئی،اپنے صحابہ وصحابیات کی سیرت کی تعلیم نہیں دی گئی ۔انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو نہیں پڑھا جو جنت کی عورتوں کی سردار ہوتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں سے چکی پیستی تھیں جس کی وجہ سے ہاتھوں میں زخم آ گئے تھے۔
جب ہمارے پیارے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم جن کے صدقے میں اللہ نے دو جہان کو بنایا، اپنی لخت جگر کا نکاح حضرت علی سے طے کر رہے تھے تو اس وقت حضرت علی کے پاس مہر تک دینے کے پیسے نہیں تھے لیکن قربان جائیے آقا مدنی پر جنہوں نے دولت کو فوقیت نہیں دی ۔دین داری اور پاکیزگی کو آگے رکھا اور اپنی لختِ جگر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا ۔ لاکھوں سلام ہو امّاں فاطمہ پر جنہوں نے حضرت علی کے ساتھ ایسی زندگی گزاری جو دنیا کے لئے مثال ہے جو تاقیامت دنیا کی عورتوں کے لئے زندگی گزارنے کا اسوہ اورنمونہ ہے ۔
آخر کیوں نہیں پڑھتی ہماری بہنیں امّاں عائشہ کی سیرت کو جو عرب کے مشہورتاجراورمالدارشخص کے گھر میں پیدا ہوئیں اور رحمت للعالمین کے گھر کی ملکہ تھیں۔ جی وہی ملکہ جن کے گھر میں اکثروبیشترفاقہ ہو جایا کرتا تھا اور دنیا کو پتہ نہیں چلتا تھا ۔
جن کے گھر میں چراغ جلانے کو مٹی کا تیل نہیں ہوا کرتا تھا ۔جو اپنے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں ۔اگر وہ چاہتیں تو دنیا کی ساری آرائش انکے قدموں کی دھول تھی، لیکن انہوں نے دنیا کو ترجیح نہیں دیں ۔دنیا کو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ مومن کے لئے امتحان گاہ اور کافر کے لئے جنت ہے ۔ مومنوں کی جنت تو اللہ پاک نے بنایا ہے جہاں ابدی زندگی گذارناہے ۔
اس لئے میں امارت شرعیہ، جمعیۃ علمائے ہند اور اس جیسی ساری ملی تنظیموں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہر گاؤں ہر محلے میں ایک ایسا ادارہ قائم کیجئے جہاں اسکول کالجز کی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں کو سیرت صحابیات کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ شادی شدہ گھروں میں سکون ہو اور طلاق جیسی غلیظ چیزوں سے بچا جا سکے ۔
امید کرتا ہوں کہ ہمارے علماء کرام ، ملی وسماجی رہنما، قوم کے دانشوران وقت کی اس اشد ضرورت کوسمجھتے ہوئے اس پر ایک سنجیدہ تحریک چلائیں گے اور قوم وملت کی بیٹیوں کوبااخلاق اورباکرداربنانے کی طرف خصوصی توجہ مرکوزفرمائیں گے۔انشاءاللہ

Comments are closed.