Baseerat Online News Portal

اس شام کی صبح کب ہوگی؟

 

  1. نور اللہ نور

ہمارے ملک میں خواتین کے تحفظ اور ان کے استحقاق کے نام پر لوگوں نے جتنی دکان چمکائی ہے اس کی مثال نادر ہے ، "ایک ناری سو پر بھاری ” عورتیں گھر کی رونق ہے، بیٹی پڑھاؤ بیٹی بڑھاؤ ، اور ناری بھگوان کا روپ ہوتی ہے ، اس طرح کے نعرے اور قصیدے بہت کہے گئے مگر یہ سارے کے سارے مکر سے پر اور مفاد سے پر ہیں ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں.

اس کو دلیل و براہین سے ثابت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ” نربھیا” سے لیکر خاتون پولیس افسر کے ساتھ جنسی زیادتیاں ان سارے دعوؤں کو سرے سے مسترد کر رہی ہیں، نو عمر دوشیزائیں سے لیکر کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اس بات کی طرف غماز ہے کہ اس ملک میں کبھی بھی خواتین کو اس کا بنیادی حق دیا ہی نہیں گیا ، چاہے وہ عام خواتین ہو یا سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین ہمیشہ ان کے عفت کی ردا چاک کی گئی.

خواتین کے تحفظ کے نام پر لاکھوں بل پاس کئے گئے ، ہزاروں تجاویز پیش کی گئی مگر ان کے باوجود ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکا ، ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز ہیں مگر آج بھی خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور ہر والدین اپنی بچیوں کے تئیں متفکر رہتے ہیں.

روز اخبارات کی سرخیاں اس طرح کے واقعات سے بھری ملتی ہے ، سماج دشمن ، اور انسانیت سے بیزار وحشی روز ایک معصوم کی عفت سے کھلواڑ کرتا ہے مگر ہم ، ہمارا معاشرہ، تحفظ حقوق نسواں کے نام پر ذخیرہ اندوزی کرنے والے این جی اوز، اور اقتدار میں بیٹھے لوگ بس خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور دو چار مذمتی جملے کے علاوہ ہم سے کچھ نہیں ہوتا.

 

"ناری شکتی ناری شکتی ” کا راگ ہر روز الاپا جاتا ہے مگر اسے حقیقت میں با اختیار کیوں نہیں بنایا جاتا ، عورت گھر کی رونق ہوتی ہے تو اس کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اگر اس میں ” دیوی کا روپ ” ہے تو اس کی عظمت بحال کیوں نہیں کی جاتی ؟ دیواروں پر بڑے نمایاں طور پر ” بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ” کا نعرہ لکھا ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہیکہ اسے کبھی پڑھنے اور بڑھنے کا موقع دیا ہی نہیں گیا.

اسکول اور کالج میں وہ محفوظ نہیں ، مندر جہاں پوجا و پرستش ہوتی ہے اسے وہاں بھی تحفظ نہیں، دفاتر اور آفس میں میں وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں تو پھر ان کو تحفظ کہاں ملے گا؟

جتنے لوگ تحفظ حقوقِ نسواں کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں کیا ان کو یہ زیادتیاں دکھائی نہیں دیتی ؟ پارلیمنٹ میں خواتین کے حق میں وکالت کرنے والے اور ان کی تئیں مصنوعی آنسو بہانے والے ایوان سے باہر عملی اقدام کیوں نہیں کرتے ؟ ہیومن رائٹس کے علمبرداروں! ان بچیوں کی لٹتی عصمت آپ کو دکھائی نہیں دیتی؟ حقوق نسواں کے نام پر واویلا مچانے والے حضرات ان کے حقوق دلانے کے لیے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی عملی اقدام کیوں نہیں کرتے؟

ان کی تاریک دنیا میں سویرا کب ہوگا ؟ آخر ان کا تحفظ کب یقینی بنے گا ؟ اس کائنات میں اسے بھی کھل کر جینے کا حق ہے ، ان رنگ و بو سے لطف اندوز ہونا ان کا بھی حق ہے اس شام کی صبح کب ہوگی؟

اے ہیومن رائٹس کا ڈرامہ کرنے والوں! ذرا اس جانب بھی توجہ دو ورنہ آج دوسرے کا نشیمن اجرا ہے کل تمہارے بھی خرمن میں آگ لگ سکتی ہے

Comments are closed.