7ستمبر1974یوم تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم

راؤ عمرفاروق، لاہور
ایک دن وہ تھا جب میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے تاج سے نوازا گیا اور پوری دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری سونپی گئی چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب یہ ہادی و مہدی اپنے فریضہ کو ادا کرنے کے لیے مکہ کی گلیوں میں اپنے رب کی واحدانیت کا اعلان کر رہے تھے اور اپنی زندگی کی تگ و دو اس عظیم فریضہ کے لئے لگا رہے تھے۔اسی وقت اس نوجوان کے پیچھے اسی نوجوان کا حقیقی چچا عبد العزی جسے دنیا ابولہب کے نام پکارتی ہے یہ کہنے میں مصروف عمل تھا یہ میرا بھتیجا ہے نعوذباللہ اس کا دماغ چل گیا ہے اس کی باتوں میں نا آنا۔لیکن اللہ کا فرمان جاء الحق وزہق الباطل حق ثابت ہوا زمین و آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا جب یہی نو جوان جسے پاگل و مجنون کہا جا رہا تھا فتح کا پرچم لے کر پوری شان شوکت سے اسی سرزمین مکہ کو اپنے نور سے منور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا گویا کہ بازبان حال یہ کہ رہا تھا تلک الایام نداولھا بین الناس۔ اہل دنیا کا شیوہ رہا ہے کسی کی بڑہتی شان شوکت برداشت نہیں کی جاتی پہلی کوشش تو یہ کی جاتی ہے یہ شان و شوکت مجھے مل جائے اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اس کے پاس بھی نہ رہے یہی معاملہ میرے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرنے کی بھی ناکام کوشش کی گئی جب میرے بنی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت رنگ لائی اور توحید کا وہ پودا جس کی آب یاری شفیع المذنبین نے اپنے پاک لہو سے کی تھی تنا آور درخت کی شکل اختیار کر گیا اور لوگ ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کا مصداق بن کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو باطل ایک نئے روپ میں ظاہر ہوا اور حاسدین کے دلوں میں حسد کی آگ ابھرنے لگی اور دعوی نبوت کر ڈالے لیکن ان بدبخت جاہلوں کو اس چیز کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ حسد کا مقام نہیں بلکہ پروانہ نبوت بننے کا مقام ہے۔ لیکن جب شقاوت کسی کے اعمال کی وجہ سے اس کا مقدر بن جائے اسے کون ٹال سکتا ہے۔چنانچہ سب سے پہلا بد بخت و لعین اسود عنسی ٹھہرا جسے حضرت فیروز دیلمی رض نے واصل جہنم کیا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ یہ بشارت سنائی گئی اور پھر یکے بعد دیگرے یہ شقاوت مسیلمہ کذاب کا مقدر بنی اور بارگاہ رسالت میں آکے کہنے لگا میں اس شرط پر آپ پر ایمان لے کر آتا ہوں آپ کے بعد یہ نبوت کا عہدہ مجھے ملے گا۔ جسے دھتکارا جانا ظاہر تھا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی فرمان جاری ہوا تجھے خلافت(نبوت) میں سے اس کے بقدر بھی حصہ نہیں دوں گا۔ اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وحی غیر متلو بن کر یہ الفاظ جاری ہوئے۔ا نّہ سَیَکُوْنُ فِیْ أُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنّہ نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِیْنَ لَا نَبِیَ بَعْدِیْ۔ (ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب: ماجاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 499، رقم: 2219)ترجمہ: میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔(یاد رہے یہ تیس کے علماء نے دو مطلب بیان کیے ہیں یا تو اس سے تیس ہی مراد ہیں یا کثرت مراد ہے)
چنانچہ مسیلمہ کذاب کا فتنہ خلیفہ بلا فصل جناب ابوبکر صدیق اکبر رض کے دور خلافت میں سیف اللہ جناب خالد بن ولید رض کی قیادت میں پاش پاش ہوا اور مسیلمہ کذاب جناب وحشی بن حرب رض کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ اس جنگ عظیم میں 1200 صحابہ کرام رض نے جام شہادت نوش فرمایا جس میں 600 صحابہ کرام رض وہ تھے جو حافظ قرآن تھے۔جبکہ دور نبوت کے تمام غزوات و سرایا میں شہید ہونے والے صحابہ رض کی تعداد صرف 250 ہے۔ جس سے اس فتنہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ یہ شقاوت کا سلسلہ امت کے ہر دور میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ثابت کرتے ہوئے چلتا رہا اس شقاوت میں حصہ ڈالنے والے بدنصیبوں میں ایک نام مختار ثقفی کا بھی ہی جس نے شعیان علی رض کا دعوی کرتے ہوئے تمام قاتلین حسین رض کا قلع قمع کیا اور اس کے بعد 67 ہجری میں نبوت کا دعوی کر دیا۔ جو حضرت مصعب بن زبیر رح کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ اسی طرح یہ سلسلہ اپنا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے مرزا قادیانی تک پہنچا جس نے انگریز کے ہاتھوں کھیلتے ہوئے نا صرف نبوت کا اعلان کیا بلکہ اسلام کے عظیم ارکان جہاد و حج وغیرہ کو بھی باطل قرار دے کر انگریز سے خوب داد حاصل کی کیوں کہ انگریز جب برصغیر پر قابض ہوا اسے سب سے بڑا خطرہ مسلمان نظر آ رہے تھے اور جہاد کے نام سے وہ خائف تھا جس کے لئے اس نے ضروری سمجھا کہ مسلمانوں سے جذبہ جہاد کو ختم کیا جائے۔انگریز کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مرزا قادیانی جیسے شقی اس کے آلہ کار بنے مرزے کے ان دعوں کے بعد مسلمان اپنی تاریخ دہراتے ہوئے ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے سراپا احتجاج ہوئے کیوں کہ مرزے کو انگریز کی وجہ سے حکومتی سپورٹ حاصل تھی اس لیے طرح طرح کی پابندیوں کا سلسلہ جاری ہوا بہت سے عشاقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جانیں ہتھیلیوں میں لیے میدان میں اترے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے چلے گئے اور چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب 7 ستمبر 1974 کو 1953کی تحریک ختم نبوت کے 17 ہزار شہدا کا خون رنگ لایا اورپاکستان کی پارلیمینٹ نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا۔پارلیمنٹ میں بحث ہوء اور قادیانیوں کو باقاعدہ اپنے دفاع کا موقع دیا گیا۔
لیکن قادیانیوں کے کفریہ عقائد دیکھ کر پوری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ مرزا غلام قادیانی اور اس کے ماننے والے کافر ہیں۔اسی لیے جیسے 6 ستمبر 1965 کی یاد میں یوم دفاع ملک پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا دن منایا جاتا ہے۔اسی طرح 7 ستمبر 1974 کے فیصلے کی یاد میں یوم دفاع ملک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا دن منایا جاتا ہے۔ یوں جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا کریڈٹ پاک فوج کے ان جری نوجوان کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قلابازیاں لگا ئیں تو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کریڈٹ ان علماء اور شہدا کو جاتا ہے جنہوں نے تحفظ ختم نبوت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔

Comments are closed.