7ستمبر یوم ختم نبوت

محمد احمد چشتی
ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ موقوف ہو گیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری رسول ہیں۔یہ وہ نازک مسئلہ ہے جس پر امت مسلمہ اپنا تن من دھن قربان کر دیتی ہے۔ کوئی بھی شخص کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت پر جان چھڑکتا ہے۔ْانگریز جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں برصغیر میں داخل ہوئے تو انکا مقصد برصغیر پر قبضہ کرنا تھا۔ برصغیر میں اس وقت جذبہ جہاد موجود تھا جسکی وجہ سے انگریزوں کو ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ انگریزوں کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ برصغیر میں جب تک جذبہ جہاد موجود ہے برطانوی سلطنت قائم نہیں ہو سکتی۔
انگریزوں نے مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنے کیلئے اسلامی عقائد اور پیغمبر اسلام کی ذات اقدس پر رقیق حملے شروع کر دئیے تا کہ علماء جہاد سے نکل کر مدافعت میں لگ جائیں۔ انہوں نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کو فروغ دینا شروع کر دیا اور مرزا غلام احمد سے نبوت کا دعوی کرا کر مسلمانوں کی صفوں میں نا اتفاقی پھیلانے کی کوشش کی۔
مرزا غلام احمد 1839 میں قادیان میں پیدا ہوا۔ وہ سیالکوٹ کی کچہری میں نائب قاصد تھا۔ اس کا باپ،بھائی سمیت پورا خاندان انگریزوں کا وفا دار تھا۔ اس نے پہلے مناظر کا روپ دھارا اور 1888میں مجدد ہونے کا، 1891میں مسیح موعود ہونے کا،1901میں نبی ہونے اور پھر 1904میں کرشن ہونے کا دعوی کیا۔اس نے جہاد کیخلاف اتنا رسالے اور کتابیں لکھیں کہ جس سے پچاس الماریاں بھر سکتی تھیں۔اس نے سب سے زیادہ فتوے جہاد کو منسوخ کرنے کے دئیے اور مسلمانوں پر انگریزوں کی اطاعت کو اولوالامر قرار دیا۔اس فتنے کے خلاف حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے مرزا قادیانی کے دعوے سے پہلے اپنے نوربصیرت سے حضرت پیر مہر علی شاہ کو حجاز مقدس میں فرمایا کہ عنقریب پنجاب میں ایک فتنہ اٹھنے والا ہے جسکے خلاف اللہ تعالیٰ آپ سے کام لیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے رد قادیانیت کے سلسلے میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات سے بڑی تندہی اور جانفشانی سے کام لیا، ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، حضرت مولانا محمد حسین بٹالوی، حضرت مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی، پروفیسر محمد الیاس برنی، علامہ محمد اقبال، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، حضرت علامہ شاہ احمد نورانی، خواجہ جمال محمد کوریجہ، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالستار خان نیازی، حضرت مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری،مولانا محمد علی جالندھری، مولانا قاضی احسان احمد، مولانا لال حسین اختر، مولانا محمد حیات، حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی، حضرت مولانا ظفر علی خان اور حضرت مولانا پیر جماعت علی شاہ جیسی نابغہ روزگار ہزاروں شخصیات ہیں۔
قادیانیوں کو 1935میں عدالت بہاولپور کے جج محمد اکبر خان نے کافر قرار دیا جسکا مقدمہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کی درخواست پر مولانا انور شاہ کشمیری نے لڑا۔ایک دن عدالت میں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا:’’اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے۔‘‘مرزائی کانپ اٹھے، مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھاگئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں سید محمد انور شاہ کشمیری نہیں بلکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔
پاکستان میں 1953میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے تحریک راست اقدام شروع کی جسکا مقصد قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا، حکومتی عہدوں سے ہٹانا،ربوہ کی اراضی پر مہاجرین کو آباد کرنا تھا۔قادیانیت کیخلاف اس تحریک نے اس وقت زیادہ زور پکڑا جب نشتر میڈیکل کالج کے طلباء 22مئی 1974کو پشاور کے معلوماتی دورہ پر چناب نگر کے راستے جا رہے تھے۔ٹرین ربوہ رکی تو طلباء نے قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کر دیا اور ختم نبوت زندہ باد،قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ 29مئی کو جب یہ طلباء واپس آ رہے تھے تو قادیانیوں نے خلاف ضابطہ ربوہ کے مقام پر ٹرین رکوا کر ان طلباء پر حملہ کر کے 30طلباء کو شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعے کیبعد ملک بھر میں ہڑتالیں اور احتجاج شروع ہو گئے۔پورے پاکستان کے عاشقان رسول نے قادیانیوں کیخلاف بھر پور احتجاج کیا اور اس تحریک کی مالی معاونت میں بھی پورے پاکستان کے عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بالخصوص تحصیل لیاقت پور کے حکومتی ایم این اے خواجہ جمال محمد کوریجہ نے پورے پاکستان میں ختم نبوت کالٹریچر چھپوا کر تقسیم کرایا اور اس ملک گیر تحریک کا بیشتر خرچہ بھی خود برداشت کیا۔مولانا شاہ احمد نورانی نے 30جون 1974کو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قرارداد پیش کی جس پر 17اگست 1974کو جرح شروع ہوئی جو 21دن چلی۔ اس جرح میں قادیانیوں کے قادیانی گروپ میں مرزا مسرور اور لاہوری گروپ کے مرزا کلیم اور مرزا صدرالدین نے شرکت کی۔
7 ستمبر 1974ء کے قومی اسمبلی کے اجلاس کو پولیس اور فوج نے گھیر رکھا تھا۔4 بجے فیصلہ کن اجلاس ہوا اور 4 بجکر 35 منٹ پر قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔اس طرح اس فتنے کا خاتمہ ہو گیا۔ اب بحیثیت مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کریں کیونکہ یہی عقیدہ ہمارے ایمان کا اولین تقاضہ اور آخرت میں شفاعت رسولﷺ کا ذریعہ ہے۔
Comments are closed.