عربی واردو زبان وادب کے منفرد انشا پردازو سوانح نگار حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؒ

 

قاضی محمد عمران قاسمی

استاذِ حدیث دارالعلوم بالاساتھ، سیتامڑھی

صراحی روتی اٹھی، جام اشک بار اٹھا

پھر آج مے کدے سے ایک بادہ خوار اٹھا

            گذشتہ چند مہینوں سے ایسی ایسی شخصیتیں اٹھ رہی ہیں ، جن کا صدمہ کسی ایک فرد کا، انجمن یا ادارے کا نہیں بلکہ پوری ملت کا صدمہ ہوتا ہے، ابھی تک کے حادثات پر آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ عربی واردو زبان وادب کے شہ سوار ،صاحب قلم وانشا پرداز حضرت مولانانور عالم خلیل امینی ؒ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔

            سڑ سٹھ سال چار ماہ سولہ دن کی زندگی چندماہ کی مسلسل اور تکلیف دہ بیماری کے سامنے مغلوبیت کا آخری مظاہرہ بصورت ’’موت‘‘ کر گئی، اس منزل سے ہر ایک کو گذرنا ہے، اور زندگی کے جلتے ہوئے چراغ آخر کار بجھ کر رہتے ہیں، زمانہ نے بار بار دیکھا اور دیکھتا رہے گا کہ صبح کی آمد آمد نے زندگی کے کچھ پھول کھلائے اورشام کے سناٹوں میں یہ گلہائے شگفتہ مرجھا کر شاخ سے گر گئے، صبح ہوتی ہے تو آفتاب تابانیوں کے ساتھ پوری کائنات پر تسلط جما لیتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ نہ ختم ہونے والی جہاں بانی ہے، لیکن شام ہوتے ہی یہ مینا رۂ نور تاریکیوں کے پردے میں اس طرح گم ہوتا ہے کہ اس کے غلبہ واستیلا کے آثار بھی نہیں ملتے، تاج وتخت کے مالک، سلطنت وحکومت کے فرماں رواجو اپنی عظمتوں کے پھریرے اڑا تے آج آغوش گور میں سوتے ہیں، اور جن کے نازک بدن ریشم وحریرکے باریک لباس کو بھی بارِجسم سمجھتے اب منوں مٹی کے نیچے آسوہ ٔ خواب ہیں، علم کی رفعتیں پیوند خاک ہو گئیں، کما لات کی بلند یاں علم کے ہنگاموں سے جدا سناٹوں میں گم ہیں،پھرجب یہی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا تو مولاناؒ کا حادثہ نہ بزاری رو کا کا جاسکتا تھا اور نہ بزوری اس کے قدموں پر پابندی ممکن تھی، مگر ان کی موت کا صدمہ قلب حزیں پر ہمالیہ کی طرح کھڑا رہے گا:

بجھ گئے کتنے شبستان محبت کے وجود

محفلیں کتنی ہوئی’’ شہر خموشاں‘‘ کہئے

            مولانا ؒ کا وطن اصلی مردم خیز قصبہ’’رائے پور‘‘ نان پور،حال ضلع سیتا مڑھی ہے مولانا ؒ کی ولادت شمالی بہار کے رواج کے مطابق اپنی ننھیال موضع’’ ہر پور بیشی، اورائی مظفر پور میں اپنے نانا بابو جان ولد یار علی ؒ کے گھر ۲۸؍ربیع الثانی، ۱۳۷۲ھ مطابق ۱۸؍دسمبر ۱۹۵۲ء کو جمعرات بوقت فجر ہوئی۔ مولاناؒ کی والدہ کا نام سلیمہ خاتون بنت بابو جان ؒ تھا والد کا نام حافظ خلیل احمدؒ اور دادا کا نام رشید احمدؒ اور دادی کا نام مقیمہ خاتونؒ تھا،، مولانا ؒ کی والدہ ماجدہ چار بہن تھیں، شہیدہ خاتون،قریشہ خاتون،حسینہ خاتون، سلیمہ خاتون ،مولاناؒ کی والدہ کا نکاح یکم جنوری ۵۱ ۱۹ء کو حافظ خلیل احمدؒ سے ہواتھا، مولانا ؒ کی خالہ شہیدہ خاتون کی لڑکی رقیہ خاتون’’ متوفیہ ۲۴؍۷؍۱۴۴۱  ھ مطابق ۲۰؍ مارچ ۲۰۲۰ ء روز جمعہ مقام وفات وتدفین بلواہا،میری خوش دامن صاحبہ ہیں اور میرے خسر محترم الحاج محمد سراج الدین ؒ حسن پور بر ہروا، باج پٹی، سیتا مڑھی حال رائے پور متوفی یکم ربیع الاول ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۳؍دسمبر ۲۰۱۴منگل ،بمقام لونی غازی آباد مدفون قبرستانی لونی غازی آباد یوپی، مولاناؒ کے سگے خالہ زادبہنوئی تھے رقیہ خاتونؒ سگی خالہ زاد بہن تھیں،تین ماہ کے تھے تو والد کا سایہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۵۳ ھ میں سر سے اٹھ گیا، البتہ ماں کی مہر بانی اورپیار کا تسلسل ماں کی وفات تک قائم رہا، دادا رشید احمدؒ پر دادا محمد فاضل کی زندگی ہی میں گذر گئے تھے اس لئے حافظ خلیل احمدؒ محجوب تھے، جسکی وجہ سے زمین جائیداد بھی نہیں ملی ، والدہ ۱۹؍سال ۲ ؍ماہ ۱۸؍ دن کی عمر میں بیوہ ہو گئیں، مدت رضاعت کے بعد یتیمی اور بے سروسامانی کے عالم میں دادی مقیمہ خاتون ؒ نے پر ورش کی ذمہ داری سنبھالی، مولاناؒ کی پرورش وپرداخت میں سگے خالہ زاد بہنوئی اور سگی خالہ زاد بہن کاخوب خوب تعاون رہا، دوران تعلیم اور دوران تدریس جب گھر آتے تو ان کے اکثر ایام رقیہ خاتون ؒ کے یہاںہی گذرتے۔ مولاناؒ کی والدہ کی دوسری شادی چچا زاد بھائی محی الدین ولد محمد نتھوؒ ولد یار علیؒسے ہو گئی اس شوہر سے سلیمہ خاتون کو دو لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی ،لیکن یہ شوہر بھی ۱۹۶۷  ء میں داغ مفارقت دے گئے اور چوبیس سال کی عمر میں دوبارہ بیوگی نے سلیمہ خاتون کو صدمہ نے نڈھال کر دیا، بسم اللہ کی رسم مولاناؒ کے نانا بابوجان ولد یار علی ؒ نے ادا کی ، پھر اپنے گاؤں رائے پور کے دیرینہ مکتب کے نیک سیرت وبا بر کت ملا ابراہیم عرف مولوی ٹھگن ؒ کے پاس قرآن پا ک ناظرہ ابتدائی اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی، کچھ دن کے لئے مدرسہ نور الہدیٰ پو کھریرا ضلع سیتا مڑھی میں داخلہ لیکر تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اپنے مربی اول واستاذ برادر معظم حضرت مولانا محمد اویس القاسمی رائے پوریؒ جو اس وقت مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے باوقار استاذ تھے،۸۰ ۱۳  ھ /۱۹۶۰، میں مولانا ؒ کو اپنے ہمراہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ لے آئے، اولاً درجہ حفظ میں داخلہ لیا ، سات پارے حفظ بھی کئے اس کے بعد درجہ ششم اردو میں منتقل ہوگئے، یہ ۱۹۶۱ ء کا سال تھا یہاں کم بیش تین سال رہے، اور برادر معظم حضرت مولانا محمد اویس القاسمی رائے پوریؒ اور مولانا محمد تسلیم سیدھولویؒ کی تربیت میں رہے، اس کے بعد دارالعلوم مئو ،یو پی کا رخ کیا ۱۳۸۳ ء مطابق۱۹۶۴  ء میںیہاں عربی اول میں داخلہ لیا اور عربی چہارم تک تعلیم حاصل کی اور ارباب فضل و کمال علماء سے کسب فیض کیا، ۱۶؍ شوال ۱۳۸۷ ء مطابق ۲۰؍ دسمبر ۲۹۶۷ ء کو آپ کا داخلہ دارالعلوم دیو بند یوپی میں ہو گیا،یہاں عربی پنجم ، عربی ششم، عربی ہفتم تک کی تعلیم حاصل کی اور بحر ولایت وعلم اساتذہ کرام سے استفادہ کیا، ابھی فراغت نہیں ہو ئی تھی کہ طلبہ ٔ دارالعلوم نے بعض معاملات کو لیکر اسٹرائک کردیا، کئی نامور طلبہ کے ساتھ مولانا کا نام بھی اس سے جڑگیا اور اس پاداش میں جن طلبہ کا اخراج ہوا ان میں ایک نام مولانا ؒ کا بھی تھا،یہ بڑا جاںگسل موقع تھا، یہاں مولاناؒ ۱۹۷۰ ء تک رہے۔

            چنانچہ مولانا سید محمد میاں دیو بندی، دہلویؒ نے اس ہونہار طالب کوضائع ہونے سے بچایا ، مدرسہ عربیہ امینیہ کشمیری گیٹ دہلی آئے اور یہیں سے ۱۹۷۱ ء میں فراغت ہوئی ۔اس پریشان کن وقت میں مدرسہ عربیہ امینیہ دہلی نے سنبھالا تھا اس لئے مولاناؒ نے بطور اعتراف اپنی نسبی باپ کے نام کے ساتھ اس روحانی باپ کو بھی اپنے نام کا جز بنالیا اور امینی لکھنے لگے۔

            مولاناؒ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ یوپی سے کیا اور اوائل ۱۹۷۲ ء سے اوائل ۱۹۸۱ ء تک یہاں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، یہاں کا ماحول مولاناؒ کی عربی زبان دانی اور حاصل شدہ مہارت کو صیقل کرنے کے لئے انتہائی خوش گوار تھا کچھ دنوں کے لئے مولانا ؒ مدرسہ کا شف العلوم اورنگ آباد مہاراشٹر تشریف لے گئے، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ یوپی آگئے۔

            جب دارالعلوم دیو بند میں تا ریخی انقلاب آیا او راسکی نشأۃ ثانیہ ہوئی اس سے قبل’’ الداعی‘‘ کے مدیر حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی ریونڈھاوی، دربھنگوی( حال مقیم کویت) تھے انہوں نے دارالعلوم سے ترک تعلق کرلیا تو حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ نے پندرہ روزہ اور ماہانہ ’’الداعی‘‘ عربی دارالعلوم دیو بند کی ادارت کے لئے مولانا ؒ کو دارالعلوم دیو بند میں بحال کیا۔جب مولانا ؒ دارالعلوم دیو بند سے ۱۹۷۰ ء میں مدرسہ عربیہ امینیہ دہلی کے لئے روانہ ہو رہے تھے، تو مولانا وحید الزماں کیرانویؒ نے اپنے ایک عنایت نامہ میں فرمایا تھا کہ ’’میرا دل کہتا ہے کہ تم جلد یا بدیر دارالعلوم آؤ گے‘‘، لہذا’’ ہذاتاویل رویا ی من قبل قد جعلہا ربی حقا‘‘۔

            چنانچہ مولاناؒ ۱۴۰۲ء مطابق ۱۹۸۲ ء میں’’الداعی‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دارالعلوم چلے آئے، اور اس کی ادارت کی ذمے داری سنبھال لی او ر اپنی علمی عبقریت وعظمت کی وجہ سے مادر علمی میں اپنی جگہ بنالی،مولاناؒ دارالعلوم میںبحال ہونے کے بعد تدریب کے لئے کنگ سعود یونیور سٹی سعودی عرب تشریف لے گئے، اور وہاں تین ماہ مقیم رہے، مولاناؒ تدریب سے لوٹنے کے بعد’’الداعی‘‘ کے ساتھ دارالعلوم میں بحیثیت مدرس بھی خد مت انجام دینے لگے اور عربی زبان وادب خصوصا تکمیل ادب کے اسباق ان سے متعلق ہوگئے، مولاناؒ نے پوری دلجمعی کے ساتھ دونوں کام کو سنبھالا اور عالم عرب کے لئے علماء دیو بند کی کتابوں کا ترجمہ کر کے شائع کیا، علماء دیو بند کے افکار وخیالات کی ترویج واشاعت کے لئے اداریئے اور مضامین لکھے، بعض اہم موضوع پر عربی میں کتابیں تصنیف کیں، فلسطین کے مسائل پر توجہ مبذول کرانے کیلئے ’’فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں‘‘لکھ کر اسے شائع کرایا، یہ کتاب عربی واردو دونوں زبان میں شائع ہوئی، کتاب کے افکار وخیالات کی روشنی میں آسام یونیورسٹی سے اس پر اسکا لر نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی،ایچ، ڈی، کی ڈگری حاصل کی۔

            مولانا عربی صحافی اور ادیب کی حیثیت سے عالم عرب تک متعارف ہوئے اور ہندوستا ن والوں نے بھی ان کی عربی نثرکو اعلی ادبی نمونہ قرار دیا اس وقت مولاناؒ کی اردو ادیب کی حیثیت سے کوئی چیز نہیں آئی تھی، اس لئے اردو کے ادبا اور فقہ وحدیث کے ماہرین کا حلقہ بقول ان کے’’ ان کو عربی آوے ہے‘‘ سے جانتا ہے تھا، لیکن مولانا کیرانویؒ کے وفات کے بعد ان کی پہلی اردو کتاب’’و ہ کوہ کن کی بات‘‘ آئی، مولانا سے عقیدت ومحبت ، حق شاگردی اور جدائی کے غم نے اردو ادب میں ایسی کتاب ان سے تصنیف کروادی جو سوانحی ادب کا بہترین مرقع بن گئی۔

            اس کے بعد مولاناؒ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، حرف شیریں، پس مرگ زندہ،’’رفتگان نا رفتہ‘‘ فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، صحابہ ٔ رسول اسلام کی نظر میں، کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟ عالم اسلام کے خلاف موجودہ جنگ‘‘ صلیبی صیہونی جنگ حقائق ودلائل، خط رقعہ کیوں اورکیسے سیکھیں، جیسی، اہم کتابیں دنیا ئے علم وادب کو دیں،مولاناؒ نے تاریخی ذوق حضرت مولانا سید محمد میاں ؒ سے حاصل کیا تھا اور ادبی ذوق نیز نستعلیقی رہن سہن کا طریقہ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ سے سیکھا تھا۔

            عربی تو ان کا اوڑھنا بچھوناتھا، اس زبان میں ان کی تصنیفات دس بتائی جاتی ہیں۔الصحابۃ ومکانتہم فی الاسلام، مجتمعا تناالمعاصرہ والطریق الی الاسلام، المسلمون فی الہند، الدعوۃ الاسلامیۃ، بین الامس والیوم، مفتاح العربیہ اول۔ دوم، العالم الہندی الفرید الشیخ المقری محمد طیب، فلسطین فی انتظار صلاح الدین، لآلی منثورہ، علماء دیوبند اتجھا ہہم الدینی ومزاجہم المزہبی مجموعہ ٔ اشراقہ۔ جب کہ انہوں نے پچیس کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا اور دو سو سے زائد مقالات کا عربی ترجمہ کیا، جن میں مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ مفتی محمد تقی عثمانی مولانا حسین احمد مدنیؒ مولانا منظور احمد نعمانی، مولانا سعید الرحمن اعظمی ،ڈاکٹر خورشید احمد وغیرہ کی تصانیف شامل ہیں۔

            دسیوں کانفرنسوں میں ملک وبیرون ملک شرکت کی ان کے علاوہ بر صغیر ہندوپاک کے رسائل اور عالم عرب کے عربی مجلات میںپانچ سو سے زائد ان کے علمی وادبی مقالے چھپ کر مقبول ہوئے، مولانا کی عربی زبان وادب کی خد مت کا حکومتی سطح پر اعتراف کیا گیا چنانچہ ۲۰۱۸ ء میں موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے صدارتی توصیفی سند سے نوازا۔

            مولانا ؒ انسیت وانسانیت کاپیکر مجسم تھے، تلخ گوئی سے ناآشنائے محض تھے، وہ نام ونمود کی خواہش اور دوسروں کو دبا کرآگے بڑھ جانے جیسے امراض سے منزہ تھے، وہ کسی سے کسی قول وفعل یا کسی جنبش کے ذریعہ کسی طرح کا انتقام لینے کی صلاحیت سے بالکلیہ عاری تھے ، ان کے کسی ہم نشیں یا کسی دوست اور دشمن کو ان کی طرف سے کسی رویے کے ذریعہ کسی طرح کی ایذارسانی کا کوئی خوف دامن گیر نہیں ہوتا تھا، مولاناؒ انتہائی کھلے دماغ کے آدمی تھے، خوش فکر، نکتہ آفریں بذلہ سنج، ساتھ ہی وہ حد درجہ سنجیدہ وباوقار تھے، انہیں جتنا کام کا سلیقہ تھا اتنا ہی کام لینے کا سلیقہ تھا، وہ مادر علمی دارالعلوم دیو بند کے عاشق صادق، اس کے مسلک کے سرگرم ترجمان تھے، ان کا عشق ایک احسان مند کا اپنے محسن کا احسان اور اپنے منعم کی بخششوں کی قدر دانی سے عبارت تھی،مولانا ذہین اور قوی الحافظہ تھے، اپنے ملنے والوں کو عرصے کے بعد بھی دیکھ کر پہچان لیتے تھے، بیماری اور کمزوری کے باوجود موت سے ذرا پہلے تک بھی ان کا حافظہ اوردماغ صحیح طور پر کام کرتا رہا، وہ مثالی معلم تھے، ان کا انداز تکلم بڑا مزے دار ،زبان انتہائی خوبصورت تھی، ان کے نظام الاوقات میں ملنے ملانے کی بہت کم گنجائش ہوتی تھی۔

تمام عمر اسی احتیاط میں گذر ی مومن

کہ آشیاں کسی شاخ چمن پر بار نہ ہو

            مولانا نور عالم خلیل امینیؒ کا نام پہلے سے سن رکھا تھا اور یہ بھی کہ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں خد مت تدریس انجام دے رہے ہیں اور ان کا درس بہت مقبول ہے، لیکن ملاقات کے شرف سے محروم تھا لیکن جب وہ مادر علمی دارالعلوم دیو بند میں’’ الداعی‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے تشریف لائے اور حضرت مولانا کیرانویؒ کے حجرے میں فروکش ہوئے تو چند طلبہ کے ہمراہ میں بھی ملاقات کے لئے جا پہنچا ان کی باتیں سنیں اور ان کے انداز تکلم کو دیکھ کر ان کی علمی عظمت کا معترف ہو گیا، جب تک ناچیز دارالعلوم میں رہا ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ہم وطنی کی وجہ سے قربت بھی ہوگئی، پھر میں خد مت تدریس کے لئے بمشورہ حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیو بند، درالعلوم العربیہ اسلامیہ جودھ پوراجستھان چلا گیا، لیکن گاہے گاہے کسی نہ کسی کام سے دارالعلوم حاضری ہوجایا کرتی تھی اور مولانا کی خد مت میں حاضری بھی دے آتا تھا۔

            جب میں جودھ پور میں تھا اچانک جمعرات ۱۹۸۵ء کو ڈاکیہ نے ایک لفافہ لا کر دیا، دیکھا تو مولاناؒ کی طرف سے اس ناچیز کے نام عنایت نامہ تھا، میں تھوڑی دیر کے لئے حیرت میں پڑگیا کہ اس سے پہلے توخط وکتابت کا معاملہ حضرت ؒ سے نہیں تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھ سے ان کی شان میں گستاخی ہو گئی بہر حال لفافہ چاک کیا تحریر نہایت خوبصورت اور جاذب نظر تھی، عنایت نامہ میں تحریر تھا کہ آپ مدرسہ سے دوتین یوم کی رخصت لیکر دیوبند آجائیں تو مجھ پر احسان ہوگا۔

            چنانچہ میں نے اسی دن مدرسہ سے رخصت لیا اور جمعہ کو ساڑھے گیا رہ بجے دن میں ’’ دہرا دون ایکس پریس‘‘ سے دیو بند پہونچ گیا ، سامان رفیق حجرہ کے پاس رکھا اور جمعہ کی تیاری کی، اوربعد نماز عصر حضرت کی خدمت میں جا پہونچا، زور سے سلام کیا، حجرے کا دروازہ کھلا علیک سلیک کے بعد دریافت کیا سامان کہاں رکھا ہے، میں نے کہا کہ رفیق حجرہ کے پاس ہے، فرمایا وہاں سے سامان میرے کمرے میں لے آیئے یہیں قیام رہے گا اور اتوار کو دو پہر کا کھانا کھا کر آپ واپس ہوں گے لہذامیں سامان لے آیا اور حضرت کے ہی کمرہ میں رکھ دیا۔بعد مغرب باتیں ہوئیں اور بعد عشاء حضرت نے مجھے بلانے کا پس منظر بتایا، حضرت نے فرمایا کہ رائے پور میں میری سگی خالہ زاد بہن ہے اور میرے سگے خالہ زاد بہنوئی الحاج محمد سراج الدین ہیں، ان کے پاس ایک چھوٹی صاحبزادی ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ آپ سے منسوب ہو جائے، میں نے کہا کہ اگر والدین رضا مند ہوں تو میں راضی ہوں، جب شعبان کی تعطیل میں گھر پہونچا تو پتہ چلا کہ میرے دادا جان بدر الحق ؒ اور الحاج محمد سراج الدینؒ کے خسر محترم محمد سہراب پچکوری صاحب نے رائے پور بازار کے چائے دوکان پر میرے دادا سے کہا کہ میرے پاس ایک نتنی ہے اور آپ کے پاس ایک پوتا فلاں ہے وہ مجھ کو دے دیجئے، دادا مر حوم نے کہا کہ’’ جادے دلیہ‘‘واضح رہے کہ ان دونوں میں پرانی دوستی تھی، اور اس وقت کے لوگ زبان کے پکے ہوا کرتے تھے، دادا جان گھرآئے تو میرے والد محترم کو بلا کرکہا کہ ’’مولی صاحب کا رشتہ پچکوری کی نتنی سے طے کر دِلیہ َہ‘َ‘ اس زمانہ میں لڑکے کیلئے اپنی رائے کا اظہار عیب سمجھا جاتا تھا، اب معاملہ آیا رونمائی کا، دادا جان نے کہا کہ اب دیکھنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ اگر نہ پسند آی ْہَ تَ رشتہ نہ کر بوہو، اگر ایسا ہوئی ہ تو ہم شریک نہ ہوئی بہ، دادا جان کو منا کر ۱۳؍رمضان ۱۴۰۵ء کو مولانا محمد مشتاق صاحب بیشی کو عصر بعد دیکھنے کیلئے بھیجا گیا ساتھ میں میرا چھوٹا بھائی بھی گیا اور بعد عشاء، دونوں لوٹ آئے ان دنوںمولانا جامعہ میں مدرس تھے اور میرے یہاںہی رہتے تھے، مولانا نے اظہار پسندید گی کیا اس طرح تاریخ بھی طے ہو گئی اور رشتہ مقدر تھا ہو گیا۔

            مولاناؒ سے میرا تعلق شاگردی کا نہیں تھا، بعد شادی مولانا مرحوم میرے خالہ زاد خسر ہوگئے۔اس کے بعد مولانا ؒ سے رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا اور جب جب اردو میں ان کی کتاب طبع ہو تی تھی توایک نسخہ بطور ہدیہ اور ایک نسخہ برائے تبصرہ در شمارہ’’ شفاء سہ ماہی‘‘ بھیجا کرتے تھے چنانچہ اس ناچیز نے تبصرہ لکھا اور میں احساس شرمندگی کی وجہ سے کہا کرتا تھا کہ یہ تو سورج کو چراغ دکھانا ہے، ساتھ ہی یہ بھی تحریر فرمایا کرتے تھے کہ تمہارا مدرسہ صلاحیت رکھتا ہے سو، پچاس نسخے منگوالے اس سے میری تھوڑی مدد ہوجائے گی چنانچہ حسب حکم منگائے جاتے رہے، جب کبھی دیو بند حاضری ہوتی تو باصرار کھانا اپنے گھر کھلاتے جب میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوتا تو بآواز بلند کہتے کہ داماد آئے ہیں اور اپنے لڑکوں سے کہا کرتے کہ: رے چھوڑا سب بہنوئی کو ٹھگ نہ رے:

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کرچکے گئے

            مولانا ؒ کی دوشادیاں ہوئی ، پہلی اہلیہ مولانا محمد منظور معروف بہ مولانا انور جمال قاسمی ہر پور بیشی کی ہم شیرہ سے ہوئی تھی، مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے جدائی ہو گئی، اس اہلیہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔دوسری شادی پر سونی ، بینی پٹی، مدھوبنی میں ہوئی اس اہلیہ سے چار لڑکی اور تین لڑکا پیدا ہوئے، چاروں لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے اور ایک لڑکا بھی شادی شدہ ہے، دولڑکے رشتہ کیلئے باقی ہیں۔

            بالآخر آسمانِ علم وادب کے نیر تاباں کا۲۰؍ رمضان ۱۴۴۲ ء مطابق ۳؍ مئی ۲۰۲۱ء سموار صبح کے سواتین بجے میرٹھ کے آنند ہسپتال میں انتقال پر ملال ہوگیا، جنازہ دیو بند لایا گیا، احاطہ مولسری میں بعد نماز ظہر مولانا ارشد مدنی مد ظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی، اور ’’مزار قاسمی‘‘ میں مدفون ہوئے، جہاں عنایات ربانی ان کا طواف کرتی ہوں گی:

رونق بزم تھی وابستہ تمہارے دم سے

تم نہ ہوگے تو بہت یاد کرے گی دنیا

            مولانا نور عالم خلیل امینیؒ نے عربی زبان اور دارالعلوم دیو بند کے عشق لازوال سے عقل کو سر شار ، قلب کو بے تاب اور فکر و نظر کو تابناک بنا دیا اور زندہ تابندہ وپائندہ زبان کی حیثیت سے ،دارالعلوم دیو بند میں عربی زبان اردو زبان کی لے کو بڑھاکر، ساری نسل نو اور تاریخ دارالعلوم پر احسان کیا، اور مثالی تعلیم وتربیت کے حوالے سے جن کی زبان حال ان کی سعی پیہم اور بے تابی بے کراں کی اس طرح ترجمانی کر گئی :

ضمیر لالہ میں  روشن چراغ آرزو کردے

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

مولانا ؒ ۳۷؍ سال چار ماہ ۲؍ دن تک علم وآگہی کے جام لنڈھاتے رہے:

کتنی آساں ہے عدم کی راہ

لوگ آنکھ بند کر کے ،چلے جاتے ہیں

Comments are closed.