مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ کی تعلیمی تحریک: ایک اجمالی جائزہ

 

  محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی

 خادم تدریس دار العلوم حیدر آباد

وسابق معین المدرسین دار العلوم دیوبند

        [email protected]  

7207326739               

قوموں کی تعمیر وترقی اور استحکام میں معیاری تعلیم کو بڑا دخل ہے،جو قومیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں انھیں سیادت وقیادت اور قوت وبرتری نصیب ہوتی ہے،اسی لیے اسلام نے علم سیکھنے اور سکھانے پر روز اول سے ہی بہت زور دیا ہے،آج مسلمان زوال پذیری کے دہانے پر کھڑا ہے،اس زوال کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں لیکن تعلیم کی پسماندگی زوال کی بہت بڑی وجہ ہے۔تعلیم خواہ دین کی ہو یا دنیا کی بہر حال تعلیم کے بغیر بلندیاں پستیوں  سے بدل جایا کرتی ہیں اور تعلیم کی وجہ سے قومیں قعر مذلت سے نکل کر عروج اور بلندیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔قرآن وحدیث میں علم وحکمت کی نہ صرف یہ کہ مدح سرائی کی گئی ہے ؛بلکہ اسے حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے،قرآن وحدیث کی علمی رہنمائی نے جب مسلمانوں کو جویاے علم اور شہید جستجو بنایا تھا تو اس وقت دنیا کی علمی قیادت ان کے ہاتھوں میں آگئی تھی،چنانچہ بغداد اہل علم کا مرکز بن گیا،ہارون رشید کے دور میں ہر مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی قائم کیا گیا،خلیفہ مامون کے زمانہ میں بغداد میں کتب خانے قائم ہوے،اور علم کی شمعوں نے پوری دنیا کو تاریکی سے نکال کر تعمیر وترقی کی شاہ راہ پر ڈال دیا؛لیکن جب رداءِ علم ہاتھوں سے چھوٹنے لگی،تو پسماندگی مسلمانوں کا مقدر بننے لگی،بات اگر اپنے ملک کی،کی جاے تو یہاں بھی مسلمان ایک باوقار شہری نہیں ؛بلکہ بے کار شہری سمجھا جانے لگا ہے،اس کی تعلیمی پسماندگی پر سرچ وتحقیق ہونے لگی ہے،ملک ووطن میں دوسرے درجہ کا شہری گمان کیا جانے لگا ہے،اونچے مناصب اور سرکاری عہدوں کے لیے "ناقابل” خیال کیا جانے لگاہے۔

بلاشبہ دینی لحاظ سے مسلمانوں کی معمولی تعداد دینی علوم کے حصول میں لگی ہوئی ہے اور اس کے لیے مدارس کا مضبوط نظام صدیوں سے جاری ہے،لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دینی مدارس کا رخ نہیں کرتی ہے بلکہ عصری علوم وفنون اس کا مطمح نظر ہے؛ کیوں کہ عصری علوم کا رشتہ بہتر معاش اور سرکاری ونیم سرکاری عہدوں سے جڑا ہوا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس ابھی بھی ڈھنگ کے عصری علوم کے مراکز نہیں ہیں،اس لیے مسلمان طلبہ کی دولت ایمان کی حفاظت کے ساتھ بروقت اور درست رہنمائی نہیں ہوپاتی،نتیجتا اعلی دماغ اور اونچی صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔علاوہ ازیں ابھی بھی ایسے بہت سارے علاقے اور گاوں ہیں جہاں لوگ دین کی بنیادی معلومات سے ناواقف ہیں،وہاں دینی مکاتب کا قیام واستحکام ایک بڑا چیلنج اور وقت بڑی ضرورت ہے۔

چنانچہ ہردور میں اس حوالہ سے غوروفکر کی مجلسیں اور انجمنیں قائم ہوتی رہی ہیں،ہر عہد میں مسلمانوں کی تعلیمی زبوں حالی اور عصری علوم میں پسماندگی کو دور کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں،چنانچہ اس کے لیے ادارے بنے،شخصیتیں سامنے آئیں اور منصوبے بنے؛اس حوالہ سے کام بھی ہوے اور ہو رہے ہیں،بلاشبہ اس سمت میں جس نے بھی جو کام کیا ہے وہ لائق قدر اور قابل تقلید ہے اور وہ اس کی وجہ سے عند اللہ ماجور ومثاب ہوگا۔

امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ (1943-2021ء) کی شخصیت ہندوستان میں ان ممتاز شخصیات میں بہت نمایاں مقام کی حامل ہے جنھوں نے قوم وملت کی دینی وعصری رہنمائی کے لیے بہت کچھ کیا۔ تعلیمی میدان میں مسلمانان ہند کو ایک کامیاب سمت پر ڈالا،انھیں ایک باوقار منزل کا پتہ بتایا،قوم مسلم بطور خاص نوجوانوں کو ملک کا باعزت شہری بنانے کی ہرممکن کوشش کی،مسلم بچوں اور بچیوں کو وقار واعتبار دینے کے لیے معتبر اسٹیج فراہم کیا،برادران وطن کے شانہ بشانہ سرکاری ملازمتوں کے حصول میں در آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے انتھک محنت کی،نیز دین کی بنیادی معلومات فراہم کرنے والے ادارے اور مکاتب دینیہ کی بنیاد ڈالی،افراد تیار کیے۔آپ کی سرپرستی میں بالخصوص بہار،اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے علاقوں میں یہ کام جنگی پیمانے پر انجام دیا گیا ہے،جس کے بہتر اور دوررس نتائج سامنے آے،جو اوروں کے لیے مشعل راہ بن رہے ہیں،مولانا رحمانی صاحب کو اس حوالہ سے ہمیشہ یاد رکھا جاے گا۔ اس میدان میں ان کی جلیل القدر خدمات کو مدتوں سراہا جاے گا،اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے عہد بہ عہد ان کے نہج اور چھوڑے ہوے نقوش پر کام کیا جاتا رہے گا۔ذیل کی سطروں میں مولانا رحمانی کی خدمات کا نقشہ پیش کیا جارہا ہے،تاکہ نئی نسل اس سے متعارف بھی ہو اور کام کرنے والوں کو روشنی اور ہمت وحوصلہ بھی ملے۔

دینی یا عصری تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی کمی نہیں ہے؛لیکن دینی اورخاص طور پر عصری تعلیم سے نوجوانان اسلام کو آراستہ کرنے کی فکر مسلسل کو ایک "تحریک” کی شکل دینے والے حضرات بہت کم ہیں،تعلیم ایک تحریک ایک مہم اور ایک مشن کی شکل اختیار کرجاے تو کام کا ڈھنگ اور فکر کا رنگ وآہنگ بلکل جدا اور نتیجہ خیز ہوتا ہے،نتائج اور فوائد صرف کاغذ پر نہیں؛ بلکہ کھلی آنکھوں دکھائی دیتے ہیں،اور ایسی تاریخ مرتب ہوتی ہے جس کے لیے قلم وقرطاس کی ضرورت نہیں ہوتی ؛بلکہ وہ تاریخ دلوں پر ،پانی کی لہروں پر ،آسمان کے سینوں اور فضاوں کے غیر مرئی صفحات میں بھی لکھی جاتی ہے،مولانا رحمانی اپنے ہم عصروں میں کئی وجوہات سے منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں لیکن ان کا بڑا اور نمایاں امتیاز وانفراد یہ ہے کہ انھوں نے تعلیم کو ایک تحریک سمجھا،اور اسے تحریک ہی کی شکل میں قوم کے سامنے پیش کیا؛چنانچہ آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ:”میں تو تحریکی کاموں میں خود اپنے آپ کو بھی بھول چکا ہوں ” اس کا اثر یہ ہوا کہ آپ کے پاس تحریکی کاموں کی ایک لمبی فہرست تھی؛ چنانچہ آپ اسی تحریک کے لیے جیے،اسی تحریک کی مضبوطی کے لیے کام کیا،افراد تیار کیے،زمین ہموار کی،اسباب مہیا کیے،اور دیکھتے ہی دیکھتے زمانے پر چھا گئے؛چنانچہ لوگ اس تحریک سے جڑے،چراغ سے چراغ جل اٹھے،دنیا نے اسے قبول بھی کیا اور اسے سراہا بھی،کیوں کہ نتائج خاطر خواہ سامنے آنے لگے تھے۔

دینی تعلیم کی فکر وتحریک:

جامعہ رحمانی مونگیر اور امارت شرعیہ بہار اڈیشہ اور جھارکھنڈ کی انسانی،تعلیمی اورملی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے،دینی تعلیم کی نشرواشاعت اور اس کے فروغ میں انھوں نے ہردور میں کلیدی کردار ادا کیا ہے،مولانا ولی رحمانی صاحب نے جس وقت ان اداروں کی باگ ڈور سنبھالی ہے یہ ایسا نازک وقت تھا کہ ملک کا سیاسی دھارا ایک خاص سمت میں بہہ رہا تھا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے،جس کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیم وتہذیب ،زبان وثقافت اور ملی تشخص کو خطرہ لاحق ہے،مولانا رحمانی کو یہ احساس تھا کہ کسی بھی مذہب اور فکر و عقیدہ کے لئے تعلیم کی حیثیت شہ رگ کی ہے ، اگر کسی قوم کو اس کے دین سے محروم کرنا ہو تو اس کے دینی تصورات سے اس قوم کا علمی رشتہ کاٹ دیجئے ،یہ چیز خود بخود اس قوم کو اپنے مذہب سے بے گانہ بنادے گی ، اس کے لئے پنجہ آزمائی کی ضرورت پڑے گی اور نہ معرکہ آرائی کی ،مولانا رحمانی کو معلوم تھا کہ انگریز جب ہندوستان میں آئے تھے ، توانھوں نے بھی یہ ناکام کوشش کی تھی ؛ چنانچہ انھوں نے اس پر خوب محنت کی کہ  ہندوستان میں رہنے والوں کو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی رہنے دیا جاے؛ لیکن فکر اور ذہن و دماغ کے اعتبار سے انھیں انگریز بنا دیا جاے؛ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس نازک وقت میں  ملک کے درد مند علماء نے اس حقیقت کو محسوس کرلیا تھا اور انھوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دینی مدارس اور مکاتب قائم کرکے اس بات کا انتظام فرمایاکہ اس ملک میں بسنے والے مسلمان گو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں ؛ لیکن وہ دل و نگاہ کے اعتبار سے ’’حجازی ‘‘ بنے رہیں اور پیغمبر اسلام محمد رسول اﷲﷺ کا دامن نبوت ان کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے ۔مولانا رحمانی کا شمار بھی انھیں درد مند علماء میں کیا جانا چاہیے کہ جب ملک میں وہی تاریخِ دلخراش دہرائی جارہی تھی تو انھوں نے ہر طوفان کا مقابلہ کرنا ضروری سمجھا،اور اپنے سب سے بڑے سرمایے(نئی نسل)کی تعلیم وتربیت کی دل وجان سے نہ صرف یہ کہ فکر کی ؛بلکہ امارت  اور دیگر اہم ذرائع کے توسط سے اسے ایک تحریک کی شکل دینے کی کامیاب کوشش شروع کی،اپنی ٹیم کو اس کام پر آمادہ کیا،تینوں ریاستوں کے دورے کیے گئے،اسی کے ذیل میں "ہفتہ براے ترغیب تعلیم وتحفظ اردو” کے عنوان سے پروگرام کراے گئے،بہار کے تمام اضلاع میں خواص اور اہل فکر ونظر کو جمع کیا گیا اور ان کے باہمی مشورے سے مذکورہ مقاصد کو اس علاقہ میں روبہ عمل لانے کے لیے طریقہ کار اور خاکے تیار کیے گئے،اور اس تحریک کی پہلی کڑی "بنیادی دینی تعلیم کی فکر” کو سامنے رکھ کر کام شروع کیا گیا۔مولانا رحمانی نے قوم وملت کو یہ باور کرانے کی بھر پور کوشش کی کہ توحید کی امانت آنے والی نسل کے قلوب میں منتقل کرنا تمام فرائض پر مقدم ہے،اگر ہم نے اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کی تو ہم اپنی نسل اور اولاد کے حق میں سب سے بڑے مجرم ہوں گے، کیوں کہ ہمارا یقین ہے کہ اس دنیا کی سب سے عظیم دولت ایمان واسلام کی دولت ہے،آپ نے اس کی پوری کوشش کی کہ قوم کے دلوں میں یہ بات نقش کر دی جاے کہ تمام مسلم آبادیوں میں ہر مسجد کے تحت مکتب کا خود کفیل نظام قائم کیا جانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اسپین اور اندلس کی تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے،آپ نے اس کے لیے ایسا جامع نصاب کی تیاری کو ضروری قرار دیا جس میں عقائد معاملات معاشرت اور اخلاقیات کے بنیادی اور اہم مضامین شامل ہوں جس سے بچوں کی ہمہ جہت دینی تعلیم وتربیت ہوسکے،آپ نے اپنی اس تحریک کے ذریعے لوگوں کو اس بات سے روشناس کرانے کی سعی کی کہ اگر مکاتب دینیہ کے ذریعہ نونہالان امت کے ذہن ودل پر دین اسلام کی حقانیت کے نقوش ثبت کردیے گئے اور انھیں تعلیمات اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا گیا تو آنے والے بے دینی کے سخت سے سخت طوفان بھی ان کے دل ودماغ کو میلا نہیں کرسکتے،نوعمری کے نقوش دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔چونکہ دین کی بنیادی تعلیمات کے لیے مکاتب کے قیام کی فکر آپ کا مشن اور آپ کی تحریک تھی اس لیے اپنی تقریروں میں بھی اس حساس امر پر زور دیا کرتے تھے، نیز تعلیمی بیداری کانفرنسوں کے ذریعہ مسلمانوں کو علم کی اہمیت سے باخبر کیا کرتے تھے،پیرانہ سالی اور ضعف ونقاہت کے باوجود ایسے پروگراموں میں شرکت فرمایا کرتے تھے، ایک موقع پر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو دین سکھائیں اور دینی مزاج تیار کریں ،ان کی دینی تعلیم کا نظم کریں اور ایسی تربیت کریں کہ دین ان کے دل میں اتر جاے اور عمل سے جھلکے۔۔۔ہمیں بچوں کی ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ جس وقت دنیا سے ہمارے جانے کی نوبت آے ،ہمیں اطمینان رہے کہ ایمان کی جو امانت ہم نے بزرگوں سے پائی تھی ،اس کو بہتر لوگوں کے حوالہ کرکے جارہے ہیں۔

بلاشبہ جب انسان کوئی کام اخلاص اور قوم وملت کی ناخدائی کے جذبہ سے انجام دیتا ہے تو اس کے کاموں کی خوشبو ہر سو مہکتی اور دل ودماغ کو معطر کرتی ہے،ایک جہاں اس کے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے؛مولانا رحمانی کی یہ تحریک بھی کچھ ایسی ہی ثابت ہوئی ؛چنانچہ دینی تعلیم کی تحریک کے حوالہ سے مولانا رحمانی کی قابلیت ومہارت  کا اعتراف ہر کسی نے کیا۔حیات ولی نامی کتاب کے مرتب رقم طراز ہیں:

مولانا محمد ولی رحمانی بہار ہی نہیں،ہندوستان بھر میں ایک نامور عالم دین اور بہترین مصلح کی حیثیت سے معروف ہیں، ہندوستانی مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب کی وجہ سے عوام وخواص میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔اور ان کی اس خدمت کا ہر کوئی معترف ہے ،بیرون ملک میں بھی وہ اس وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔

مولانا رحمانی نے اس حوالہ سے جو بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہاں یہ رکارڈ ملحوظ رکھنا کافی ہے کہ سن 2004 ء میں رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت مسلم بچوں بچیوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لئے مکاتب کے قیام کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس تحریک کے زیر اثر مونگیر ضلع میں تقریبا دو تین سو مکاتب کا قیام عمل میں آیا۔ ان مکاتب کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ بچے اور بچیاں جو غربت یا عدم سہولت کی بنا پر قرآن کی تعلیم سے محروم تھے ان کو سنہرا موقع فراہم ہوگیا۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء بھی اس سے مستفید ہوئے۔

اردو زبان کا تحفظ:

اردو زبان کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ قبول حاصل ہے،دینی اور اسلامی علوم و فنون کا بڑا سرمایہ اردو زبان میں ہی موجود ہے،مدارس میں دینی تعلیم کے لیے اردو زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے،اس اعتبار سے اردو زبان سیکھنا مذہبی ضرورت اور شرعی تقاضہ ہے،اردو زبان کا نہ سیکھنا مسلمانوں کے حق میں سراسر نقصان دہ ہے۔مولانا رحمانی نے امارت کے اسٹیج سے جس تعلیمی تحریک کی بنیاد ڈالی تھی،اس کی ایک کڑی اردو زبان کا تحفظ بھی تھا،اردو زبان کے تحفظ کی متعدد وجوہ ہیں ،یہاں سب کا ذکر بے موقع ہوگا ؛تاہم مولانا رحمانی کے پیش نظر اردو زبان کا تحفظ اس لیے بہت ضروری تھا کہ اردو فقط ایک زبان نہیں؛ بلکہ اس ملک میں یہ ہمارے دین کا حصہ ہے؛چنانچہ آپ نے اسے بھی ایک تحریک کی شکل دی اور امارت اور دیگر اداروں  کی ٹیم اور مختلف اسٹیجوں کے ذریعہ قوم کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ اردو بول چال کے ساتھ اس کے لکھنے پڑھنے کو بھی اپنے گھروں میں رواج دینا ہمارا ملی فریضہ ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ گھروں میں اردو اخبارات لیے جائیں،اور ہر گھر میں دینی کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری ہو،اس حوالہ سے بھی آپ کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے،سب کا خلاصہ یہی ہے کہ اردو زبان کی حفاظت کے بغیر دینی تعلیم کی تحریک نہ صرف یہ کہ کمزوری کا شکار ہوسکتی ہے ؛بلکہ اپنا وجود بھی کھو سکتی ہے،مولانا رحمانی کا احساس یہ تھا کہ اس ملک میں اردو زبان کی حفاظت در حقیقت اسلامی علوم وفنون کی حفاظت ہے؛چنانچہ مولانا رحمانی نے اردو کے فروغ کے لیے عملی طور پر قدم بھی اٹھایا،”ترغیب تعلیم اور تحفظ اردو” کے عنوان سے مہم چھیڑی اور "اردو کارواں "کے نام سے کمیٹی بنائی،رحمانی فاؤنڈیشن کے بینر تلے مونگیر شہر کے غیر اردو داں بچوں اور بچیوں کو اردو زبان سیکھنے کا موقع فراہم کیا،اردو رسم الخط کا تحفظ بھی آپ کے پیش نظر رہا؛اس کے لیے "اردو صحیح لکھیے” نامی کتاب بھی فاؤنڈیشن سے شائع کی گئی۔

دارالحکمت کا قیام:

مولانا رحمانی کی تعلیمی تحریک کی ایک سنہری کڑی ” دارالحکمت ” کا قیام بھی ہے،یہ شعبہ آپ کی تعلیمی تحریک کی خوبصورت یادگار ہے،یہ شعبہ 2012 میں جامعہ رحمانی مونگیر میں قائم کیا گیا،اس تحریک کا مقصد اور مشن نئی نسل کی علمی اور اخلاقی نشو ونما اور ان کی ایسی تربیت تھی کہ وہ طلبہ جب دارالحکمت سے فارغ ہوں تو اپنی علمی قابلیت اور اعلی اسلامی کردار کے ذریعہ سماج کی خدمت کے ساتھ دعوت دین کا فریضہ بھی ادا کر سکیں،اس اعلی مقصد کے حصول کے لیےحفظ قرآن،علوم شرعیہ اور علوم عصریہ  کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو شاملِ نصاب کیا گیا،یہ شعبہ کل بارہ صفوف پر مشتمل ہے،جس کے ابتدائی پانچ سال حفظ قرآن کریم کے لیے اور بقیہ سات سال عالمیت کے کورس کے لیے ہیں ۔اس شعبہ کا سب سے بڑا امتیاز تدریسی زبان اور ذریعہ تعلیم کا "عربی” ہونا ہے،اس تحریک کے مثبت اثرات بہت جلد مرتب ہوے؛چنانچہ شعبہ حفظ کے طلبہ مولانا رحمانی کی سرپرستی، اساتذہ کی محنت اور منفرد انداز تدریس کی وجہ سے عربی زبان کو مادری زبان کی طرح بولنے لگے،اس تحریک کو موثر اور مضبوط کرنے کے لیے مولانا رحمانی نے جامعہ رحمانی سے ایک وفد شیخ الازہر مصر کی خدمت میں بھیجا،انھوں نے اس شعبہ کی تفصیلات سن کر نہ صرف یہ کہ اطمینان اور نیک خواہشات کا اظہار کیا؛بلکہ اپنے یہاں سے زبان و ادب اور علوم شرعیہ کے ماہرین کو جامعہ رحمانی مونگیر بھیجنا منظور کرلیا،چنانچہ وہ آے ،درس بھی دیا اور اس طرح دینی علم اور عربی زبان کی بےمثال خدمت انجام پائی۔اس سلسلہ کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مولانا رحمانی نے جامعہ رحمانی کا جامع ازہر مصر سے الحاق کرایا،تاکہ یہاں کے طلبہ علوم وفنون کے ساتھ عربی زبان کی معیاری تعلیم حاصل کرسکیں،چنانچہ اس شعبے کے بعض طلبہ جامع ازہر بھی گئے اور اعلی تعلیم سے آراستہ ہو کر واپس لوٹے،ظاہر ہے یہ ادارہ کے ساتھ مولانا رحمانی کی تعلیم کے میدان میں بڑی کامیابی اور نمایاں خدمت ہے،جس نے آپ کو ایک ماہر تعلیم کے طور پر متعارف کرایا،اس کامیاب تجربہ کے آئینہ میں مولانا رحمانی کی تحریکی ،علمی اور فکری صلاحیت کو بہت صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے،مولانا رحمانی کا یہ قدم اس معنی کر بھی قابل تعریف ہے کہ انھوں نے اپنی تعلیمی تحریک کے فروغ کے لیے مدرسہ کا قدیم اور مفید نصاب تعلیم کو اپنی جگہ برقرار رکھا،اس میں اخراج وادخال کا عمل نہیں کیا،ورنہ تحریک ،تجدید اور اصلاح کے نام پر اصل نصاب تعلیم میں چھیڑ چھاڑ کیا جانا روحِ مدارس کا گلہ گھونٹنے جیسا ہے،اس اعتبار سے مولانا رحمانی کا یہ عمل اہل مدارس کے لیے ایک نمونہ بھی ہے کہ اگر وہ قوم وملت کے درد میں کچھ "نیا” کرنا چاہتے ہیں تو اصل نصاب تعلیم کو چھیڑے بغیر ان کے لیے تجدیدی  اور اختراعی راہیں کھلی ہوئی ہیں،اور وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔مولانا رحمانی کا یہ دارالحکمت خلیفہ ہارون رشید کے "بیت الحکمت” کے برابر نہ سہی؛لیکن دعا کرنی چاہیے کہ اس دارالحکمت میں بیت الحکمت کے عکس ونقش دکھائی دیتے رہیں، اور مرور ایام کی وجہ سے یہ بیت الحکمت صرف یادگار نہیں ؛بلکہ زندہ اور سدا سلامت رہے۔

تعلیمی تحریک کی ذیلی شاخیں:

مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کی وفات کے بعد جب جامعہ رحمانی کی نظامت آپ کے سپرد کی گئی تو آپ نے تعلیمی معیار بلند کرنے کے لیے کچھ ایسے قدم بھی اٹھائے جس سے نہ صرف یہ کہ جامعہ رحمانی کا نام روشن ہوا بلکہ طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار  ہوئیں اور انھیں بہت فائدہ ہوا؛چنانچہ آپ نے مختلف شعبے قائم کیے،انجمن نادیۃ الادب کے تحت طلبہ میں زبان وادب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے شعری مسابقہ ،قرآنی معلومات میں اضافے کے لیے قرآنی کوئز،اور تاریخ وسیر میں مہارت پیدا کرنے کے لیے سیرت کوئز اور تحریر کی عمدگی اور اس کو نکھارنے کے لیے خوش خطی کے مسابقے منعقد کرائے، علاوہ ازیں برجستہ بیان وخطابت میں استعداد پیدا کرنے کے لیے ارتجالی مسابقے کی طرح ڈالی،قرآن مجید کی ترتیل اور مخارج کی تصحیح کے لیے "قرآن خوانی وکلمہ خوانی”اور "قرآن ہماری منزل "کے عنوان سے پروگرام بنایا،جامعہ رحمانی میں حفظ کی تکمیل اور دستار بندی کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ وہ حافظ چھ یوم میں مکمل قرآن کریم سنا دیں،ساتھ ہی ان طلبہ کے لیے نقد انعام کا نظم بھی فرمایا۔علاوہ ازیں مونگیر شہر کے عوام کے لیے "قرآنی مجلس”کے نام سے ایک ایسا پروگرام بھی بنایا گیا جس کے ذریعہ عام مسلمانوں کو تلاوت، تفسیر اور احکام ومسائل سے روشناس کرانے کی محنت کرائی جاتی ہے۔یہ سب اور ان جیسی مزید کوششیں بلا شبہ آپ کی تعلیمی تحریک اور تجدیدی فکرکی خوبصورت تعبیرات اور عنوانات ہیں۔

رحمانی فاؤنڈیشن:

مسلم بچے اور بچیوں کی عصری تعلیم میں ترقی بھی مولانا رحمانی کا بڑا خواب تھا،آپ نے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے 1996 میں رحمانی فاؤنڈیشن کی داغ بیل رکھی،مولانا رحمانی نے اپنی اس اہم تحریک کا دائرہ بہت وسیع رکھا،چنانچہ یہ ادارہ جہاں تعلیمی ہے تو اس کی دوسری حیثیت رفاہی تنظیم کی بھی ہے،نیز اس میں برادران وطن کے بچوں کی تعلیم کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔اس کے تحت صحت،کمپیوٹر، قومی براے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے اشتراک سے ایک سالہ اردو اور کمپیوٹر کا کورس قائم کیا گیا؛اس ادارے نے بطور خاص عصری تعلیم اور صحت کی طرف خاص توجہ دی ہے،اس شعبے نے نوجوانوں کے لیے روزگار بھی فراہم کیا،اس ادارے کے بینر تلے مونگیر شہر میں دو سو سے زائد مکاتب قائم کیے گئے، جس کے ذریعہ کمزور و بے سہارا بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر کےاسکول تک پہنچانا آسان ہوا،ہُنر پروگرام کے تحت لڑکیوں کو سلائی اور کشیدہ کاری کی تعلیم بھی دی گئی،اسی طرح اس ادارے کے ذریعہ لڑکیوں میں دستکاری کی مہارت پیدا کرائی گئی،اس فاؤنڈیشن کے توسط سے سمر پروگرام کے ذیل میں اسکول کے بچوں اور بچیوں کو کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے،اس کے تحت ہندی داں طلبہ وطالبات کو اردو سکھانے کا نظم بھی کیا گیا،2014 میں اس فاؤنڈیشن کے توسط سے مونگیر اور اطراف مونگیر کے طلبہ کے لیے رحمانی بی ایڈ کالج بھی قائم کیا گیا جو ضلع مونگیر کے طلبہ کو تعلیمی میدان میں خدمات فراہم کررہا ہے اور طلبہ برسر روزگار ہو رہے ہیں،اردو زبان کی ترویج واشاعت بھی اس ادارے کے پیش نظر رہی ہے۔اس کی مزید تفصیل "حیات ولی” میں دیکھی جاسکتی ہے۔

بہار کا ضلع کشن گنج ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے،لیکن تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے،اس علاقے کی تعلیمی ترقی کا خواب لے کر مولانا رحمانی آگے بڑھے اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے انھوں نے 2011 میں وہاں 285 ایکڑ زمین خریدی؛ تاکہ اس وسیع اراضی پر تعلیمی اور صنعتی ادارے قائم کیے جائیں ۔یہ کام بھی رحمانی فاؤنڈیشن کے استحکام اور اس کی تعلیمی تحریک کی وسعت کے پیش نظر کیا گیا تھا ؛لیکن چند وجوہ کی بنا پر یہ کام مکمل نہ ہوسکا،اگر یہ کام پاے تکمیل کو پہنچ جاتا تو مسلمانوں کا ایک ایسا ادارہ وجود میں آتا جہاں دس ہزار طلبہ وطالبات دینی ماحول میں پلس ٹو تک کی تعلیم حاصل کرتے۔اس کے علاوہ آپ نے رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت "رحمانی ایکسیلنس اسکول”کی بنیاد بھی رکھی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ اس اسکول میں جدید انگریزی میڈیم اسکول کے طرز پر عصری تعلیم کا نظم دینی ماحول میں کیا جاے،لیکن یہ کام ابھی تشنہ ہے۔بہرحال یہ ادارہ بھی مولانا رحمانی کی تعلیمی، تحریکی اور تجدیدی کارہاے نمایاں کی منہ بولتی تصویر ہے جس کے نقوش عصری میدان میں کام کی خواہش رکھنے والوں کے لیے تیز روشنی اور خضر راہ سے کم نہیں۔رحمانی فاؤنڈیشن نے صحت کے میدان میں بھی کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں،پیش نظر موضوع سے عدم مناسبت کی وجہ سے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

رحمانی تھرٹی:

  ہندستان کی سیاست اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر مولانا رحمانی کی گہری نظر تھی،آپ کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ اس ملک میں دینی تعلیم کا استحکام جس قدر ضروری ہے اسی قدر عصری علوم میں مسلم قوم کے تعلیمی معیار کو بلند کرنا بھی لازم ہے،ورنہ مسلم قوم کی ترقی کی راہیں مسدود ہوتی چلی جائیں گی،اسی کے ذریعہ مذہبی شناخت اور ملکی وقار کا تحفظ ہوسکتا ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعہ اس کی تصدیق بھی ہورہی تھی۔چنانچہ آپ نے 2008 میں رحمانی تھرٹی قائم کیا۔مسلم طلبہ کے لیے کبھی یہ خواب ہوا کرتا تھا کہ وہ بھی آئی آئی ٹی (IIT)،جے ای ای (JEE)،چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ(CA)، سائنٹسٹ وغیرہ جیسے مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہوں ،رحمانی تھرٹی ان کے حسین خوابوں کی تعبیر بن کر سامنے آیا،اس کام اور تحریک کو مستحکم انداز میں چلانے کے لیے مولانا رحمانی نے بہار کے مشہور ماہر تعلیم ابھیانند(ڈی جی پی) سے تعاون لیا،اس ادارہ کو پروان چڑھانے کے لیے آپ نے ہر ممکن کوشش کی ہے؛بلکہ تن من کے ساتھ *دھن” کی بازی لگانا بھی گوارا کیا،آپ اپنی اس تحریک اور مہم کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ مدرسہ سسٹم نے جو مجھے سکھایا ہے اور جس ذہن کی آبیاری کی ہے،اسے میں نے رحمانی(30)کی شکل میں پیش کردیا ہے۔ایک موقع پر فرمایاکہ میں نے مدارس اسلامیہ کی بارہ سو سالہ تاریخ کے نظام سے جو کچھ سمجھا، اسے عصری اداروں پر منطبق کیا تو رحمانی تھرٹی وجود میں آیا۔آپ نے مسلم غریب طلبہ کے لیے فری کوچنگ کے ساتھ قیام وطعام کا مفت انتظام کرایا،نتیجہ بہتر سے بہتر ہو اس کے لیے ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا دائرہ وسیع کیا گیا اور متعدد صوبوں میں اس کی شاخیں کھولی گئیں۔ مولانا رحمانی کے اس انقلابی اقدام سے مسلم طلبہ کے حوصلوں میں زبردست اضافہ ہوا؛چنانچہ وہ ملکی اور عالمی سطح کے مشکل مقابلوں میں شریک ہونے لگے، کامیابی اور نتائج بھی خاطرخواہ سامنے آے۔بلا شبہ اس اسٹیج نے مسلم غریب طلبہ کے لیے روزگار اور معاش کے بہترین مواقع فراہم کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔آپ کی یہ اہم تحریک زمینی سطح پر اب ایک شجر سایہ دار بن چکی ہے،آپ کی یہ تحریک حقیقت یہ ہے کہ آپ کی تصویر حیات کی ایسی جھلک ہے جس کا رنگ گہرا اور روشنی بہت تیز ہے،آپ نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ عزم واستقلال کے ذریعہ ہی رسمِ کوہ کنی ادا کی جا سکتی ہے،آپ نے یہ ثابت کیا کہ ایک مولوی بھی عصری علوم کے میدان میں قوم وملت کی رہبری کرسکتا ہے،آپ کے اس قدم سے پہلے تک مسلم قائدین صرف منصوبے بناتے تھے،مسلمانوں کی تعلیمی انحطاط کا رونا روتے تھے ،مولانا رحمانی وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے اس منصوبے کو نہ صرف یہ کہ زمین پر اتارا ؛بلکہ اپنا چراغ دل جلا کر اسے دینی روشنی بھی عطا کی اور خون جگر کے ذریعہ اس کی آبیاری فرمائی۔آپ کی کتاب زندگی کا یہ باب ہندوستانی قائدین کے لیے درس عبرت سے کم نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ آپ کا یہ کارنامہ آب زر سے لکھا گیا اور دنیا نے اس اقدام کی کھلےدل سے تعریف کی،قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اسے سر آنکھوں پر بیٹھایا،تفصیل کے لیے حیات ولی کا مطالعہ کرنا چاہیے،مولانا رحمانی کی اس تعلیمی تحریک کو ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔مولانا رحمانی جب تک زندہ رہے اپنی اکثر تحریروں اور تقریروں میں اس پر زور دیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو دینی ماحول پر مشتمل اپنا معیاری اسکول کالج بنانا چاہیے۔مولانا رحمانی دنیا سے جا چکے ہیں لیکن ان کے روشن نقوش رہبری کے لیے مینارہ نور بن کر ہمارے سامنے ہیں اس لیے خاکے اور منصوبے بنانا اور اسے زمین پر اتارنا کچھ مشکل نہیں ۔

امارت اسکول:

زندہ قوم کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ اس کے اپنے معیاری ادارے اور دانش گاہیں ہوں مولانا رحمانی کا یہ ماننا تھا کہ مسلم قوم تعلیم کے میدان میں اگر دوسری قوموں کی تعلیم گاہوں اور اسکول وکالج کی محتاج ہو تو یہ اس کی غیرت وحمیت کے خلاف ہے،یہی وجہ ہے کہ اسلامی ماحول کے ساتھ مسلم اسکول وکالج کا قیام امارت شرعیہ کے مقاصد کا بنیادی حصہ رہا ہے،اور اس نے اس میدان میں کام بھی کیا ہے،آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ کہا تھا کہ "امارت شرعیہ اسکول کا مقصد ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں پڑھنے والے تعلیم یافتہ بھی ہوں اور تہذیب یافتہ بھی،اور ان کے اندر انسانیت پیدا ہو” چنانچہ اسی مقصد کے تحت امارت پبلک اسکول کے عنوان سے متعدد اسکول،ٹیکنیکل آئی ٹی آئی ،کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اور پارا میڈیکل قائم کیے گئے ہیں، مولانا رحمانی کی اس جانب خصوصی توجہ رہی ہے اور انھوں نے امارت اسکول کے قیام کو اپنی تعلیمی تحریک کا حصہ بنا لیا تھا،آپ چاہتے تھے کہ اسلامی انداز اور ماحول میں ایسے اسکول قائم کیے جائیں جن میں دینیات کی تعلیم بھی لازمی ہو،آپ نے اس حوالے سے بھی بھرپور کوشش کی،چوںکہ یہ کام آپ کی فکر اور تحریک کا بنیادی محور تھا اس لیے اپنی زندگی کے اخیر ایام میں امارت کی ٹیم کے ذریعہ دومرتبہ پورے بہار وجھارکھنڈ  کا دورہ کرایا گیا وہ دورہ بہت کامیاب رہا،ہر ضلع اور بلاک میں باضابطہ تعلیمی کمیٹی بنائی گئی،امارت شرعیہ میں بہار کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کے دو ذمہ دار مقرر کیے گئے،تاکہ امارت اور امیر امارت کی فکر اور تحریک کو زمین پر اتارا جاسکے وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،مولانا رحمانی بھی عملی طور پر اپنے اس حساس فکر اور تحریک کا حصہ رہے،چنانچہ آپ کی زندگی میں مذکورہ طرز کے تین چار معیاری اسکول قائم ہوے،وفات سے ہفتہ دس روز پہلے آپ نے جھارکھنڈ کے ایک علاقے میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد بھی رکھی تھی،اس کے بعد آپ بیمار ہوے اور پھر مالک حقیقی نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا،اس لحاظ سے آپ کی زندگی کا آخری بڑا اور اہم کام تعلیمی تحریک کو آگے بڑھانا ہی رہا۔گویا جینا مرنا دونوں قوم وملت کے نام رہا،اللہ تعالی قبول فرمائیں۔ملک اور قوم وملت کی تعلیمی ترقی کا جو خواب مولانا رحمانی اپنی آنکھوں میں بساے اور سجاے ہوے تھے اسے اللہ تعالی دوام بخشیں۔

تعلیمی تحریک اور دینی ماحول:

دینی تعلیم ہو یا عصری مولانا رحمانی نے ہردومیدان میں اپنی قابلیت ومہارت کے جھنڈے لہراے ہیں،جس کی مختصر تفصیل اوپر پیش کی گئی،اخیر میں اپنا یہ احساس پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ آپ کی تعلیمی تحریک کی سب سے اہم اور قابل تعریف بات میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ نے بطور خاص عصری تعلیم گاہوں میں دینی ماحول اور مذہبی مزاج پیدا کرنے کی پرزور وکالت اور بھرپور کوشش کی،رحمانی مکاتب ہوں یا رحمانی فاؤنڈیشن، رحمانی تھرٹی کی بات ہو یا امارت اسکول کی گفتگو یا پھر اس طرح کی عصری علوم کے ذیلی مراکز:ہر جگہ آپ نے دینی ماحول فراہم کیے جانے کی تجویز پیش کی، اس کے خاکے بناے اور اسی خاکے میں دینی رنگ بھرنے کی محنت کی۔ اس طرح آپ نے عصری اور دنیاوی علوم میں بھی دین اور آخرت کی روح بھونکی،یہی ہر عالم دین بلکہ مسلمان کا مشن ہونا چاہیے،عموما عصری علوم کو معاش محض کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے؛چنانچہ اگر ان کا حصول دینی ماحول کے بغیر ہو تو دنیا تو سنور جاتی ہے؛لیکن بعض دفعہ آخرت ضائع ہوجاتی ہے جو ایک مسلمان کا سب بڑا نقصان ہے،مولانا رحمانی دینی اور عصری دونوں علوم کے جامع تھے اور ایک لانبے زمانے تک سیاسی گلیاروں کی سیر بھی کی تھی؛لیکن آپ کی حیثیت عرفی ہمیشہ  "بوریہ نشیں عالم دین”اور”سجادہ نشیں صوفی”کی رہی، اسی لیےآپ معاش اور دنیا کی ترقی کے ساتھ  "متاع عزیز” کا تحفظ بھی چاہتے تھے ؛چوں کہ آپ کی رگوں میں احسانی اور روحانی سلسلے کا خون بھی دوڑتا تھا جس کی وجہ سے روحانیت ،مادیت پر غالب رہتی تھی،اسی وجہ سے احسانی احساس اور روحانی اقدار آپ کی جملہ تعلیمی تحریک کا اٹوٹ حصہ تھے،اور یہی خانقاہی مزاج تھا کہ جس نے آپ کو اور آپ کی تحریک کو نہ صرف یہ کہ موثر بنایا؛ بلکہ اس نے دونوں کو "نشانِ امتیاز وانفراد” عطا کیا۔آپ ہمیشہ اس کے لیے کوشاں رہے کہ مسلمان جہاں بھی رہے اور جس شعبے میں رہے "بحیثیت مسلمان” رہے اس کی مومنانہ شان اور مسلمانہ رنگ ہر جگہ غالب رہے۔خدا کرے یہ "رحمانی احساس” آپ کے جانشین،نائبین،متعلقین اور منتسبین میں سلامت رہے اور عصری علوم کے مراکز میں دینی اور ایمانی فضا برقرار رہے۔

معاون تحریریں:

1:حیات ولی،مرتب:شاہ عمران حسن،مطبع:رہبر بک سروس دہلی

2:تعلیمی میدان میں مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی کے تجدیدی کارنامے،مضمون نگار:عبدالعلیم رحمانی،ماخوذ از: dailyhunt

۳: امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی تعلیمی خدمات،مضمون نگار:اسجد عقابی/استاذ دارالعلوم وقف دیوبند، ماخوذ از: www.asjaduqaabi.com

4:دینی تعلیم سبھوں کے لیے،مضمون نگار:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، ماخوذ از:www.baseeratonline.com

5:حضرت امیر شریعت سابع رحمة اللہ علیہ کی تعلیمی تحریک، مضمون نگار:محمد انظر حسین قاسمی/استاذ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر،ماخوذ از:سوشل میڈیا۔

6:ولی رحمانی۔آزاد دائرة المعارف ،ویکیپیڈیا۔

7:حضرت امیر شریعت سابع مولانا ولی:حیات وخدمات، مضمون نگار:فضل رحماں رحمانی،ماخوذ از:react.etvbharat.com

8:امارت شرعیہ کی تعلیمی تحریک وقت کی اہم ضرورت، مضمون نگار:مولانا احمد حسین قاسمی/معاون ناظم امارت شرعیہ،ماخوذ از:www.sahafaturdu.com

***

Comments are closed.