سوز دروں کا شاعر؛ جناب نواب سید محمد خاں مرحوم

محمد صابر حسین ندوی
عالم پسند ہو گئی جو بات تم نے کی
جو چال تم چلے وہ زمانے میں چل گئی
کوئی شاعر کیوں بنتا ہے؟ ایک شاعر کی زندگی کن عناصر سے ملکر بنتی ہے؟ وہ کیو کر فکر و خیالات کی بلندیوں اور تخیل کی اونچائیوں کو چھو لیتا ہے؟ آخر ایسی کیا وجہ ہوتی ہے کہ اس کا کلام انسان کے دل تک پہنچتا ہے، انسان کے سب سے نازک حصے، احساس کی سب سے باریک لکیر کو حرکت دیتا ہے اور پھر اس کا شعر سننے والا اپنے آپ کو اس میں تلاش کرنے لگتا ہے؟ سامع کو یہ باور کردیتا ہے کہ اس کی کہی گئی بات سننے والے کے دل میں بھی تھی، اگرچہ الفاظ اس کے ہیں مگر جذبات میں وہ برابر کا شریک ہے، عالم احساس میں دو ہمجولی اور یار ہیں، اس عجیب و غریب اشتراک کا جواب من و عن دینا مشکل ہے، کاغذ قلم پر روشنائی بکھیر کر اور الفاظ کے جادو میں اسے بیان کردینا بھی محال ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اسے محسوس کرنا پڑے گا، اس کی زندگی سے واقف ہونا پڑے گا، اس کی فکر اور سوچ کی گہرائیوں میں اترنا پڑے گا، اس نے کہاں سے زندگی کی شروعات کی اور کیسے و کیونکر اس مقام پر پہنچ گیا کہ اپنے آپ کو سب سے دھتکارا ہوا کہتا ہے، اپنا تخلص رند رکھتا ہے، سماج و انسان کی بستی پر نالاں اور اپنے پرائے کے چوٹ کا حامل اس مقام تک کیسے آگیا؟ جس محبت کی نازکی انسان کو غمخوار، دلدار اور دل پذیر بناتی ہے، وہی محبت اس کیلئے بجائے تریاق کے زہر کیسے بن گئی اور پھر وہ کہنے پر مجبور ہوگیا:
اپنے مرنے کا اگر رنج مجھے ہے تو یہ ہے
کون اٹھائے گا تری جور و جفا میرے بعد
وہ شاعر عشق کی تپش اور محبت کے جنون میں گلیاں، سڑکیں اور وادیوں سے ہوتا ہوا رند کے مقام پر پہنچا، پھر اس نے ہر ایک کا غم اپنے غم میں سمجھا، جو کچھ ملا اسے زمانے کے سامنے رکھ دیا، دل کی دنیا اجڑی اور آباد ہوئی اس نے اشعار کا جامہ پہنا کر لوگوں سے کہہ دیا، کیا معلوم کچھ سمجھ سکے اور کچھ نے اسے رند/ رند کہہ کر طعنہ دیا، وہ جو کہہ رہے تھے کاش سمجھتے کہ ایک رند ہمارے دل کی دنیا بھی ہے، یقیناً ہم نے اسے ٹھو کر مار دی، اسے کے جذبات اور احساسات کو دھتکار دیا ورنہ ہم جانتے کہ اس رند کی کہانی ہمارے دل سے الگ نہیں ہے، وہ ہم میں سے ایک ہے، انسانی معاشرے کا ایک چلتا پھرتا زندہ و تابندہ وجود ہے، وہ جس رنج میں عندلیبوں کو آواز دے رہا ہے اور اپنے غم میں شریک کر رہا ہے دراصل اس میں ہمیں شریک ہونا تھا، اس کے شانے سے شانہ ملانا تھا؛ کیونکہ ہم بھی تو یہی چاہتے تھے کہ اے شکستہ دل! کاش کوئی تیرا شریک ہوتا، تیرے غم کو اپنا غم کہتا، اور عندلیبوں کی دنیا میں تیری آواز بھی سنی جاتی اور تو بھی کہتا:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
طالب علمی کے دور میں استاذ محترم مولانا محبوب عالم ندوی دامت برکاتہم (سابق استاد: دارالعلوم تاج المساجد بھوپال، ایم پی) نے اس شعر کو یاد کروایا تھا، ثانیہ رابعہ کا وہ سال اور شعر و شاعری کی وہ زندگی!!! اس شعر کو خوب پڑھا؛ لیکن اب سمجھ آتا ہے، پھر جب اسے کہنے والے کے بارے میں معلوم ہوا تو پتہ چلا یہ تو ہمارے دل کا ساتھی ہے، یہ زمانے کا رند ہے، تو ہم کون سے سر پر بٹھائے لوگ ہیں!! یہ جناب نواب سید محمد خاں ہیں، جو ٣/ ستمبر ١٧٩٧ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ تخلص رند رکھتے تھے، نوابان اودھ کے خاندان سے قرابت تھی۔ بعد میں لکھنؤ چلے گئے، اور آتش کے شاگرد ہوگئے، ان کی خواہش کے مطابق رند تخلص اختیار کیا۔ رند ایک خوبصورت، عاشق مزاج اور دولت مند رئیس تھے۔ انھوں نے رندانہ زندگی بسر کی۔ آخر عمر میں تائب ہوگئے تھے؛ بمبئی میں ۱۸۵۷ء میں فوت ہوگئے۔ ایک کلیات ان کی یادگار ہے جس میں دو دیوان شامل ہیں۔ایک دیوان ’’گل دستہ عشق‘‘ اور دوسرا دیوان غیر مکمل ہے، مرحوم کی زندگی کا جائزہ اور منتخب کلام پڑھنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک عبقری فکر کے حامل تھے، معلوم نہیں کہ حقیقی زندگی میں روحانیت کا کیا عالم تھا، پھر تائب ہوئے تو کس طرح؟ مگر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے تخلص رند کا اثر خوب تھا، اب دیکھیے وہ جنت میں بھی کیا تلاش کرتے ہیں:
مے کش ہوں وہ کہ پوچھتا ہوں اٹھ کے حشر میں
کیوں جی شراب کی ہیں دکانیں یہاں کہیں
مگر یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کی رحمت سے کم از کم جنت کا مستحق سمجھتے تھے، ایسا بھی نہ تھا کہ کلی طور پر شیطان کے ہم نوا ہوگئے ہوں، وہ اصل میں ہجر کے مارے ہوئے تھے، اس دنیا میں ہجر انسان کو اس ویرانی میں پہنچا دیتا ہے جہاں فکر و خیال کی حیران کن بستیاں آباد ہوتی ہیں، یہی وہ ہجر تھی جس کی گردش میں وہ کہا کرتے تھے:
ہجر کی شب ہاتھ میں لے کر چراغ ماہتاب
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں گردوں پر سحر ملتی نہیں
آخر یہ عالم بھی کیوں نہ ہوتا؟ جس نے عشق کیا ہو، اپنے آپ کو کسی کے سپرد کردیا ہو، شب و روز کسی کی یادوں، سپنوں اور محبتوں میں گزار دیا ہو، اگر وہاں سے بے گانگی ملے تو ظاہر ہے انسان اسی مقام کو پائے گا، ایک موقع پر اپنے عشق کا عالم بھی کہہ گیے، دل کی تڑپ، چبھن اور سوز عشق کا بیان کیا کہنے! آپ بھی لطف لیجیے!
عشق کچھ آپ پہ موقوف نہیں خوش رہیے
ایک سے ایک زمانے میں طرحدار بہت
اس نے دل میں محبوب کا تماشا بسایا تھا، زندگی بسائی تھی، سوز و درد اور جان رکھ دی تھی، تبھی تو کہنے پر مجبور ہوگیا:
دید لیلیٰ کے لیے دیدۂ مجنوں ہے ضرور
میری آنکھوں سے کوئی دیکھے تماشا تیرا
پھر ایسی سوز درون کا انجام تو واضح تھا، کہاں نصیب کہ ہر کوئی اس سوز کی دوا پائے، دل پر زخم اور مرہم پائے، انسان تو زخم پر زخم جب کھانے لگتا ہے تو پھر شاید دوا بھول ہی جاتا ہے؛ بلکہ دوا بھی بے اثر ہوجاتی ہے، رند صاحب کی یہ حالت ہوئی کہ وہ کہنے لگے:
مے پلا ایسی کہ ساقی نہ رہے ہوش مجھے
ایک ساغر سے دو عالم ہوں فراموش مجھے
اب اسی میں انہیں سکون تھا، مگر خلش تو بہر حال تھی، تڑپ اور کسک کی دنیا میں بستے تھے، ہر پل کوئی ستاتا تھا، کوئی غم دلاتا تھا، کوئی چھیڑتا اور رلاتا تھا، اسی کے دم سے ان میں دم باقی تھی، اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا ہے:
شوق نظارہ دیدار میں تیرے ہمدم
جان آنکھوں میں مری جان رہا کرتی ہے
ان سب کے باوجود جب کوئی چارہ نہ رہا تو لعن طعن کرنے لگے، تسلی دینے والوں کو اپنا حال بتانے لگے، بیزاری اور اکتاہٹ کا احساس کروانے لگے، خود دیوانے کو فہرست میں رکھ کر کہنے لگے:
دیوانوں سے کہہ دو کہ چلی باد بہاری
کیا اب کے برس چاک گریباں نہ کریں گے
شاعر کی جھنجھلاہٹ ابھی باقی ہے، اس میکش سے کوئی کچھ نہ کہے، اس کے خانہ برباد پر کوئی انگلی نہ اٹھائے، ذرا شاعر کی کی تڑپ دیکھیے:
رندان عشق چھٹ گئے مذہب کی قید سے
گھنٹہ رہا گلے میں نہ زنار رہ گیا
اس عالم میں وہ محبوب کو بھی کیا کچھ نہیں کہتے، بعض اشعار میں سوز دل کی بساط اس کے سامنے رکھ کر گویا بد دعائیں دیتے ہیں، اور چیخ چیخ کر کہتے ہیں:
لائے گی گردش میں تجھ کو بھی مری آوارگی
کو بہ کو میں ہوں تو تو بھی در بدر ہو جائے گا
اور پھر تڑپ، قلق اور بے چینی میں اپنی کیفیت انہیں کی زبان سے سنئیے، دیکھیے شاعر جنون عشق میں کس طرح کسی سر پھرے کی طرح ہر طرف سر پھرا رہا ہے اور حقیقت حال بیان کر رہا ہے:
پاؤں کے ہاتھ سے گردش ہی رہی مجھ کو مدام
چاک کی طرح سے کس روز مرا سر نہ پھرا
مگر پھر انسان آخر انسان ہے، وہ روئے گا اور خوب رویے گا؛ لیکن صبر پاہی لے گا، اسی کا نام زندگی ہے، یہی انسان کی تقدیر ہے، وہ جب تک زندہ رہتا ہے بے چینی اور بے قراری اس کے دامن سے چمٹی رہتی ہے؛ لیکن وہ وقت بھی آتا ہے کہ جب وہ اس سے ابر جاتا ہے اور ایک نئی زندگی کا جام پیتا ہے، پچھلا زمانہ پیچھے ہی رہ جاتا ہے، سارے غم و رنج پس پشت ڈال کر صبر کی چادر تان لیتا ہے، اسی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے اور پھر ایک مسکراتا، اور بسااوقات قہقہے لگاتا نئی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے، جناب سید محمد خان صاحب کی زندگی اور اشعار بھی یہی سبق دیتے ہیں، دیکھیے وہ کہہ رہے ہیں:
طبیعت کو ہوگا قلق چند روز
ٹھہرتے ٹھہرتے ٹھہر جائے گی
[email protected]
7987972043
Comments are closed.