سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مکارم اخلاق

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
ایڈیٹر: ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی
انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے برتر اور سب سے اعلیٰ شخصیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے،یہ بات اپنے اور پرائے سب تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی انسانی تاریخ کی سب سے بہتر شخصیت تھی۔اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے،وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے۔ہمارے نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے،جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عمدہ اور اعلیٰ اخلاق والا دنیا میں کوئی نہیں دیکھا۔ آپ کے اصحاب اور گھر والوں میں سے جب کوئی آپ کو بلاتا تو جواب فرماتے لبیک (حاضر ہوں) اسی لیے اللہ رب العزت نے آپ کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی انک لعلیٰ خلق عظیم۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (سنن بیہقی 1921) مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی صدق و امانت، شفقت و رافت، الفت و محبت، ہمدردی و مروت، عدل و انصاف، عفت و پاک دامنی، شرم و حیا، حق گوئی و حق پسندی، ایثار و قربانی، جود و کرم، صبر و حلم، عفو و درگزر، زہد و شکر،سادگی و خوش طبعی، خدمت خلق، تواضع و انکساری، قناعت و توکل، دشمنوں کے ساتھ عمدہ برتاؤ اور اخلاق حسنہ کا وہ قولی و عملی نمونہ پیش فرمایا ہے ہے کہ جس کی مثال جب سے دنیا بنی ہے اور جب تک دنیا باقی رہے گی اس وقت تک ایسی عمدہ عادتوں والا انسان تاریخ انسانیت نہیں پیش کرسکتی۔
اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور ایمانیات کے بعد انسانی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت اچھے اخلاق و عادات کا حامل ہونا ہے۔اچھی عادات میں اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ہے’عبادت بھی ہیں اور آپس کے معاملات بھی ہیں،لیکن شخصی مزاج اور شخصی عادات کا اچھا ہونا یہ دین اسلام کا سب سے بڑا مطالبہ اور سب سے بڑا تقاضا ہے۔خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب بندہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ میرا قرب سب سے زیادہ اسے نصیب ہوگا جو سب سے زیادہ خوش اخلاق ہوگا۔ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم سوسائٹی میں اچھے لوگ دیکھنا چاہو تو ان لوگوں کو دیکھو جو” احسنھم اخلاقاً” جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
سچائی:
اخلاق حسنہ میں سب سے پہلی عادت ہے سچ بولنا اور انسانی اخلاق و عادات میں سب سے اچھی عادت سچ بولنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری نسل انسانی میں” اصدق الناس” کہا جاتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ہونے کی شہادت آپ کے جانی دشمنوں نے بھی دی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دوشمن تھے ایک ابوجہل دوسرے حضرت ابو سفیان لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا انسان ہونے کے بارے میں دونوں کی گواہی تاریخ میں ریکارڈ ہے۔ایک موقع سے کسی نے ابو جہل سے کسی نے پوچھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ابوجہل نے اقرار کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے آدمی ہیں۔اس سے پوچھا گیا کہ اگر وہ سچے ہیں تو تو تم مانتے کیوں نہیں ہو؟ ابوجہل نے کہا کہ یہ الگ بات ہے کہ میں نہیں مانتا یہ ہماری چودھراہٹ کا مسئلہ ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچا آدمی ہے۔جب روم کے بادشاہ ہرقل کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا والا نامہ حضرت دحیہ الکلبی لے کر پہنچے تو قیصر روم نے کہا عرب کا کوئی ایسا معتبر آدمی لاؤ جس کے ساتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بات کرسکوں۔ابوسفیان کو قیصر روم کے دربار میں طلب کیا گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت سب سے مخالف تھے پوچھا گیا کہ تمہارے علاقے کے ایک آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا ہوا ہے میں اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتاہوں۔قیصرروم نے ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذات گرامی کے بارے میں جو سوالات کیے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ تمہیں اس شخص پر کبھی جھوٹ کا شک گزرا؟ ابوسفیان نے جواب دیا نہیں۔
تحمل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے سب سے نمایاں اوصاف میں ایک صفت کا ذکر ہوتا ہے جسے تحمل،وبردباری اور در گزر کہتے ہیں یعنی تکلیف،مخالفت اوراذیت کو برداشت کرتے ہوئے دشمن کو معاف کردینا۔ 610ء میں جب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک عرب کے شہر مکہ میں اپنی نبوت کا اعلان کیا تو سارا عرب آپ کا دشمن ہوگیا، آپؐ اور آپؐ کے ماننے والوں کے اوپر ایسے ایسے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے،جس کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتے،نماز پڑھتے وقت ہنسی اڑاتے،سجدہ میں آپ کی گردن مبارک پر اوجھڑی ڈال دیتے،گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچتے کہ گردن مبارک میں بدھیاں پڑجاتیں،جادوگرکہتے،دعواۓ نبوت سن کر مجنون کہتے،باہرنکلتے تو شریر لڑکے پیچھے پیچھے غول باندھ کر چلتے،نماز میں قرآن مجید زور سے پڑھتے تو قرآن کریم،قرآن مجید لانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے اتارنے والے ( رب العالمین) کو گالیاں دیتے۔(سیرت ابن ہشام ٢٨٩ج١) جب کسی مجمع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الی اللہ کا وعظ فرماتے تو ابو لہب آپ کے ساتھ کہتا جاتا کہ یہ جھوٹ کہتا ہے،ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جب کہ میں اس وقت تک اسلام نہیں لایا تھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم بازار” ذوالمجاز” میں گئے اور گھس کر لوگوں سے کہا” لا الہ الااللہ” کہو،ابوجہل آپ پر خاک پھینکتا جاتا تھا اور کہتا کہ اس کے فریب میں نہ آنا،یہ چاہتا ہے کہ کہ تم لات و عزیٰ کی پرستش چھوڑدو۔(مسند امام احمد بن حنبل:٤/٢٣) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہمنواؤں کے ساتھ مسلسل تین سال تک دو پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی میں نظر بند ہونا پڑا الغرض مکہ والوں نے 13 سال تک مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا، پتھروں سے استقبال کیا، یہاں تک کہ آپؐ کو اپنا پیارا وطن بھی چھوڑنا پڑا مگر ان شریر دشمنوں نے آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو وہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا اور ایک دن دولت و ثروت سامان حرب کی کثرت کے گھمنڈ میں آکر مکہ کے دولت مند اور سربرآوردہ کا گروہ جو ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھا 313 نفوس قدسیہ جو بالکل نہتے تھے جوان ہی سربرآوردہ قریشیوں کے ہاتھوں طرح طرح کے ستائے گئے تھے جن کے ظلم و ستم کے زخم کی ٹیس سے ان کے سینے ابھی داغدار ہی تھے کہ اسی اثناء قریش مکہ اپنی زبردست فوج لے کر ان نہتے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے پہونچ گیا اگرچہ مسلمان ان کے مقابلے میں ایک تہائی تھے لیکن حیرت انگیز طریقہ سے کامیاب ہوئے، اللہ رب العزت نے مظلومیت، مغلوبیت اور غربت میں گزارنے والے لوگوں کو مکہ کے دولت مند اور شرفاء پر فتح و کامرانی نصیب فرمائی جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر مظلوم و بے کس مسلمانوں کو مال غنیمت ملا، ساتھ ہی قریش کے ستر قیدی ہاتھ آئے جن میں اکثر اہل ثروت تھے جو اب مسلمانوں کے رحم و کرم پر تھے، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ مانگا تو اس سلسلے میں صحابہ کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوگیا، آپ کے یار غار سیدنا حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ سب ہمارے چچازاد بھائی اور کنبے قبیلے والے ہیں، میری رائے ہے کہ آپ ان لوگوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیں، ہوسکتا ہے اللہ انہیں ہدایت نصیب فرمائے جس سے یہ ہماری قوت بازو بن جائیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ رائے دی جو جس کا قریبی ہو وہ اس کی گردن مارے جو میرا قریبی ہو وہ میرے حوالے کیا جائے، علیؓ کے بھائی کو علی کے حوالے اور حمزہؓ کے بھائی کو حمزہ کے حوالے کیا جائے مگر قربان جائیے رحمۃ للعالمین کی رحمت و رافت پر کہ آپؐ نے قیدیوں کے قتل کی تجویز کو رد فر ما دی اور ابوبکرؓ کی رائے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان قیدیوں سے فدیہ لیکر انہیں رہا فرما دیا اور فرمایا:
اے ابوبکر! تمہاری مثال ابراہیم و عیسیٰ کی ہے اور اے عمرؓ تمہاری مثال نوح اور موسیٰ کی ہے۔ (مستدرک حاکم 3/21) آپؐ نے حضرت ابراہیم کی نیک دلی اور حضرت عیسیٰ کی رحمدلی کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے بدر کے ان قیدیوں کی جان بخشی فرمائی جو کہ تمام کے تمام مشرکین کے صنادید و ائمہ اور قائدین تھے ان سب کو قتل کے بجائے زر فدیہ ادا کر دینے پر رہائی کا حکم دے دیا اور جو ان میں نادار تھے ان کو چند مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے پر آزادی کا فرمان عطا کیا،کسی کو مسلمان قیدی کے بدلہ میں چھوڑا،کسی کو یونہی بلا کسی بدلہ کے بھی بطور رحم چھوڑ دیا۔قیدیوں کے بارے میں صحابہ کو تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں، چنانچہ بعض صحابہ کا یہ حال تھا کہ وہ خود کھجور پر قناعت کرتے تھے اور اپنے قیدیوں کو روٹی کھلاتے تھےاور ان قیدیوں کو مہمانوں کی طرح رکھا گیا،بہت سے قیدیوں کا اعتراف موجود ہے کہ مسلمان اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کے آرام وراحت کا اہتمام کرتے تھے ہبارابن اسود کو معافی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کرکے ( اونٹ پر سوار ہو کر) مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہورہی تھیں،تو راستہ میں ہبارابن اسود نامی ایک شخص نے انہیں اتنی تیزی سے نیزہ مارا کہ وہ اونٹ سے گر پڑیں،حمل ساقط ہو گیا،اس صدمہ سے تاب نہ لاسکیں اللہ کو پیاری ہوگئیں،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپ بہت غضب ناک ہوۓ اور آپ کو اس بات سے بہت صدمہ ہوا،جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوجاتی تو آب دیدہ ہوجاتے،لیکن جب ہبار ابن اسود اسلام لے آئے اور معافی کی درخواست کی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کردیا۔سیرت (ابن ہشام٢٧١)
وحشی ابن حرب کو معافی:
وحشی ابن حرب جن کی ذات سے اسلامی تاریخ کے تلخ ترین حادثہ کی یاد وابستہ ہے،کہ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ومشفق چچا کو قتل کیا تھا،لیکن جب انہوں نے اسلام لاکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اسلام تسلیم فرمالیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی دریافت فرمائ،جب انہوں نے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گریہ طاری ہوگیا اور فرمایا وحشی! تمہارا قصور معاف ہے،لیکن تم میرے سامنے نہ آیاکرو،تمہیں دیکھ کر پیارے شہید چچا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
(صحیح بخاری،باب قتل حمزہ)
غورث ابن حارث کو معافی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع سے واپسی میں دوپہر کو آپ نے ایسی جگہ آرام فرمایا جہاں ببول کے بہت سے درخت تھے اور لوگ ان درختوں کی طرف چلے گئے اور بدولت ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) ببول کے ایک پیڑ کے نیچے آرام فرمانے لگے،اور اپنی تلوار اسی درخت پر لٹکا دی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسی درمیان میں ہماری آنکھ لگ گئی،اور ہم تھوڑا سوۓ تھے کہ محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں آواز دے رہے ہیں،ہم نے دیکھا کہ ایک اعرابی آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے،آپ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا کہ اس نے یہ تلوار اٹھائی،میری آنکھ کھلی تو یہ تلوار میرے سر پر کھینچے ہوئے تھا،اس نے مجھ سے کہا کہ اس تمہیں کون بچاسکتاہے؟ میں نے کہا،اللہ لو یہ بیٹھا ہوا ہے،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرمادیا اس کو کوئی سزا نہیں دی۔آپ کے عفوو درگزر سے وہ شخص بہت متائثر ہوا اور جب وہ اپنی قوم میں گیا تو لوگوں سے کہا کہ! میں روۓ زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہترین ذات اقدس کے پاس سے آیا ہوں،بالآخریہی قصہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا۔
( صحیح بخاری کتاب المغازی)
امانت:
اخلاق حسنہ اور اچھی عادات میں امانت و دیانت کا ذکر بھی آتا ہے۔ امانت ایک اچھی عادت ہے جبکہ بےایمانی بری عادت ہے دیانت ایک اچھی خصلت ہے جبکہ بددیانتی ایک بری خصلت ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اس بات میں بھی منتہیٰ کو پہنچی ہوئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنوں کے ساتھ توامانت ودیانت کا معاملہ تو کرتے ہی تھے بلکہ آپ اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی امانت ودیانت معاملہ فرمایایاہےاور یہ عمل آسان نہیں بلکہ یقیناً نہایت دشوارگزارہے۔ جب کفار مکہ کے ظلم سے تنگ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف طرف روانہ ہونے لگے تو یہ وقت تھاجب مکہ کے تمام قبائل متحد ہوکر آپ کوشہید کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایسے نامساعد حالات میں جب آپ مکہ سے نکلتے ہیں توآپ کا آخری عمل کیا ہوتا ہے؟ رخصت ہوتے وقت چند امانتیں حضرت علی کے سپرد فرماکر نصیحت فرماتے ہیں یہ امانتیں فلاں فلاں تک م پہنچا کر ہمارے ساتھ شامل ہو جانا،یہ امانتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی دیانت کا یہ حال تھا کہ جن دشمنوں کی تلواروں کے سائے تلے سے نکل رہے ہیں انہی کی امانتوں کو واپس کرنے کی فکر اور اہتمام کر رہے ہیں۔
امانت واپس کرکے آؤ
خیبر کے موقع پر حضرت اسود راعی جو بعد میں مسلمان ہوئے( رضی اللہ عنہ) وہ اس موقع سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور پوچھا کہ اگرمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت ملے گی۔ اسودراعی نے پوچھا کیا مجھ کالے کو جنت ملے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تجھے جنت ملے گی۔کیا میری نجات ہو جائے گی؟ فرمایا ہاں ہو جائے گی اسود راعی نے کہا ٹھیک ہے آپ مجھے کلمہ پڑھائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود راعی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا۔ اسود راعی نے کہا اب میں آپ کا غلام ہوں۔ آپ نے فرمایا وہ توٹھیک ہے لیکن یہ بکریاں جو تم چرا رہے ہو یہ کس کی ہیں؟ آپ کے دشمن یہود کی ہیں۔ فرمایا کہ تمہارا اسلام قبول کرنا اپنی جگہ لیکن یہ بکریاں جس کی ملکیت ہیں جس کی امانت ہیں اسے واپس کر کے آؤ۔ اسود راعی نے کہا یا رسول اللہ! اگر میں بکریاں واپس کرنے گیا تو خود کیسے واپس آؤں گا؟ فرمایا کہ اچھا ایسا کرو کہ گھر جا کر انہیں دروازے سے اندر کرآؤ۔ (مدارج النبوۃ٢٤٠ج٢)١
ایفائے عہد:
مکارم اخلاق اور اچھی عادات میں وعدہ نبھانا ایک اچھی خصلت ہے۔ وعدہ پورا کرنا ایک اچھی عادت ہے جب کہ وعدہ کی خلاف ورزی کرنا ایک بری عادت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ پورا کرنے کی تلقین بھی فرمائی اور خود وعدہ پورا کرنے کی مثالیں بھی لوگوں کے سامنے پیش کیں۔
تین دنوں تک انتظار:
مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی عبداللہ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت سے پہلے کے دوستوں میں تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور کی بعثت سے پہلے کی بات ہے میرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کاروباری سودا ہوا۔ سو دے کی کچھ رقم میرے پاس تھی جو میں نے حضور کو دے دی جبکہ باقی رقم کے لئے کہا کہ آپ یہاں رکیں میں گھر سے لے کر آتا ہوں۔ لیکن جب میں گھر پہنچا تو میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی حتی کہ اس بات کو تین دن گزر گئے تیسرے دن مجھے یاد آیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فلاں جگہ رک کر انتظار کرنے کا کہا تھا۔کہتے ہیں کہ میں بھاگم بھاگ اس جگہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت کا صرف ایک ہی جملہ ارشاد فرمایا کہ عبداللہ تم نے مجھے بہت پریشان کیا۔ فرمایا کہ تم مجھ سے کہہ کر گئے تھے اس جگہ پر کھڑے ہو کر تمہارا انتظار کروں اور میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ تمہارے واپس آنے تک یہاں رکوں گا۔
آج وعدہ پورا کرنے کا دن ہے:
فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں بیٹھے تھے اس حالت میں کہ بیت اللہ کی چابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چابی لینے کے لئے آپ کے داماد حضرت علی اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے بڑی کوشش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چابی ہمیں مرحمت فرمائیں مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان ابن طلحہ کہاں ہیں؟ جب وہ تشریف لے آئےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لو کنجی سنبھالو عثمان آج نیکی اور ایفاۓ عہد کا دن ہے۔ عثمان یہ چابی ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارے ہی خاندان میں رہے گی،یہ چابی تم سے ظالم وغاصب کے سوا کوئی نہیں چھینے گا۔( فتح الباری ١٥/٨)
کعبہ کی چابی پہلے سے ہی عثمان ابن طلحہ کے پاس رہا کرتی تھی اور آپ خانہ کعبہ کا دروازہ پیر اور جمعرات کو کھولا کرتے تھے مجھے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلم جب مکہ معظمہ میں تشریف فرماتھے، عثمان ابن طلحہ سے ان دو دنوں کے علاوہ دنوں میں خانہ کعبہ کو کھولنے کہا مگر عثمان ابن طلحہ نے چابی دینے سے صاف انکار کر دیا اور نہایت سختی سے پیش آیا اس وقت حضور صل وسلم نے عثمان ابن طلحہ سے کہا تھا عثمان یاد رکھنا ایک دن ضرور آئے گا جب یہ چابی میرے ملک میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا اس کو دوں گا عثمان نے کہا شاید اس دن اس سارے قریش ہلاک ہوجائیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ دین قریش کے اصل وقار اور عزت و شرف اور بزرگی کا دن ہوگا۔ جب عثمان طلحہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چابی عنایت فرمائی تو وہ واقعہ یاد دلایا عثمان ابن طلحہ نے کہا یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
عفو و درگزر اور سخاوت ودریا دلی:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سواروں کو ایک مہم پر روانہ فرمایا،یہ لوگ واپس آئے تو اپنے ساتھ بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو قیدی بناکر لاۓ اور ان کو مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا،جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو آپ نے ان کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ثمامہ کچھ کہنا تو نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آپ قتل کریں گے جس کی گردن پر خون ہے اگر احسان کریں گے تو ایک شکر گزار اور احسان شناس پر احسان کریں گے اور اگر آپ کو مال ودولت مطلوب ہے تو آپ بتائیں،آپ جو مطالبہ بھی رکھیں گے وہ پورا کیا جائے گا آپ یہ سن کر آگے بڑھ گئے،دوسری بار جب آپ کا ادھر سے گزر ہوا توآپ نے یہی سوال کیا اور اس نے یہی جواب دیا اور آپ نے وہی رویہ اختیار کیا جو پہلے کیا تھا، تیسری بار جب آپ ادھر تشریف لے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو رہا کرو، چنانچہ اس کو رہا کردیاگیا اس کے بعد ثمامہ نے مسجد کے قریب کے ایک کھجور کے باغ میں جا کر غسل کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیااور عرض کیا کہ خدا کی قسم ایک وقت تھا کہ مجھے آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ برا نہ لگتا تھا۔ لیکن آج آپ کا روئے انور مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے اور خدا کی قسم آپ کے دین سے زیادہ پوری روئے زمین پر مجھے کسی اور دین سے بغض نہ تھا۔ لیکن آج آپ کا دین سارے ادیان و مذاھب سے زیادہ مجھے عزیز و محبوب ہے،میرا قصہ یہ ہے کہ میں عمرہ کی نیت سے جا رہا تھا کہ آپ کے سواروں نے مجھے گرفتار کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی اورعمرہ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی، جب ثمامہ قریش سے ملے تو ان لوگوں نے کہا کہ ثمامہ تم توبے دین ہو، گئے انہوں نے جواب دیا نہیں خدا کی قسم میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لایا ہوں، بخدا تمہارے پاس یمامہ کے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہ پہنچے گا۔ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری نہ ہوگی۔کی یمامہ مکہ کے غلہ کی منڈی تھی اور وہیں سے غلہ کی رسد آتی تھی، اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس گئے اور اونٹوں کے کارواں کو جو گیہوں لے کر جاتے تھے مکہ جانے سے روک دیا۔اس کا اثر یہ پڑا کہ قریش کو فاقہ کی نوبت آگئی۔اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں عرضداشت بھیجی کہ ثمامہ کو غذائی اشیاء اور اجناس کے برآمد کی اجازت دیدیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست قبول فرما لی۔( زادالمعاد ٣٧٧ ج١)
عفوو درگزر،تحمل و بردباری، کشادہ قلبی اور قوت برداشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام تھا، وہاں تک اہل ذہانت کی ذہانت اور شعرا کے خیال و تصور کی بھی رسائی نہیں ہوسکتی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازش و کرم دلداری وکشادہ قلبی اور احسان کا ایک نمونہ وہ تھا،جب منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی ابن سلول کو قبر میں اتارا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے، حکم دیا کہ اس کو قبر سے نکالا جائے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے گھٹنوں پر رکھا اوراپنا لعاب دہن اس پر ڈالا اور اپنی قمیص مبارک اس کو پہنائی۔( صحیح بخاری کتاب الجنائز)
۔اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذہب،کوئ بھی قوم،کوئ بھی معاشرہ،سوسائٹی اور امن کے لئے کوشاں کوئی ادارہ آج تک اس طرح امن پسندی اور حق طلبی کا انقلاب برپا نہیں کرسکا،اور یہ انقلاب بھی ایسا انقلاب تھا کہ اس کے نتیجہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نظام کی بنیاد رکھ دی جس کی برکات صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انسانی سینوں میں محسوس کی جاسکتی ہیں۔ *ابو جہل کے بیٹے حضرت عکرمہ کومعافی*
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہ جن کے بارے میں کسی کو تصور بھی نہیں تھا کہ انہیں معافی مل جائے گی، عکرمہ چھوڑا جدہ پہنچ کرسمندر میں کشتی پر بیٹھ گئے کہ اب میرے لئے یہاں رہنا ممکن نہیں اس لئے مجھے جزیرۃ العرب سے نکل کر کہیں دور چلے جانا چاہیے عکرمہ کی اہلیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا عکرمہ کے کے لیے معافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔عکرمہ کی بیوی نے پوچھا وہ عکرمہ جو ابو جہل کا بیٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں جانتا ہوں اس کے لئے بھی معافی ہے۔ پوچھا عکرمہ کو ڈھونڈ کر لے آؤں؟ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا ہاں لے آؤ چنانچہ وہ جدہ تک پیچھا کر کے اپنے خاوند کو واپس لائیں جب حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استقبال کے لیے اپنی چادر مبارک بچھادی اور ارشاد فرمایا اس شخص کا آنا مبارک ہو جو مومن مہاجر ہو کر آرہا ہے اور صحابہ کرام سے فرمایا تمہارے پاس عکرمہ مومن و مہاجر کی حیثیت سے آئیں گے۔ تم میں سے کوئی ان کے باپ کو برا بھلا نہ کہے کیونکہ مردوں کو برا کہنے سے ان کی زندوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اس طرح وہ معزز شہری کے طور پر معاشرہ کا حصہ بنے۔
تصویر کا دوسرا رخ:
آپ کی بعثت سے قبل و بعد ہزاروں عظیم الشان ہستیاں گزری ہیں کہ ظلم و زیادتی، ناانصافی، قتل و غارت گری، تشدد و بربریت برپا کرنا اور سربرآوردہ اور باعزت افراد کو ذلیل و رسوا کرنا ان کا شیوہ تھا اور سربراہان قوم حصول جاہ کی خاطر انسانیت کے ساتھ ایسی ایسی سفاکیاں اور ظلم و بربریت کا وہ ننگا ناچ کیا ہے جس سے پوری تاریخ بھری پڑی ہوئی ہے۔
171 قبل مسیح ’’اینٹوکس‘‘ نامی رومی بادشاہ یہودیوں پر حملہ آور ہوکر بیت المقدس اور ہیکل کو تہہ و بلا کر دیا اور ایک ہی دن میں ہزاروں انسانوں کو قتل کر ڈالا، اینٹوکس کے سپاہیوں نے یہودیوں کے گھر میں گھس کر تلاشی لی اور جس گھر میں عہد عتیق کی کوئی کتاب پائی اس گھر کے تمام افراد کو نہایت بے دردی کے ساتھ مار ڈالا۔
700ء میں روم کا حکمراں ’’ٹیٹس‘‘ شہر بیت المقدس اور ہیکل کو نذر آتش کر دیا جس سے لاکھوں لوگ زندہ آگ میں جل کر مر گئے اور جو افراد کسی طرح زندہ باقی رہ گئے انہیں قتل کر دیا گیا اور اس حملے میں جس قدر توریت کے نسخے پائے گئے ان سب کو اپنے ساتھ لے گیا۔
135ء میں آدرین بادشاہ، شام و فلسطین پر حملہ کیا اور شہر بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہیکل کو تباہ و برباد کرکے اس پر ہل چلوا دئے اور اس جگہ پر پیٹر کا مجسمہ نصب کروا دیا اور شہر بیت المقدس کا نام اپنے خاندان کے نام پر ’’ایلیا‘‘ رکھ دیا۔
رومی فاتحین نے مصر کے قبطیوں پر یلغار کرکے ان پر وہ ظلم و ستم ڈھائے جن کے ذکر سے آج بھی قلم لرزتا ہے اس نے قبیلوں کے قبیلوں کو شکنجوں میں کس کر سمندروں میں ڈلوا دیا اور بے شمار قبیلوں کو جلا وطن کر دیا۔ ’’شاہ جسٹس مین‘‘ نے صرف ایک شہر اسکندریہ میں دو لاکھ قبیلوں کو ایک ہی حملہ میں تہہ تیغ کر ڈالا۔
514ء میں عیسائیوں کے دو گروہوں کے درمیان ایسی عظیم الشان جنگ چھڑی کہ اس کے نتیجے میں 65000 عیسائیوں کو شہر چھوڑنا پڑا۔ ان کے پادریوں نے حب جاہ اور حب مال کی خاطر سفاکیوں کی ایسی مثالیں پیش کیں جن کے مطالعے سے دل دہل اٹھتا ہے۔ ’’اسقف اعظم سینٹ سرل‘‘ نے ایک مرتبہ اپنے مریدوں کو ساتھ لیکر غیر مسلح یہودیوں پر ہلہ بول دیا اور ان سب کو جلا وطن کر دیا ان کا مال و اسباب پر سرل کے مریدوں نے قبضہ کر لیا اور ان کی عبادتگاہوں کو زمین بوس کر دیا، سرل کا حریف "ارسٹس” نامی پادری تھا ایک دن جب ارسٹس راستہ سے گزر رہا تھا تو 500 راہبوں کی جماعت اس پر ٹوٹ پڑی اور اپنی سنگ باری سے اس کو خون سے لت پت کر دیا، سرل کی ایک خاتون دوست بلشیا نامی ایک دن اپنی درسگاہ سے لوٹ رہی تھی تو اس وقت راہبوں کے ایک بڑے گروہ نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے سواری پر سے اتار کر ننگا کر دیا پھر اسی حالت میں تمام شہروں کی سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے کلیسا میں لائے جہاں پہنچ کر پادری پیٹر نے اسے اپنے گرز سے قتل کر ڈالا، قتل کے بعد اس کے گوشت کو ہڈیوں سے جدا کیا گیا، نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور آلائش جسم کو آگ میں ڈال دیا گیا۔ 531ء میں قباد کی جگہ خسرو نوشیرواں نے لی۔ ایرانیوں میں اس کی عدل پروری اب تک مشہور ہے مگر اس کو یہ مبارک لقب اپنے عزیزوں اور افسروں اور ہزاروں بے گناہوں کے قتل کی بدولت ملا مزدکی فتنہ کو اس نے تلوار کے زور سے دبانا چاہا جس کی وجہ سے بے انتہا کشت و خون ہوااور اس نے انٹاکیہ پر حملہ کرکے پورے شہر میں آگ لگا دی اور صرف فرقہ مزدکیہ کے تقریباً 18 ہزار افراد کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا۔ دوسری طرف عیسائی قوم کو دیکھئے جس نے یہودیوں اور بت پرست رومیوں کے ہاتھوں سے تین صدیوں تک برابر سخت سے سخت تکلیفیں اٹھائیں لیکن قسطنطین کے زمانہ میں جو مظلوم تھے وہ غالب اور جو ظالم تھے وہ مغلوب ہوگئے تو عیسائی قوم کا پچھلا جوہر ایک ایک کرکے رخصت ہوگیا اور ان لوگوں نے جو پہلے مظلوم تھے، انتقام کے نشہ میں چور ہوکر یہودیوں اور رومی بت پرستوں کے ساتھ وہ کچھ کیا جس سے اخلاق انسانی کی تاریخ آج بھی شرماتی ہے اور آج بھی وہ لوگ سمرنا، پریس، ہیروشیما، ناگاساکی، ویتنام، عراق، افغانستان، فلسطین میں حیوانیت و دردنگی کا جو شرمناک مظاہرہ کیا ہے’وہ تاریخ منہ پر بدنما داغ ہے۔
دشمنان اسلام کی آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں کہ کس طرح اسلام کو امن و امان کا دشمن اور انسانیت کے لئے خطرہ ثابت کیا جائے اور رحمۃ للعالمین کے اخلاق کریمانہ اور عادات فاضلانہ کو دنیا کے سامنے آنے سے روکا جائے، حالانکہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جنگوں کے درمیان موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز نمونہ سامنے آتا ہے دوسری جانب اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والی اقوام کی تاریخ ملاحظہ کریں تو زمین آسمان کا فرق معلوم ہوگا۔ تمام غزوات میں مارے جانے والوں کی کل تعداد جانبین سے تقریباً ایک ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلے میں ایک ذرا ان قوموں کی دہشت گردی کا حال بھی پڑھیے جو مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا الزم لگاتے ہیں۔ فرانس کے جمہوری انقلاب میں مؤرخین کے اندازے کے مطابق 26 لاکھ انسانوں کو گلوٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا، اسی طرح روس میں اشتراکی انقلاب نے ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل وغارت گری اور قید خانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ 1916ء کی ہولناک جنگ عظیم میں پورے ممالک نے جرمنی سے اپنے علاقوں کی آزادی کے لئے قتل و غارت گری کا جو بازار کیا اس میں روس کے 17 لاکھ، فرانس کے 13 لاکھ 70 ہزار، اٹلی کے 6 لاکھ دو ہزار، آسٹریلیا کے 8 لاکھ، برطانیہ کے 7 لاکھ دو ہزار، بلغاریہ کے ایک لاکھ، رومانیہ کے ایک لاکھ، ترکی کے دو لاکھ پانچ ہزار، بلجیم کے ایک لاکھ دو ہار، سروماہ نٹی نیگرو کے ایک لاکھ اور امریکہ کے 50 ہزار انسان مارے گئے۔ مجموعی تعداد 73 لاکھ 38 ہزار بنتی ہے۔ یہ جنگ چار سال چلی، اسی صدی کی دوسری جنگ میں جو 1938ء سے 1942ء تک چلی ان میں مختلف ملکوں کے جو انسان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ان سب کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 6 لاکھ بنتی ہے، مالی طور پر صرف امریکہ کا 1350 ارب ڈالر خرچ ہوا، جب کہ ایک کروڑ سے زائد شہری گھروں سے بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں انسان معذور ہوگئے، اس جنگ عظیم دوم میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی پرامن آبادی پر ایٹم بم گرا کر دو لاکھ 75 ہزار انسانوں کو لمحہ بھر میں ہوا میں تحلیل کر دیا، 12 ہزار ٹن وزنی بم شہری آبادیوں پر برسائے گئے جن کی وجہ سے درجہ حرارت 15 لاکھ ڈگری کاربوہائٹ سے زیادہ ہوگیا، ایسے میں انسانیت کا کیا حال ہوا ہوگا۔ 1955ء میں کورین وار میں جو امریکہ نے کوریا پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں کری 15 لاکھ انسان قتل ہوئے۔ 1990ء کی گلف وار میں جو سپرپاور کی سرپرستی میں لڑی گئی ایک لاکھ انسان جانوں کا ضیاع ہوا۔ عالمی سپرپاور روس کی مسلط کردہ افغان وار میں جو 25 دسمبر 1979ء سے 1999ء تک ہوئی، 10 لاکھ سے زائد انسان مارے گئے اور کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔دوسری طرف اسلام کی ٨ سالہ جنگوں کا نقشہ دیکھیے تو نظر آئیگا کہ ان میں صرف ایک ہزار کے لگ بھگ افراد اس میں کام آئے،جن میں مسلمان اور ان کے دشمن کے افراد شامل ہیں،پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر ظلم کا الزام وہ لوگ لگاتے ہیں جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو محض غیر علاقہ پر قبضہ کرنے یا اپنے علاقہ سے دشمن کو ہٹانے کے لئے موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔
اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے ذرا اپنے گریبان میں تو جھانکیں۔
اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا ہے:
دراصل سچی بات یہ ہے کہ اسلام دشمنوں کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اسلام اپنے عالی تہذیب، اخلاقی اقدار، عدل و انصاف کی تعلیمات کی وجہ سے نہایت تیزی سے پوری دنیامیں پھیل رہا ہے لہٰذا کسی طرح اسلام اور مسلمانوں کی اصل شکل کو مسخ کرکے انہیں شدت پسند، دہشت گرد ثابت کیا جائے تاکہ اس طرح ہمارا وحشی پن بھی لوگوں کی نگاہ سے چھپا رہے اور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت کی تعلیم بھی دنیا سے اوجھل رہے، نہیں تو کیا وہ نبی دہشت کی تعلیم دے سکتا ہے جو بدلہ لینے سے زیادہ معاف کرنے پر یقین کرتا ہو جس کی پوری زندگی "صل من قطعک واعف عمن ظلمک و احسن من اساء الیک” کی عملی و قولی تفسیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” کہ میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت کے باوجود معاف کر دوں، جو مجھ سے تعلق توڑے میں اس کے ساتھ تعلق جوڑوں جو مجھے محروم رکھے اس کو میں عطا کروں۔ غضب اور خوشنودی دونوں حالتوں میں حق بات کہوں۔ تنگ دستی و فراخی میں میانہ روی اختیار کروں۔ خلوت و جلوت (ہر حالت میں) میں اللہ سے ڈرتا ہوں”۔ (مشکوٰۃ) خاص طور پر اپنے اور پرائے کے ساتھ رحیمانہ و مشفقانہ طریقے سے پیش آنا آپ کا شیوہ تھا۔ غیروں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آنے کے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات ہیں۔ غزوہ بدر کے قیدیوں میں ہی ایک شخص سہیل بن عمرو نامی تھا جو عام مجمعوں میں آپؐ کے خلاف اشتعال انگیز اور گستاخانہ تقریریں کیا کرتا تھا اور آپ کی ہجو میں اشعار کہا کرتا تھا جب حضرت عمرؓ کی نظر اس موقع پر اس پر پڑی تو کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سہیل ابن عمرو ہے جو آپؐ کی شان مبارک میں گستاخانہ کلام کرتا ہے، آپؐ اس کے نیچے کے دو دانت اکھڑوا دیجئے تاکہ یہ بیان و تقریر کے قابل ہی نہ رہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، عمرؓ میں لوگوں کے چہروں کو بگاڑنے کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ میں نبی ہوں لیکن اگر میں کسی کا عضو بیکار کروں گا تو اس کے عوض قیامت کے دن اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا۔ (الرحیق المختوم) خیبر کی ایک یہودیہ عورت نے آپ کی دعوت کی اور آپ کو زہر آلود بکری کھلا دی جیسے ہی آپ نے نوالہ اپنے منہ میں لیا گوشت نے یہ گواہی دی کہ مجھ میں زہر ملایا گیا ہے، بعد کو اس عورت نے اپنے جرم کا اقرار بھی کر لیا۔ چنانچہ وہ خدمت اقدس میں پیش کی گئی، آپ سے لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس یہودیہ کو قتل فرما دیجئے، آپ نے فرمایا: "نہیں” پھر اس عورت کو انتقام لئے بغیر معاف فرما دیا۔ (بخاری) ایک دفعہ ایک کافر آپ کا مہمان ہوا، رات کو اس نے آپ کے بستر پر ہی آرام کیا حتیٰ کہ آپؐ کے بستر پر رفع حاجت بھی کر دیا اور صبح آپؐ کو بتائے بغیر ہی نکل گیا مگر جانے کے بعد اس کو یاد آیا کہ میں نے تو جلد بازی میں اپنی تلوار وہیں پر بھول آیا ہوں جب یہ شخص اپنی تلوار لینے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اپنے دست مبارک سے بستر دھو رہے ہیں اور صحابہ عرض کر رہے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دھو دیتا ہوں مگر آپ فرماتے ہیں کہ وہ میرا مہمان تھا، مجھے ہی یہ کام کرنے دو۔ اس کافر نے آپؐ کے اس عمل کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوا کہ فوراً اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو بھی اپنی ذات سے ادنیٰ سی بھی تکلیف نہیں پہنچائی، انسان تو انسان آپؐ نے کبھی کسی جانور کو بھی تکلیف نہیں پہنچائی بلکہ ہمیشہ لوگوں کو ان کے ساتھ رحمت و شفقت کی تعلیم فرماتے ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپ سارے دنیا و جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتقام لینے سے زیادہ عفو و درگزر، مہربانی و نرمی محبوب تھی۔ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض دیا پھر اس کے بعد وقت مقررہ سے پہلے قرضے کا تقاضہ کرنے لگا، آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے مگر اس یہودی نے کہا مگر میں بغیر وصول کئے یہاں سے ٹلوں گا نہیں، آپ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ بیٹھتا ہوں پھر آپؐ ظہر سے لیکر فجر تک اس کے ساتھ بیٹھے رہے، جب صحابہ کرام نے اس کی گستاخی پر ناراضگی کا اظہار فرمایا تو آپ انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت نے مجھے کسی ذمی یا کسی اور شخص پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر آپؐ نے اس یہودی کو مطلوبہ رقم دینے کے ساتھ ساتھ بیس صاع کھجور مزید عنایت فرمایا چنانچہ اس یہودی نے آپؐ کا یہ سلوک و احسان، عفو و درگزر، عدل و انصاف کا معاملہ دیکھ کر اسی وقت مسلمان ہوگیا اور اپنا آدھا مال اللہ کے لئے وقف کر دیا۔ (مشکوٰۃ) آج دشمنان اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کا علمبردار باور کرانے کے لئے مسلم ممالک پر جنگیں تھوپ رہے ہیں تاکہ اپنے حکمراں کی ظلم و بربریت کو چھپایا جائے ان کے حکمراں نے اپنی شہرت و انتقام کے لئے ظلم و بربریت، کشت و خون کا وہ ننگا ناچ کیا ہے کہ جس سے حیوانیت بھی شرمندہ ہے۔
کرومہربانی تم اہل زمیں پر:
اس کے برخلاف رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ کو فتح کرنے کے بعد عفو و درگزر رحمت و شفقت کی وہ انوکھی مثال قائم فرمائی ہے جو قیامت تک آنے والے انسانیت کے لئے اسوہ و نمونہ ہے۔ آپ جب مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے ہیں تو اس وقت آپ کا سر عبدیت و تواضع کی وجہ سے اونٹنی کے کجاوہ سے لگ رہا ہوتا ہے اور حضرت اسامہ ابن زید آپ کی سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں، اس وقت ایک شخص آپ سے گفتگو کرنا چاہتا ہے تو رعب نبوت کی وجہ سے کانپ اٹھتا ہے، آپ دیکھ کر فرماتے ہیں ڈرو نہیں اطمینان رکھو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو قریشی کی ایک ایسی عورت کا لڑکا ہوں جو گوشت کے سوکھے ٹکڑے کھایا کرتی تھی۔ (بخاری)جب صحابہ مکہ معظمہ کی طرف نہایت وقار و سنجیدگی کے ساتھ بڑھ رہے ہوتے ہیں کہ دوران راہ ایک صحابی کی نظر ابوسفیان ابن حرب پر پڑتی ہے اس وقت تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تو اس وقت ان صحابی کی زبان سے جوش میں یہ جملہ نکل جاتا ہے۔ آج گھمسان کا دن ہے اور خونریزی کا دن ہے، آج کعبہ میں سب جائز ہوگا، آج اللہ نے قریش کو ذلیل کیا ہے۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو ارشاد فرمایا نہیں نہیں آج تو رحم و معافی کا دن ہے، آج اللہ قریش کو عزت عطا فرمائے گا اور کعبہ کی عظمت کو بڑھائے گا اور ان صحابی سے جھنڈا لیکر دوسرے صحابی کو دے دیا اور مکہ میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اعلان فرما دیا کہ جو شخص مقابلے سے ہاتھ روک لے اس کو امان ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے جو ابوسفیان اور حکیم ابن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اس کو امان ہے، حالانکہ جس وقت آپؐ نے شہر مکہ کو اپنے قبضہ میں لیا تھا اس وقت وہاں بڑے بڑے دشمنان اسلام موجود تھے، وہاں وہ بھی تھے جو آپ کے جسم اطہر پر پتھر برسائے تھے، وہ بھی تھے جو آپؐ کی ہجو میں اشعار کہے تھے،بس آپ کے ایک اشارے کی دیر تھی، ان کی گردنیں تن سے جدا ہوسکتی تھیں۔ مگر قربان جائیے آپ کی رحیم و شفیق ذات پر کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا جاؤ تم سب کے سب چھوڑ دئے گئے۔ ’’حسن اخلاق، بنی نوع انسان کا اعلیٰ ترین وصف ہے، انسانی زندگی میں اس کی زبردست اہمیت و افادیت ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ نے اپنے آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز فرما کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اعلیٰ حسن اخلاق کی حامل تھی، آپ کی پوری زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جو اخلاق کے خلاف ہو لیکن نہایت دکھ کی بات ہے کہ آج مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کو اپنانے کے بجائے نفسانی خواہشات کی خاطر اخلاقی قدروں کو پامال کر رہے ہیں،اکیسویں صدی کے حالات کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس دور میں خوں ریزی،انسانی حقوق کی پامالی،خودغرضی،احسان فراموشی،ظلم وستم کی از حد ارزانی ہے،اور ہرشخص کی ذہنیت مفاد پرستانہ ہوچکی ہے،جس کی بنیادی وجہ نبی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سراپا رحمت تعلیمات سے دوری اور نفسانی خواہشات کی پیروی ہے۔اسلام جس کی بنیادی خصوصیت امن پسندی اور جزبہ رحمت وشفقت ہے،آج اسی کے ماننے والے اس راہ سے دور ہیں’اور ان کے عملی کردار سے ثابت ہوتاہے کہ وہ سنگ دل اور تخریب پسند مزاج رکھتے ہیں،نہ چھوٹوں پر شفقت ہے،نہ بڑوں کی عزت ہے،نہ پڑوسی کی فکر ہے،نہ غریب کی نصرت ہے،اور نہ ہی والدین،اعزاءواقرباءکے حقوق کی ادائیگی کا کوئی پاس باقی ہے،بس مادیت اور خود غرضی کا ایک سیلاب بلا خیز ہے جس میں ہر شخص بہا جارہاہے۔حالانکہ دور حاضر میں مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر اخلاق محمدی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور حسن اخلاق کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے۔” الراحمون یر حمھم الرحمن،ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء.”( سنن الترمذی:٤٩.٢) رحم کرنے والوں پر رحمان ( اللہ تعالی) رحم فرماتا ہے،تم زمین والوں پر رحم کرو،تم پر آسمان والا رحم فرمائے گا۔
Comments are closed.